انڈیا کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور، سریکھا یادو ریلویز میں 36 سالہ خدمات کے بعد اپنے پیشے کو خیر باد کہا اور ریٹائرمنٹ لے لی۔ وہ انڈیا کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور کے طور پر اپنی ملازمت ختم کر رہی ہیں۔
سریکھا یادو اب ریٹائر ہو چکی ہیں لیکن وہ بہت سی نوجوان لڑکیوں کے لیے مشعل راہ ہیں'مشینیں جنس نہیں دیکھتیں، وہ آپ کی صلاحیت دیکھتی ہیں۔'
یہ کہنا ہے انڈیا کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور، سریکھا یادو کا، جو گذشتہ تین دہائیوں سے انڈیا میں ٹرینیں چلا رہی ہیں۔
اس ہفتے کے آغاز میں یادو نے ریلویز میں 36 سالہ خدمات کے بعد اپنے پیشے کو خیر باد کہا اور ریٹائرمنٹ لے لی۔ وہ انڈیا کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور کے طور پر اپنی ملازمت ختم کر رہی ہیں۔
اپنے کریئر کے دوران انھوں نے انڈیا کے مختلف علاقوں میں مختلف قسم کی ٹرینیں چلائیں، بعض اوقات مشکل راستوں اور سخت موسموں کے درمیان میں بھی۔
آج انڈین ریلوے میں 2000 سے زیادہ خواتین ٹرین آپریٹرز موجود ہیں، لیکن سریکھا یادو نے یہ پیشہ اس وقت اختیار کیا جب خواتین کے لیے یہ شعبہ کسی شجر ممنوعہ کی طرح تھا۔
سریکھا یادو 1965 میں انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹرا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔
بچپن سے ہی انھوں نے محنت کرنا سیکھا، وہ کھیت میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتیں اور ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتی رہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے ہمیشہ تعلیم کو اولین ترجیح دی۔
’اگرچہ میرے والدین معمولی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے، لیکن سوچ کے اعتبار سے ترقی پسند تھے۔ انھوں نے مجھے تعلیم دی، اور اسی کی بدولت میں یہاں تک پہنچ سکی۔‘
الیکٹریکل انجینیئرنگ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد سریکھا یادو نے فوراً ملازمت کی تلاش شروع کی۔ انھوں نے اخبار میں انڈین ریلوے کا ایک اشتہار دیکھا، جس میں اسسٹنٹ ٹرین ڈرائیورز کی ضرورت تھی، اور انھوں نے اس موقع کو ضائع نہیں کیا۔
اس وقت انھیں یہ علم نہیں تھا کہ انڈیا میں کوئی خاتون ٹرین ڈرائیور موجود نہیں۔ وہ اسے صرف روزگار کا ذریعہ سمجھ رہی تھیں۔
انڈیا میں سرکاری نوکریوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، کیونکہ ان میں تحفظ اور کئی قسم کی مراعات شامل ہوتی ہیں۔ لیکن ان میں منتخب ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ایک آسامى کے لیے ہزاروں امیدواروں میں مقابلہ ہوتا ہے۔
سریکھا یادو نے امتحانات اور انٹرویوز شاندار انداز میں پاس کیے اور 1989 میں انھیں پہلی ملازمت مال گاڑی چلانے کی صورت میں ملی۔
ٹریننگ کے دوران ہی انھیں احساس ہوا کہ یہ شعبہ مکمل طور پر مردوں کا ہے۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ جب وہ پہلی بار تربیت کے لیے گئیں تو انھیں توقع تھی کہ کم از کم کچھ خواتین تو ہوں گی، لیکن حیرت ہوئی کہ پوری کلاس میں ایک بھی لڑکی نہیں تھی۔
'میں نے سوچا کہ اب کیا کروں۔ لیکن پھر خیال آیا، اگر میں یہ نوکری نہیں لوں گی تو کوئی اور لے لے گا۔ جب منتخب ہو گئی ہوں تو یہ کام بھی میں ہی کروں گی۔'
مز یادو کو اندازہ تھا کہ انھوں نے ایک مشکل راستہ چُنا ہے، لیکن انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
انڈیا میں ریلوے عوام کے لیے لائف لائن ہے'شروع کے سال بہت چیلنجنگ تھے'
انھوں نے کہا کہ زیادہ تر سیکھنا دورانِ کام ہی ہوا، کیونکہ کوئی کتاب ٹرین چلانے کا ہنر نہیں سکھاتی۔
'ٹرین آپریٹرز کو مختلف مانیٹرنگ سسٹمز کے ذریعے سفر کے کئی پہلوؤں پر نظر رکھنی پڑتی ہے، جیسے راستہ اور رفتار۔ ہر وقت چوکس رہنا پڑتا ہے اور فوری فیصلے کرنے ہوتے ہیں تاکہ حادثات سے بچا جا سکے اور مسافروں کی سلامتی یقینی بنائی جا سکے۔'
انڈیا کے وسیع ریلوے نیٹ ورک پر روزانہ ہزاروں ٹرینیں چلتی ہیں، اور لاکھوں مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچاتی ہیں۔ انڈیا میں ٹرینوں کو ملک کی لائف لائن کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کا نیٹ ورک وسیع اور کرایہ سستا ہے۔
سریکھا یادو کہتی ہیں کہ انھوں نے اشاروں کو سمجھنا، مسائل کا اندازہ لگانا اور فوری ردعمل دینا سیکھا تاکہ کسی بھی بحران سے بچا جا سکے۔
سنہ 1996 میں ان کا پروموشن ہوا یعنی انھیں ترقی دے کر لوکوموٹیو پائلٹ بنا دیا گیا۔ اب وہ ٹرین کے کنٹرول روم کی مرکزی آپریٹر تھیں۔
کام کے غیر متوقع اوقات، تاخیر اور حادثات کے باعث، ان کا شیڈول بے حد غیر یقینی ہوتا تھا۔
چاہے بارش ہو یا دھوپ، انھیں اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا ہی ہوتا تھا۔ کھانے کے وقت طے نہیں تھے اور بعض ٹرینوں پر خواتین کے لیے نہ بیت الخلا تھا اور نہ کپڑے تبدیل کرنے کی جگہ، جو ایک الگ مسئلہ تھا۔
مز یادو کہتی ہیں کہ انھوں نے سیلاب زدہ پٹریوں پر، پہاڑی راستوں پر، اور کئی دنوں تک جاری رہنے والے سفر میں بھی ٹرینیں چلائیں۔
سریکھا یادو کو ریلویز نے جشن اور بہت احترام کے ساتھ الوداع کہاانھوں نے دو بار دورانِ ملازمت حمل کے ساتھ کام کیا اور اپنے بچوں کی پرورش بھی ساتھ ساتھ کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی نوکری کی نوعیت ایسی تھی کہ جب وہ بچوں سے دور ہوتیں، تو ان کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ہوتا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ 'آپ کو سگنل، پٹری، اوور ہیڈ وائر، ساتھی کی بات، اور رفتار سب پر بیک وقت نظر رکھنی ہوتی ہے۔ ایسے میں بچوں کے بارے میں کیسے سوچا جا سکتا ہے؟ اگر ذہن ایک لمحے، یہاں تک کہ ایک مائیکرو سیکنڈ کے لیے بھی بھٹک جائے، تو پوری ٹرین کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔'
وہ یاد کرتی ہیں کہ کئی بار انھیں خاندانی تقریبات اور تفریحی مواقع چھوڑنے پڑے۔ لیکن گھر والوں اور مرد ساتھیوں کے تعاون نے انھیں سہارا دیا۔
’میرے کوليگ بہت اچھے تھے۔ انھوں نے مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں عورت ہوں، یا الگ ہوں۔ ہو سکتا ہے دوسرے لوگ ایسا سوچتے ہوں، لیکن میرے ساتھیوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔‘
اپنے طویل کریئر میں سریکھا یادو کو نئے ٹرین آپریٹرز، خصوصاً خواتین کی تربیت کا موقع بھی ملا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد اب ان کی خواہش ہے کہ ان کا کریئر دوسروں کے لیے راہ نما بنے۔