مصر کا تلخ لہجہ اور صحرائے سینا میں فوجیوں کی تعیناتی: اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک اسے ’دشمن‘ کیوں قرار دے رہا ہے؟

دوحہ میں عرب اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار اسرائیل کو ’دشمن‘ قرار دیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے دوسرے ممالک پر تابڑ توڑ حملوں نے مصر اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
عبدالفتاح سیسی رئیس‌جمهور مصر در حال سخنرانی، اطراف او نظامی‌های مصری قرار دارند
Getty Images

حال ہی میں اسرائیل کے بارے میں مصر کا لب و لہجہ ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوا ہے جس پر یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا یہ تبدیلی دونوں ممالک کے درمیان تصادم کے امکانات کو ظاہر کر رہی ہے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی قیادت پر اسرائیلی حملے کے بعد 15 ستمبر کو دوحہ میں عرب اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی نےاقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار اسرائیل کو ’دشمن‘ قرار دیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ پر حملے کے بعد خطے میں کشیدگی اور اسرائیل کے دوسرے ممالک پر تسلسل کے ساتھ حملوں نے مصر اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

میڈیا اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے فوجی تصادم کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

مصر کے صدر السیسی کے اسرائیل کے بارے میں بیان کے چند دن بعد ہی اسرائیلی فوج نے کہا کہ مصر سے اسرائیل کی سرحد میں 100 سے زیادہ ڈرون داخل ہوئے جن میں سے کچھ مسلح بھی ہیں۔ جس پر عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیلی کی جانب سے کسی جارحیت کے لیے ایک ’پیشگی‘ اقدام ہو سکتا ہے۔

مصر اسرائیل کو تسلیم کرنے والے پہلا عرب ملک تھا۔ مصر کے سابق صدر انور سادات نے سنہ 1977 میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا جس کے بعد 1979 میں اسرائیل اور مصر کے مابین دو طرفہ امن معاہدہ ہوا تھا۔

7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد مصر نے سفارتکاری کے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کے لیے حماس اور اسرائیل کے درمیان بطور ثالث اہم کردار ادا کیا تھا۔

مصر نے اسرائیل کی جانب سے کی گئی متعدد اشتعال انگیزیوں کاروائیوں پر بھی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ان کارروائیوں میں مصر کی سرحد کے ساتھ موجود رفح بارڈر کراسنگ پر بمباری، فلاڈیلفیا کوریڈور میں اسرائیلی افواج کی موجودگی، موراگ کوریڈور پر اسرائیلی قبضہ، اور رفح کا محاصرہ وغیرہ شامل ہیں۔

لیکن دوحہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد مصر کا رویہڈرامائی طور پر تبدیل ہوا۔ صدر السیسی اور قطر کے امیر نے عرب ممالک کی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ’متحدہ محاذ‘ بنانے کا مطالبے پر زور دیا۔

عرب میڈیا نے دوحہ پر اسرائیل کے حملے کو خطے میں اسرائیل کی جانب ’نئی سُرخ لکیر‘عبور کرنے سے تشبیہ دی۔

اسرائیلی حملے نے اس تشویش اور قیاس آرائیوں کو بھی جنم دیا ہے کہ آئندہ اسرائیل کا ہدف اب کون سا عرب ملک ہو سکتا ہے۔

جمعیت زیاد سرگردان و شهر ویران شده
Getty Images

مصر کے لہجے میں تلخی اُس وقت نمایاں ہوئی، جب گذشتہ ماہ ستمبر کے وسط میں اسرائیل نے غزہ شہر پر زمینی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا اورعوام کو انخلا کا حکم دیا جس سے لاکھوں فلسطینی شہریوں کو غزہ کی پٹی کے جنوب میں نقل مکانی کرنا پڑی۔

اسرائیل کے اس آپریشن سے غزہ سے فلسطینیوں کی جزیرہ نما سینائی میں جبری منتقلی سے متعلق مصر کے پرانے خوف کو دوبارہ زندہ کر دیا۔

یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے مصر ’سرخ لکیر‘ اور اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

اس حملے سے چند روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے ایک ٹیلی گرام چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو نکالنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

انھوں نے مصر پر الزام عائد کیا تھا کہ ’اُس نے غزہ کے جنگ زدہ علاقوں سے اپنی مرضی سے انخلا کرنے والے رہائشیوں کو وہاں زبردستی روکا ہوا ہے۔‘

اسرائیلی وزیراعظم نے ایک اور انٹرویو میں کہا تھا کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ ایک ’تاریخی اور روحانی مشن‘ سرانجام دے رہے ہیں۔

کشیدگی بڑھنے کی علامات کیا ہیں؟

عبدالفتاح سیسی رئیس‌جمهور مصر پشت تریبون سخنرانی
Getty Images
مصر کے صدر السیسی نے اسرائیل کو ’دشمن ملک‘ قرار دیا ہے

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوحہ میں عرب اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس میں مصر کے صدر کا اسرائیل کو ’دشمن‘ قرار دینا کشیدگی میں اضافے کی ایک اہم علامت اور اسرائیلی خلاف ورزیوں پر قاہرہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا واضح اشارہ ہے۔

اسرائیل میں دائیں بازو کے اخبار ’اسرائیل ہیوم‘ نے لکھا ہے کہ یہ اقدام ’صرف تنقید نہیں بلکہ قاہرہ کے محاذ آرائی کے لیے عوامی جواز فراہم کرنا ہے‘ اور اخبار کا کہنا ہے کہ ’قاہرہ اسرائیل کو تصادم کی دعوت دے رہا ہے۔‘

دوحہ پر حملے کے بعد مصر نے مبینہ طور پر امریکہ کے ذریعے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ مصرکی سرزمین پر حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے ’تباہ کن نتائج‘ ہو سکتے ہیں۔

مڈل ایسٹ آئی نامی ویب سائٹ نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس سے پہلے مصر کو اطلاع ملی تھی کہ اسرائیلقاہرہ میں حماس کے رہنماؤں کو قتل کرے گا لیکن مصر نے اس سازش کو ناکام بنا دیا تھا۔

حالیہ مہینوں میں سفارتی تناؤ کے آثار اُس وقت زیادہ نمایاں ہوئے جب اسرائیل کے لیے مصر کے نئے سفیر کی تعیناتی پر اُن کی سفارتی اسناد کی منظوری میں تاخیر ہوئی۔

عسکری تصادم کے امکانات

تانک‌ها در صحرای سینا
Getty Images
مصر نے سینا میں اپنی افوج کی تعداد بڑھا دی ہے جس پر اسرائیل کو اعتراض ہے

اس کشیدگی کا سب سے نمایاں اقدمجزیرہ نما سینا میں مصری فوجی دستوں کی تعیناتی ہے۔

گذشتہ سال مارچ میں اسرائیلی حکام نے سینا میں فوجوں کی موجودگی پر خبردار کرتے ہوئے اسے 1979 کے امن معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

امریکی نیوز سائٹ Axios نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ مصر پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ جزیرہ نما سینا میں مصرکی عسکری موجودگی کم کرے۔

دوسری جانب مصر کا کہنا ہے کہ سینا میں فوج کی موجودگی کا مقصد ’تمام خطرات کے خلاف سرحدی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔‘

پچھلے مہینے، ایک سینیئر فوجی اہلکار نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ مصر نے شمالی سینا میں تقریباً 40,000 فوجی تعینات کیے ہیں، جو کہ امن معاہدے میں طے شدہ حد سے تقریباً دوگنا ہے۔ مصر نے مبینہ طور پر چینی ساختہ لانگ رینج ایئر ڈیفنس سسٹم بھی اہم سٹریٹجک پوائنٹس نصب کیے ہیں۔

اماراتی نیوز ویب سائٹ دی نیشنل کے مطابق سینا کے ہزاروں قبائلی، جنھوں نے پہلے خود کو شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے مسلح کیا تھا، تنازع کی صورت میں معاون کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تاہم اس بات پر زور دیا کہ ان اقدامات کا مقصد محاذ آرائی میں کمی یا ’مصر اسرائیل جنگ کے امکانات کم کرنا ہے۔‘

سیاسیات کے پروفیسر احمد یوسف کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی اسرائیلی حملے کی صورت میں مصر اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔‘

اس کے برعکس، مصری کونسل برائے خارجہ امور کے رُکن علی الحنفی نے کہا کہ فوجی تصادم’اسرائیل کے خطے میں توسیع پسندانہ عزائم اور رجحانات پر منحصر ہے۔‘

اسرائیل مصر ممکنہ تصادم کا خطے کے لیے کیا مطلب ہو گا؟

سیسی و اردوغان با عینک‌های آفتابی و لبخندزنان
Getty Images
مصر اور ترکی نے 13 سال کے وقفے کے بعد حال ہی میں مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں

مصر اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے وسیع علاقائی مضمرات ہو سکتے ہیں اور ان حالات میں نئے سیاسی، فوجی اور دفاعی اتحاد تشکیل پا سکتے ہیں۔

سعودی عرب اور پاکستان نے 17 ستمبر کو ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق ’کسی بھی ایک ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔‘

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی عندیہ دیا تھا کہ دیگر عرب ممالک بھی اس معاہدے میں شامل ہو سکتے ہیں۔

مصر نے بھی نئے اتحادیوں کی تلاش اور نئے اتحاد قائم کرنا کا عندیہ دیا ہے۔

مصر اور ترکی کے مابین 13 سال کے وقفے کے بعد گذشتہ ماہ بحیرہ روم میں پانچ روزہ دفاعی مشقیں ہوئیں جسے ’سمندر دوستی‘ کا نام دیا گیا۔

ترک حکومت کے سابق مشیر نے اس مشق کو خطے کو لاحق خطرے میں ’اسرائیل کے لیے براہراست پیغام‘ قرار دیا ہے۔

قاہرہ نے غزہ شہر میں اسرائیل کی جارحیت سے نمٹنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرتے ہوئے سعودی عرب، قطر اور ایران کے ساتھ بات چیت کی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US