انور سادات: جب ’اسرائیل کے خلاف فتح‘ کی فوجی پریڈ کے دوران مصری صدر پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی

انور سادات اپنے قتل سے دو سال قبل اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے والے پہلے عرب رہنما تھے۔ اس فیصلے نے بہت سے مصریوں اور عربوں کو ناراض کیا اور ان کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے۔
انور سادات کا قتل
Getty Images
6 اکتوبر 1981 جب مصر کے صدر انور سادات کو قتل کیا گیا

چھ اکتوبر 1981 وہ دن ہے جب قاہرہ میں ایک فوجی پریڈ کے دوران فوجی افسروں کے ایک گروہ نے مصر کے صدر انور سادات کو قتل کر دیا تھا۔ یہ وہ سال تھا جب مصر اور اسرائیل کی قیادت میں عربوں کے درمیان اکتوبر 1973 کی جنگ شروع ہونے کی آٹھویں برسی منائی جا رہی تھی۔

انور سادات یہ سمجھ رہے تھے کہ انھیں اسرائیلی فوج پر فتح حاصل ہوئی اور وہ اس دن کو اپنی فتح کے طور پر دیکھتے تھے۔

انور سادات اپنے قتل سے دو سال قبل اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے والے پہلے عرب رہنما تھے۔ اس فیصلے نے بہت سے مصریوں اور عربوں کو ناراض کیا اور ان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا باعث بنا۔

یہ سب معاملہ ہے کیا؟

آغاز

محمد انور سادات 25 دسمبر 1918 کو مصر میں دریائے نیل کے کنارے منوفیہ گورنریٹ کے ایک گاؤں میت ابو الکوم میں پیدا ہوئے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق انور سادات نے 1938 میں قاہرہ کے ملٹری کالج سے گریجویشن کی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران انھوں نے جرمنوں کی مدد سے انگریزوں کو مصر سے نکالنے کا منصوبہ بنایا۔

انگریزوں نے انھیں سنہ 1942 میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا لیکن وہ دو سال بعد فرار ہو گئے۔ سنہ 1946 میں انور سادات کو برطانیہ کے حامی وزیر امین عثمان کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کے بعد گرفتار کیا گیا۔ انھیں سنہ 1948 میں بریت کے بعد رہائی ملی۔

سنہ 1950 میں انھوں نے قومی آزادی کی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔

انور سادات ’فری آفیسرز آرگنائزیشن‘، جس نے 1952 میں مصری بادشاہت کا تختہ الٹ دیا تھا، کے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے سنہ 1956 میں صدارت کے لیے جمال عبدالناصر کے انتخاب کی بھی حمایت کی۔

انور سادات
Getty Images
انور سادات انقلابی کمانڈ کونسل کے ارکان کے ساتھ، محمد نجیب، جمال عبدالناصر اور عبدل حکیم عامر بھی تصویر میں ہیں

صدارت اور چیلنجز

انور سادات 1964 سے 1966 کے درمیان نائب صدر اور 1969 سے 1970 کے درمیان مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

اس کے بعد وہ 28 ستمبر 1970 کو جمال عبدالناصر کی موت کے بعد قائم مقام صدر بنے اور 15 اکتوبر 1970 کو عوامی ریفرنڈم میں صدر منتخب ہوئے۔

انھیں جمال عبدالناصر کے بعد طاقت کے نام نہاد مراکز کی صورت بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ ان کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو گئے۔ طاقت کے اس ستون کو مصر میں ’اصلاحی انقلاب‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

مصر کی معیشت بھی 1967 کی جنگ اور اسرائیل کے خلاف مصری فوج کی شکست کے بعد ابتر حالت میں تھی اور مصری معاشرہ مہنگائی اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار تھا۔

سنہ 1972 میں انور سادات نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ سوویت یونین انھیں خاطر خواہ مدد فراہم نہیں کر رہا ہے، ہزاروں سوویت تکنیکی ماہرین اور مشیروں کو ملک سے نکال دیا۔

انور سادات
Getty Images

سنہ 1973 کی جنگ

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے لیے مصری امن کے اقدامات سادات کے دور صدارت کے اوائل میں شروع ہوئے تھے، جب انھوں نے اسرائیل کے جزیرہ نما سینائی (جس پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا) کی صورت میں امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی رضامندی کا اعلان کیا تھا۔

اس اقدام کے ناکام ہونے کے بعد، سادات نے شام کے ساتھ مل کر ان علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک فوجی حملہ شروع کیا، جس نے 6 اکتوبر 1973 کو عرب اسرائیل جنگ کو جنم دیا۔

مصری فوج نے 6 اکتوبر کو نہر سویز کے مشرقی کنارے کے ساتھ بظاہر ناقابل تسخیر اسرائیلی قلعہ بندیوں پر اپنے حملے میں حکمت عملی سے سرپرائز حاصل کیا۔

اگرچہ اسرائیل نے جزیرہ نما سینائی پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے مصری پیش قدمی کو پسپا کر دیا، لیکن اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

سادات جنگ عرب رہنما کے طور پر کافی اہمیت کے ساتھ ابھرے۔ بین الاقوامی اسٹیج پر ان کا موقف بھی مضبوط ہوا، بہت سے لوگوں نے انھیں ایک قومی ہیرو اور ایک ہوشیار رہنما سمجھا جس نے عرب قوم کا وقار بحال کیا۔ تاہم، یہ جنگ محض ایک فوجی کارروائی نہیں تھی۔ یہ بڑے سفارتی اقدامات کا پیش خیمہ تھا۔

انور سادات
Getty Images
انور سادات نے امریکی صدر جمی کارٹر اور اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے

امن

جنگ کے بعد انور سادات نے مشرق وسطیٰ میں امن کے حصول کے لیے کام کیا۔ انھوں نے 19 اور 20 نومبر 1977 کو اسرائیل کا ایک تاریخی دورہ کیا، جس کے دوران انھوں نے اسرائیلی اسمبلی کو اپنا امن منصوبہ پیش کرنے کے لیے یروشلم کا سفر کیا۔

اس سے سفارتی کوششوں کا سلسلہ شروع ہوا جسے انور سادات نے عرب دنیا اور سوویت یونین کے بیشتر ممالک کی شدید مخالفت کے باوجود جاری رکھا۔

امریکی صدر جمی کارٹر نے انور سادات اورمناحم بيغن کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ثالثی کی جس کے نتیجے میں 17 ستمبر 1978 کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط ہوئے جو مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک ابتدائی امن معاہدہ تھا۔

انور سادات اور مناحم بيغن کو 1978 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا، اور ان کے جاری سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں 26 مارچ 1979 کو مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک امن معاہدے پر دستخط ہوئے، جو مؤخر الذکر اور کسی بھی عرب ملک کے درمیان پہلا معاہدہ تھا۔

ناراضی اور قتل

مصر اور اسرائیل کے درمیان اس معاہدے کے بعد مغرب میں انور سادات کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ مصر میں معاہدے کی مخالفت، گہرے ہوتے معاشی بحران اور انور سادات کی طرف سے اختلاف رائے کو دبانے کی وجہ سے ان کی ملک میں مقبولیت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔

ستمبر 1981 میں انور سادات نے اپنے مخالفین کے خلاف ایک بڑا سکیورٹی آپریشن شروع کیا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 1500 سے زائد افراد کو قید کیا گیا۔

اگلے مہینے، 6 اکتوبر 1973 کو مسلح افواج کے دن کی فوجی پریڈ کے دوران مصری اسلامی جہاد تحریک کے ارکان نے انور سادات کو قتل کر دیا۔

انور سادات نے فوجی سلامی لی۔ اس کے بعد نامعلوم سپاہی کے مقبرے پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور مصری فضائیہ کی نمائش دیکھ رہے تھے جب دو ہینڈ گرنیڈ پھٹ گئے۔

ان دھماکوں کے بعد بندوق بردار اہلکار صدارتی پریڈ کے پلیٹ فارم کے سامنے فوجی ٹرک سے چھلانگ لگا کر شرکا کی طرف بھاگے اور اہلکاروں پر فائرنگ کی۔

اس موقع پر سکیورٹی اہلکاروں کی معمول کی بڑی تعداد کے باوجود عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور ایک منٹ سے زیادہ وقت تک فائرنگ کرتے رہے۔

انور سادات
Getty Images

جس وقت صدر انور سادات کے محافظوں نے جوابی فائرنگ کی تو اس وقت تک ’پوڈیم‘ کے اندر موجود کم از کم دس افراد شدید زخمی یا ہلاک ہو چکے تھے۔

اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں میں سے دو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور باقیوں پر قابو پالیا جبکہ فوجی اہلکاروں اور عام تماشائیوں کا ہجوم جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگا۔

صدر انور سادات کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً دو گھنٹے بعد ان کی موت ہو گئی۔

حملے کو جس درستگی کے ساتھ ترتیب دیا گیا اس نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے کہ حملہ آوروں نے اعلیٰ سطح انٹیلی جنس کی مدد سے یہ سب کیا۔

صدر انور سادات کی موت پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔

امریکی صدر رونالڈ ریگن نے انور سادات کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے گھناؤنا فعل قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’امریکہ ایک عظیم دوست سے محروم ہو گیا ہے، دنیا نے ایک عظیم سیاست دان کو کھو دیا ہے اور انسانیت نے امن کے ایک چیمپئن کو کھو دیا ہے۔‘

لیکن بہت سے لوگوں نے اس خبر پر جشن منایا۔

لیبیا میں ہزاروں لوگ جشن منانے کے لیے دارالحکومت کی سڑکوں پر نکل آئے۔ طرابلس ریڈیو نے اعلان کیا کہ ہر ظالم کا خاتمہ ضروری ہے۔

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے بھی اس قتل کی مذمت نہیں کی۔ پی ایل او کے ایک اہلکار نبیل راملاوی نے کہا کہ ’ہمیں صدر انور سادات کی اس انجام کی توقع تھی کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ وہ اپنے لوگوں، عرب اقوام اور فلسطینی عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔‘

سادات کی میراث

انور سادات کی شخصیت انتہائی متنازع رہی۔ کچھ لوگ انھیں ایک قومی ہیرو اور مشرق وسطیٰ میں امن کے علمبردار کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ دوسرے انھیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تقسیم کرنے والی شخصیت کے طور پر۔

اس کے باوجود یہ بات ناقابل تردید ہے کہ ان کی میراث نے مصر اور عرب دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

بین الاقوامی سطح پر انورسادات کو ان رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے جنھوں نے مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدلنے میں کردار ادا کیا۔

انھوں نے اسرائیل کے ساتھ جو امن معاہدہ کیا وہ محض دو طرفہ معاہدہ نہیں تھا۔ انھوں نے عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز کیا حالانکہ یہ تعلقات کئی سال بعد تک مکمل طور پر آگے نہیں بڑھ پا رہے تھے۔

کچھ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ تاریخ نے عرب اسرائیل تنازع کے بارے میں انور سادات کے نقطہ نظر کی تصدیق کی ہے۔ ان کے قتل کے ایک عشرے سے زیادہ بعد فلسطینی امن قائم کرنے کے طویل اور مشکل راستے پر گامزن ہوئے۔ اس کے بعد اردنی، جنھوں نے اسرائیل اور پھر متحدہ عرب امارات، مراکش، سوڈان اور بحرین کے ساتھ امن قائم کیا۔

انور سادات نے سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے ذریعے مصر کی ترقی کا سفر جاری رکھا۔ یہ وہ اصلاحات تھیں جو انھیں اپنے پیشرو جمال عبدالناصر سے وراثت میں ملی تھیں۔

انور سادات نے اپنی معاشی اور سماجی پالیسیوں کے ذریعے مصر پر اپنے گہرے نشانات چھوڑے۔ اگرچہ ان کی پالیسیوں میں خامیاں بھی تھیں مگر یہ مصری معیشت کو جدید بنانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کی کوشش تھی۔

انور سادات کے سب سے اہم مقامی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات میں سے ایک سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا تھا۔ ان کی اس پالیسی کو ’انفتاح‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بنیادی اقتصادی تبدیلی کا ایک پروگرام تھا جس کے ذریعے معیشت میں تنوع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوششیں شامل تھیں۔

معیشت کو آزاد کرنے کے لیے انور سادات کی کوششوں کے مصر پر کچھ منفی اثرات بھی مرت ہوئے جن میں بلند افراط زر، دولت کی غیر مساوی تقسیم، اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات، جس کی وجہ سے ملک میں عدم اطمینان پیدا ہوا۔ یہ وہ حالات تھے جس کے بعد جنوری 1977 میں مصر میں فسادات شروع ہوئے۔

انور سادات
Getty Images

انور سادات نے مصریوں سے وعدہ کیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امن غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرے گا اور خوشحالی لائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور غریب اور امیر کے درمیان خلیج بڑھتی گئی۔

کچھ نے انور سادات پر مصر میں بنیاد پرست اسلام کے عروج کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔ اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے، جن میں سے زیادہ تر سیکولر اور بائیں بازو کی قوتیں تھیں، انھوں نے اسلام پسندوں کی حمایت حاصل کی۔

انور سادات نے اسلامی قانون کو قانون سازی کا بنیادی ذریعہ بنانے کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی۔

سرد جنگ کے دوران دیگر علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کی طرح انور سادات نے سیاسی اسلام کا استعمال اپنے مخالفین پر حملہ کرنے کے لیے کیا۔

ایک بار جن بوتل سے باہر آ گیا تو اسے دوبارہ اندر ڈالنا مشکل تھا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سادات کو قتل کرنے والے ان کے بائیں بازو کے خلاف جنگ میں ان کے سابق اتحادی تھے، اور انھوں نے انھیں اس لیے مارا کہ انھوں نے اپنے دشمن ملک اسرائیل سے صلح کر لی تھی۔

انور سادات کے قتل کے بعد جن بہت سے مشتبہ افراد کو قید کیا گیا ان میں ایمن الظواہری نام کے ایک نوجوان مصری ڈاکٹر بھی شامل تھے۔ اپنی سزا پوری کرنے کے بعد انھوں نے عالمی جہاد کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے مصر چھوڑ دیا۔ سہ 2022 میں ان کی موت تک ان کا شمار القاعدہ کے چوٹی کے رہنماؤں میں ہوتا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US