’یہ معجزہ ہے‘: وہ رضاکار جنھیں پاگل کتے نے کاٹا لیکن ’ریبیز ٹیسٹ منفی آیا‘

28 اگست کو لاہور کے علاقے چوہنگ میں نوجوان حامد بن اسماعیل کو اس وقت ایک کتے نے کاٹا جب وہ سیلاب سے متاثرہ مسیحی برادری کی ایک بستی میں کھانا پہنچا کر واپس اپنے کیمپ جا رہے تھے۔ جب انھیں 16 ستمبر کو میو ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا تو ڈاکٹروں نے ابتدائی طور پر ان میں ریبیز کی علامات کی تشخیص کی تھی۔

28 اگست کو لاہور کے علاقے چوہنگ میں نوجوان حامد بن اسماعیل کو اس وقت ایک کتے نے کاٹا جب وہ سیلاب سے متاثرہ مسیحی برادری کی ایک بستی میں کھانا پہنچا کر واپس اپنے کیمپ جا رہے تھے۔ جب انھیں 16 ستمبر کو میو ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا تو ڈاکٹروں نے ابتدائی طور پر ان میں ریبیز کی علامات کی تشخیص کی تھی۔

حامد بن اسماعیل کے ماموں زاد بھائی حافظ محمد اشرف نے بی بی سی کو بتایا کہ حامد کے ہاتھ، پاؤں اور گردن پر کتے کے کاٹنے کے چار نشانات تھے۔

میو ہسپتال لاہور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مدبر کا کہنا ہے کہ ’جس وقت حامد کو ہسپتال لایا گیا تھا تو ان کی حالت نازک تھی اور انھیں قابو کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’حامد کی حالت انتہائی تشویشناک تھی اور فوری طور پر ان کا ریبیز کا ٹیسٹ کرنے سے بھی گریز کیا گیا تھا۔‘

حامد کے اہل خانہ اور ڈاکٹروں کے مطابق انھیں کتے کے کاٹنے کے بعد ریبیز سے بچاؤ کی ویکسین بھی لگائی گئی تھی۔ ڈاکٹر مدبر کے مطابق ہسپتال داخل کیے جانے کے بعد حامد کی حالت میں بہتری آئی اور ریبیز کا ٹیسٹ کیا گیا تو یہ منفی تھا۔

پھر یکم اکتوبر کو میو ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مشورے پر حامد کو لاہور میں ہی واقع پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ داخل کرایا گیا۔ حامد کے معالجے میں شریک ڈاکٹر اورنگ زیب نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’چونکہ حامد ایک صدمے سے گزرے ہیں اس لیے انھیں ممکنہ طور پر نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے۔‘

کتے کے کاٹنے کے بعد ویکسین دی گئی

حامد بن اسماعیل کے ماموں زاد بھائی حافظ محمد اشرف نے بی بی سی کو بتایا کہ حامد جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے ’الخدمت فاؤنڈیشن‘ میں رضاکار کے طور پر سیلاب زدگان کی مدد کر رہے تھے۔

حافظ محمد اشرف کے مطابق جب سے پنجاب میں سیلاب آیا تو اس وقت سے حامد لاہور میں الخدمت کے کیمپ میں کام کر رہے تھے۔

اُن کے بقول ’ہماری اطلاع کے مطابق یہ واقعہ 28 اگست کا ہے جہاں حامد سیلاب سے متاثرہ مسیحی بستی میں رات کے وقت کھانا دے کر آ رہے تھے تو انھیں کتنے نے کاٹ لیا۔ ان کے ہاتھ، پاؤں اور گردن پر کتے کے کاتنے کے چار نشانات ہیں۔‘

ماجد علی لاہور میں الخدمت کے زیر انتظام لگائے گئے کیمپ کے انچارج تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ رات کے وقت حامد واپس آئے تو انھوں نے بتایا کہ ان کو کتے نے کاٹا ہے۔ ’وہ متاثرین کو کھانا دے کر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ایک کتا بیٹھا تھا جو بھوکا تھا۔ حامد نے اس کو روٹی دی تو وہ اٹھکیلیاں کرتے کرتے گردن تک پہنچ گیا اور اس نے انھیں کاٹ لیا۔‘

ماجد علی نے حامد کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب انھوں نے کتے کو ہاتھ پیر سے روکنے کی کوشش کی تو کتے نے دوبارہ کاٹا لیکن وہ وہاں سے نکل کر کیمپ واپس آ گئے تھے۔

ماجد علی کہتے ہیں کہ کیمپ میں موجود ڈاکٹر نے فوراً حامد کو اینٹی ریبیز ویکسین لگوانے کا مشورہ دیا جس کے لیے حامد کو بحریہ ٹاؤن کے ہسپتال لایا گیا۔

ماجد کے بقول وہاں حامد کو پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے روز ویکسین دی گئی مگر ریبیز سے بچاؤ کا ایک انجیکشن (ایمونوگلوبولین) نہیں لگایا گیا تھا۔

ماجد کہتے ہیں کہ بظاہر وہ ٹھیک نظر آ رہے تھے اور کیمپ میں اپنی خدمات بھی جاری رکھے ہوئے تھے مگر 10ویں روز ان کی ’طبیعت اچانک خراب ہونا شروع ہوگئی۔‘

’کیمپ میں موجود ایمبولینس کے ذریعے حامد کو میو ہسپتال لے جایا گیا جہاں انھیں فوراً آئسولیشن وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹروں کے پینل نے علامات کی بنا پر کہا کہ ان پر ریبیز کا حملہ ہو چکا ہے۔‘

امریکی بُلی ایکس ایل
Getty Images

ریبیز کا ٹیسٹ منفی آیا

ڈاکٹروں کے مطابق ابتدائی طور پر حامد کا ریبیز کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا کیونکہ ان کی حالت تشویش ناک تھی۔

میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر مدبر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب حامد ہمارے پاس آئے تو ان کی حالت نازک تھی۔ یہاں تک کہ ان کو قابو کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔‘

اُن کے بقول اس صورتحال میں فوری طور پر میو ہسپتال کے ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ قائم کیا گیا جس نے صورتحال کا جائزہ لے کر علاج شروع کیا جو کہ پہلے مرحلے میں حامد کو انتہائی دوروں کے اثرات سے بچانا اور علامات کی بنیاد پر تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چار دن تک حامد ایسی ہی صورتحال کا شکار رہے مگر پانچویں دن ان کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہوئی۔ ان کے مطابق ان میں ریبیز کی علامات میں کمی آنے لگی تھی۔

ماجد علی کہتے ہیں کہ ’پانچویں دن حامد ہوش میں آئے۔ اس موقع پر انھوں نے اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور ہم سے بات چیت کی۔ حیرت انگیز طور پر ان کی یاداشت بحال تھی۔ انھیں کتے کے کاٹنے کا واقعہ اور ویکسین یاد تھی۔ حامد حافظ قران ہیں انھوں نے اس وقت دوستوں کی فرمائش پر تلاوت بھی سنائی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگلے پانچ دن تک انھیں کم دورے پڑ رہے تھے اور ہسپتال داخل کیے جانے کے 10 روز بعد ماہرین کی رائے تھی کہ اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔

’ممکن ہے انجیکشن نہ لگنے کی وجہ سے علامات ظاہر ہوئیں‘

ڈاکٹر اورنگزیب حامد کے معالجے میں شریک رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں فیملی نے بتایا تھا کہ انھیں اینٹی ریبیز ویکیسن کی چار خوراکیں لگائی گئی تھیں۔ مگر انھیں ریبیز ایمونوگلوبولین انجیکشن نہیں لگا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس انجیکشن کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ اگر یہ انجیکشن بروقت نہ لگے تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ریبیز کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔‘

’یہ انجیکشن عموماً ریبیز ویکیسن شروع کرنے سے پہلے دیا جاتا ہے۔ یہ وائرس سے لڑنے کے لیے جسم کو فوراً اینٹی باڈیز فراہم کرتا ہے۔‘

ڈاکٹر اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ اینٹی ریبیز ویکسین اپنا کام شروع کرنے میں سے چودہ دن تک لے سکتی ہے جبکہ اس دوران ایمونوگلوبولین انجیکشن اپنا کام کرتا ہے۔ ’اس مریض میں علامات کتے کے کاٹنے کے 10 دن بعد ظاہر ہوئیں۔ ان کو اینٹی ریبیز ویکیسن تو لگی مگر انجیکشن نہیں لگا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ ریبیز ایمونوگلوبولین انجیکشن نہ لگنے کی وجہ سے مریض میں یہ علامات ظاہر ہوئیں۔

’معجزہ ہے کہ ریبیز کا ٹیسٹ منفی آیا‘

حامد کے علاج میں شریک رہنے والے ڈاکٹر اورنگ کا کہنا تھا کہ میو ہسپتال میں حامد کے جارحانہ مزاج کو کم کرنے کے لیے انھیں بے ہوشی کی ادویات دی گئی تھیں کیونکہ عموماً اس طرح کے مریضوں کو پُرسکون رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حامد کو کتے کے کاٹنے کے دس روز بعد ہسپتال لایا گیا تھا جس وقت ان میں بہت جارحانہ رویہ تھا۔ ’اس وقت تو یہی کوشش کی جاتی رہی کہ مریض کو کسی طرح پُرسکون کیا جائے، اس کی مرضی کے بغیر کچھ ایسا نہ کیا جائے کہ وہ مزید جارحانہ ہوجائے۔ جب بھی کوئی مریض ایسا ہوتا ہے جس کی علامات واضح ہوتی ہیں، اس وقت اس کے ٹیسٹوں سے زیادہ اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کی حالت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے۔‘

ڈاکٹر اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ جب پانچ دن بعد ان کی علامات کم ہونا شروع ہوئیں اور ڈاکٹروں نے محسوس کیا کہ اب ریبیز کی علامات کم ہو رہی ہیں۔

ان کے مطابق حامد کے ریبیز کے تین ٹیسٹ کرائے گئے تھے جن کے لیے لعاب کا نمونہ لیا گیا، اینٹی باڈیز ٹیسٹ کیا گیا اور جِلد کی بایوپسی کی گئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ معجزہ ہی ہے کہ ان تینوں ٹیسٹوں میں ان کی رپورٹ منفی آئی۔ یعنی ان میں ریبیز نہیں پایا گیا۔‘

ڈاکٹر اورنگ زیب نے بتایا کہ انھیں ’ایک بڑے صدمے سے گزرنے کے بعد ممکنہ طور پر نفسیاتی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس لیے ان کو انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ بھیجا گیا ہے۔‘

ڈاکٹر اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ نفسیاتی مسائل کی کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں مگر انھیں امید ہے کہ وہ اس حالت سے بھی نکل آئیں گے۔

حامد کو یکم اکتوبر کو میو ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مشورے پر لاہور میں واقع پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں داخل کرایا گیا تھا۔ میو ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق حامد کا رویہ جارحانہ ہے جبکہ مینٹل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر کے مطابق ان میں جارحانہ رویے کے علاوہ نیند کی کمی کی بھی تشخیص کی گئی ہے۔

ماجد علی کے مطابق اب مینٹل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ میں حامد کی حالت میں مزید بہتری آ رہی ہے۔ ’میں نے گذشتہ دن (سنیچر کو) ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اس نے مجھے فوری طور پر پہچان لیا، ہم باتیں کرتے رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹروں کے مطابق بھی حامد کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ ہمیں امید دلائی گئی ہے کہ ممکنہ طور پر حامد اس مرحلے سے بھی نکل جائیں گے۔‘

کیا ریبیز کا علاج ممکن ہے؟

ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد کے ایمر جنسی میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر جنید انور کے مطابق ریبیز مہلک بیماری ہے جو بروقت علاج نہ ہونے پر جان لیوا بن سکتی ہے۔

اُن کے مطابق ریبیز ایک وائرل بیماری ہے جو عام طور پر پالتو یا جنگلی جانوروں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ وائرس مرکزی اعصابی نظام (دماغ اور ریڑھ کی ہڈی) کو متاثر کرتا ہے، اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ بیماری موت کا سبب بن سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ریبیز کا وائرس اکثر کسی متاثرہ جانور، جیسے کتا، بلی، یا چمگادڑ کے کاٹنے یا ان کے لعاب کے زخم پر لگنے سے انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ ایک بار وائرس جسم میں داخل ہو جائے تو یہ آہستہ آہستہ دماغ تک پہنچ سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی علامات میں بخار، تھکن، بے چینی، اور کاٹنے کی جگہ پر جلن یا درد شامل ہو سکتے ہیں۔ ’وقت کے ساتھ یہ علامات شدت اختیار کر لیتی ہیں، جن میں متاثرہ مریض کو پانی سے خوف آتا ہے۔ آواز یا روشنی سے حساسیت ہوتی ہے۔ فالج، ذہنی انتشار، دورے سے بے ہوشی ہوسکتی ہے۔‘

ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد کے ایمر جنسی میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر جنید انور کے مطابق ریبیز مہلک بیماری ہے جو بروقت علاج نہ ہونے پر جان لیوا بن سکتی ہے۔
BBC

ڈاکٹر جنید انور کا کہنا تھا کہ ریبیز کا علاج صرف اُس وقت موثر ہوتا ہے جب وائرس کے جسم میں داخل ہونے کے فوراً بعد علاج شروع کر دیا جائے۔ ’زخم کو فوری طور پر صابن اور پانی سے دھونا چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ریبیز کی ویکسین کی سیریز پوری کرنی چاہیے جو کہ عموماً چودہ دونوں میں چار سے پانچ خوراکوں میں لگائی جا سکتی ہے۔‘

’کچھ حالات میں فوری طور پر ریبیز ویکسین دی جاتی ہے۔ بعض صورتوں میں ریبیز امیونوگلوبلین انجیکشن کی خوراک دی جاتی ہے۔ مگر کچھ سالوں سے اس کو معالج لازمی استعمال کرواتے ہیں۔‘

ڈاکٹر جنید انور کا کہنا تھا کہ ویکیسن فوری طور پر اس وقت شروع کردینی چاہیے جب کوئی بھی جانور کاٹ لے۔ ’اگر ریبیز کی علامات ظاہر ہونے کے بعد علاج شروع کیا جائے تو یہ بیماری تقریباً 100 فیصد مہلک ثابت ہوتی ہے۔ ایک بار جب وائرس دماغ تک پہنچ جائے تو ویکسین یا کسی بھی دوا کا اثر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بروقت شناخت کرنا اور فوری ویکسین لگوانا نہایت ضروری ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ریبیز کا انکیوبیشن پیریڈ (یعنی علامات ظاہر ہونے تک کا وقت) عموماً 20 دن سے لے کر 90 دن تک ہو سکتا ہے، لیکن بعض کیسز میں یہ ایک سال تک بھی جا سکتا ہے، جو اس بات پر منحصر ہے کہ وائرس جسم کے کس حصے میں داخل ہوا ہے اور کتنی مقدار میں۔

ڈاکٹر جنید انور کا کہنا تھا کہ ریبیز ایک قابلِ بچاؤ مگر مہلک بیماری ہے۔ ’اس سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے کہ جانوروں کے کاٹنے کی صورت میں فوری طور پر علاج کروایا جائے اور ویکسینیشن مکمل کی جائے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US