پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاج: ’خبر ملی کہ ایک نوجوان پولیس پر پتھراؤ کر رہا تھا، اسے گولی لگی ہے، ہسپتال پہنچ کر دیکھا تو وہ میرا بیٹا تھا‘

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پانچ روز تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں ایک درجن کے قریب افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ انھی مظاہروں میں محمد فاروق کے 17 سالہ بیٹے فرحانبھی گولی لگنے کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے۔
Farhan Farooq
BBC
فرحان فاروق

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت طارق آباد کے رہائشی محمد فاروق اپنی رہائش گاہ کے ایک کونے پر کھڑے ہو کر لوگوں کے کپڑے سی کر گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔

حالیہ احتجاج کے دوران ان کے دروازے پر دستک ہوئی اور انھوں نے اپنے معمول کے کام کو چھوڑ کر دروازہ کھولا۔۔۔ مگر کسی نئے آرڈر کے بجائے انھیں ایک ایسی خبر سننے کو ملی کہ ان کی سانسیں تھم گئیں۔

دستک دینے والوں نے محمد فاروق کو بتایا کہ احتجاجی جلسے کے دوران ایک نوجوان پولیس اہلکاروں پر پتھر برسا رہا تھا، اس دوران پولیس اہلکاروں نے گولی چلائی جو ان کے بیٹے کو جا کر لگی ہے۔

انھیں بتایا گیا کہ ان کے بیٹے کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

محمد فاروق نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’میرے منع کرنے کے باوجود میرا بیٹا زندگی میں پہلی مرتبہ کسی احتجاجی مظاہرے میں گیا لیکن پھر گھر زندہ نہیں لوٹا۔ کاش وہ میری بات مان لیتا۔‘

Muhammad Farooq
BBC
محمد فاروق

محمد فاروق نے بتایا کہ دو اکتوبر کو صبح وہ گھر کے لیے سودا سلف لانے کے لیے نکلے تو اس وقت ان کا 17 برس کا بیٹا فرحان اپنے کپڑے استری کر رہا تھا۔

’میں نے اسے سمجھایا کہ باہر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں لہٰذا وہ گھر سے نکلنے کی کوشش نہ کرے جس پر فرحان نے جواب دیا کہ وہ گھر کی چھت پر بیٹھ کر احتجاجی مظاہرے کو دیکھے گا۔‘

وہ کہتے ہیں ’مجھے کیا معلوم تھا یہ بیٹے کے ساتھ میری آخری ملاقات ہے۔‘

محمد فاروق نے کہا کہ وہ اپنے کام میں مشغول ہو گئے جبکہ کچھ دیر کے بعد ان کے گھر پر دستک ہوئی تو انھوں نے دیکھا کہ تین چار نوجوان گھر کے باہر کھڑے تھے اور انھوں نے بتایا کہ فرحان کو گولی لگ گئی ہے اور اس وقت وہ ہسپتال میں ہے۔

انھوں نے کہا کہ جب وہ ہسپتال پہنچے تو وہاں کے عملے نے فرحان کے منھ پر چار ڈال رکھی تھی اور پھر عملے نے انھیں بتایا کہ ان کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ ’میری اس سے ملاقات نہیں ہو سکی۔۔۔ صبح والی ملاقات آخری ملاقات تھی۔‘

محمد فاروق نے بتایا کہ ’میرا بڑا بیٹا چند ماہ قبل روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک چلا گیا ہے جبکہ میری بیوی کچھ عرصہ پہلے فوت ہو گئی ہیں اور اب میرا بیٹا فرحان بھی اس دنیا سے چلا گیا جو میرے بڑھاپے کا سہارا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اب میرا گھر خالی ہو گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کی ایک آٹھ سال کی بیٹی ہے جو گھر میں کچھ عرصے کے دوران ہونے والی دو اموات کے بعد اتنی خوف زدہ ہو گئی ہے کہ اب اپنے ہی گھر میں رہنے سے ڈرتی ہے اس لیے اب وہ اپنی پھپھو کے گھر پر رہتی ہے۔

Muhammad Farooq
BBC

محمد فاروق کا کہنا تھا کہ ’اگر ان کے بیٹے نے کوئی جرم کیا بھی تھا تو انھیں گرفتار کرکے تھانے میں بند کر دیتے، گولی مارنے اور جان لینے کا آرڈر تو کسی کو بھی نہیں ہے۔‘

انھوں نے اپنے بیٹے کی ہلاکت کے واقعہ پر پولیس اہلکاروں کے خلافتھانے میں درخواست دے رکھی ہے لیکن ابھی تک اس واقعہ کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا ہے۔

اطلاعات کے مطابق پانچ روز تک جاری رہنے والے ان پرتشدد واقعات کے نتیجے میں ایک درجن کے قریب افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

Kashmir
BBC

آٹے کی قیمت پر ہونے والا ایک معمولی احتجاج جو تحریک کی شکل اختیار کر گیا

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس نوعیت کے معاملات پر احتجاج کا آغاز لگ بھگ دو سال قبل ہوا تھا جب راولاکوٹ میں مبینہ آٹا سمگلنگ کے باعث احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ معاملات اُس وقت مزید خراب ہوئے جب بجلی کے بلز میں پروٹیکٹڈ یا نان پروٹیکٹڈ کیٹگریز متعارف ہوئیں اور کشمیر میں بجلی کے صارفین کو دُگنے بل موصول ہونا شروع ہوئے۔

اس صورتحال پر لوگوں کی جانب سے احتجاج کا آغاز مئی 2023 سے ہوا۔

اس احتجاج نے باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اس وقت اس تحریک کی قیادت جموں کشمیر جوائنٹ قومی ایکشن کمیٹی کے 31 ارکان کر رہے ہیں جو کہ کثرت رائے سے فیصلے کرتے ہیں۔

19 ستمبر سے شروع ہونے والے اس احتجاج کے دوران پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مکمل ہڑتال تھی۔ مظفر آباد میں کہیں کہیں میڈیکل سٹور، دوکانیں اور ہسپتال کھلے ہوئے تھے جبکہ پانچ روزہ احتجاج کے دوران سڑکیں ویران تھیں۔

تعلیمی اداروں اور عدالتوں میں اگرچہ چھٹی نہیں تھی لیکن نہ تو بچے سکول جا رہے تھے اور نہ ہی وکلا عدالتوں میں پیش ہو رہے تھے۔

اسلام آباد سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو ملانے والی مرکزی شاہراہ کو کوہالہ پل کے قریب سے بند کردیا گیا تھا جبکہ خیبر پختونخوا سے مظفر آباد کو ملانے والی شاہراہ کو مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا گیا تھا۔

اس شاہراہ پر صبح کے وقت رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دیا جاتا جبکہ رات کولوگ اپنی مدد آپ کے تحت ان رکاوٹوں کو ہٹا کر آمدورفت کو بحال کردیتے تھے۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسپورے علاقے میں بند تھی اور لوگبیرون ملک میںاپنے عزیزوں سے رابطہ کرنے اور انٹرنیٹاستعمال کرنے کے لیے خیبر پختونخوا کے علاقوں مانسہرہ اور بالا کوٹ کا رخ کرتے تھے جہاں پر ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے سگنل آرہے تھے۔

Muzzafarabad
BBC

مظفر آباد کے مکینوں میں یہاں کی حکومت کی طرف سے گذشتہ برس کے معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا اور امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے رینجرز ایف سی اور اسلام آباد پولیس کو طلب کرنے پر بھی وہ سخت نالاں ہوئے۔ ان کے مطابق مظفر آباد میں پہلی مرتبہ اسلام آباد پولیس کو طلب کیا گیا ہے۔

لوگوں کے انھی جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کے پاکستان کے وفاقی وزرا سے جو مذاکرات ہوئے تھے اس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم شریک نہیں تھے تاہم ان کی کابینہ کے کچھ ارکان ان مذاکرات میں شامل تھے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آٹے کی قیمت میں اضافے کو واپس لینے کا ایک مطالبہ اب 38 مطالبات پر پہنچ چکا ہے۔

جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے پیش کیے جانے والے 38 نکات پر مشتمل ’چارٹر آف ڈیمانڈ‘ میں جو مطالبات شامل ہیں ان میں حکومتی اخراجات میں کمی سے لے کر اسمبلی نشستوں پر اعتراضات ، مفت تعلیم و علاج کی سہولت اور فضائی اڈے کے قیام سمیت متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کرنا شامل ہیں۔

ایکشن کمیٹی کی جانب سے پیش کیے گئے اضافی مطالبات میں سرِفہرست مطالبہ حکمران اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ ہے۔

جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مظفر آباد کے رکن شوکت نواز میر کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت ان کے ساتھ گذشتہ برس کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کرتی تو نہ انھیں احتجاج کی کال دینا پڑتی اور نہ ہی ان کے مطالبات میں اضافہ ہوتا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گذشتہ برس ان کے مطالبات پر عملدرآمد کے لیے موجودہ حکومت کے ساتھ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ ان مطالبات پرعملدرآمد ایک سال میں ہو گا اور اس حکومت نے قومی ایکشن کمیٹی کے نمائندہ وفد کو کہا تھا کہ انھوں نے چھ ماہ تک کوئی احتجاج نہیں کرنا اور انھیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ایک سال کے دوران ان کے مطالبات کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ قومی ایکشن کمیٹی نے اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے اس عرصے کے دوران احتجاج کی کال نہیں دی جبکہ اس کے برعکس حکومت کی جانب سے ان کے مطالبات پر غور کرنے کے حوالے سے جو خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کا اجلاس ہی طلب نہیں کیا گیا۔

Pakistan administered Kashmir
BBC

’معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو ایکشن کمیٹی دوبارہ احتجاج کی کال دے گی‘

شوکت نواز نے الزام عائد کیا کہ ’اگست میں ایکشن کمیٹی نے حکومت کو اپنے مطالبات پر غور کرنے کے لیے اجلاس نہ بلانے کا شکوہ کیا تو حکومت کے ذمہ داران نے خصوصی کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کی بجائے ایکشن کمیٹی کے ارکان کے خلاف ہی میڈیا اور سوشل میڈیا پر مہم شروع کردی۔‘

نھوں نے کہا کہ قومی ایکشن کمیٹی یہ معاملہ پبلک میں لے کر گئی اور لوگوں کی مشاورت کے بعد 29 ستمبر کو احتجاج کی کال دی گئی۔

شوکت نواز میر جن کی مظفر آباد میں ایک سٹیشنری کی دوکان ہے کا کہنا ہے کہ قومی ایکشن کمیٹی کی طرف سے دی گئی احتجاج کی کال کسی سیاسی جماعت یا گروپ کو فائدہ دینے کے لیے نہیں دی گئی تھی بلکہ یہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ تھا جس کے لیے انھوں نے آواز اٹھائی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایکشن کمیٹی نے تو یہاں تک اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی بھی ان کے احتجاج میں چہرے پر ماسک لگا کر نہیں آئے گا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستانی وزرا کے ساتھ مذاکرات کے نیتجے میں جو معاہدہ ہوا ہے انھیں امید ہے کہ اس پر عملدرآمد ہوگا اور جن طاقتوں نے اس معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے یقین دہانی کروائی ہے وہ اپنے وعدے کی پاسداری کریں گی۔

ایک سوال کے جواب میں شوکت میر کا کہنا تھا کہ اگر ان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے پر مقررہ مدت کے دوران عملدرآمد نہ ہوا تو ایکشن کمیٹی دوبارہ احتجاج کی کال دے گی۔

زیادہ تر جائز مطالبات پر فوری عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے: امیر مقام

گلگت بلتستان اور امور کشمیر کے وفاقی وزیر امیر مقام کا کہنا ہے کہ کشمیر کی حکومت اور ایکشن کمیٹی کے درمیان جو معاہدہ طے پایا تھا اس پر عملدرآمد کے لیے خصوصی کمیٹی کے اجلاس طلب کیے جانے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ قومی ایکشن کمیٹی کے زیادہ تر مطالبات جائز ہیں جن کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اس پر فوری عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی وزرا کے نمائندہ وفد اور ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں جو معاہدہ طے پایا ہے اس پر عملدرآمد کے حوالے سے قائم کی گئی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہر پندرہ روز کے بعد ہو گا جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چیف سیکریٹری اس کمیٹی کے کنوینر ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ کمیٹی آئین سے متعلقہ مطالبات کے حوالے سے آئینی ماہرین کی خدمات حاصل کرسکتی ہے۔

معاہدے میں طے پا جانے والے نکات پر عملدرآمد اور نگرانی کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں حکومت پاکستان سے امیر مقام اور طارق فضل چوہدری، ، دو حکومت کشمیر اور دو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان شامل ہوں گے۔

Kashmir
BBC

امیر مقام کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دانش سکول کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب بھی کشمیر میں لوگوں کو بجلی کے بلوں میں سبسڈی دی جارہی ہے اور یہاں پر بجلی کا فی یونٹ تین روپے ہے جبکہ پاکستان میں لوگوں کو بجلی کا ایک یونٹ تیس روپے سے زیادہ میں پڑ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں ان مہاجرین کی نشستیں ختم کرنے کا جو مطالبہ سامنے آیا ہے چونکہ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے اس لیے اس معاملے پر آئینی ماہرین سے بات کرنا ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ مہاجرین جو کہ پاکستان کے مخلتف علاقوں میں رہ رہے ہیں وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے ہجرت کرکے آئے ہیں۔ ان کی قربانیوں کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

امیر مقام کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس کی اجازت آئین میں نہ دی گئی ہو۔

انھوں نے کہا کہ مہاجرین کی بارہ نشستیں خود پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے آئین میں درج ہیں اور آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والے ان نشستوں پر کامیاب ہونے والے افراد کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز کے اجرا اور اس کے استعمال پر بات کی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان بارہ نشستوں کو اگر ختم کر دیا گیا تو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں اور بلخصوص دنیا میں ایک اچھا پیغام نہیں جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس علاقے میں بسنے والے افراد کیترقی اور خوشحالی کے لیے پاکستانی حکومت تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے گی۔

مظفر آباد کے تجزیہ کار اور صحافی عارف بہار کا کہنا ہے کہ پارلیمانی طرز حکومت میں اپوزیشن حکومت ہر چیک اینڈ بیلنس رکھتی ہے اور حکومت کے ایسے اقدامات کے خلاف مختلف فورم پر آواز اٹھاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کر لیا گیا ہے اور اپوزیشن کا کردار ختم ہوکر رہ گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ایسے حالات میں اپوزیشن کا کردار کسی نہ کسی نے تو پورا کرنا تھا اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میدان میں آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس کمیٹی نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام میں اپنی جڑیں اتنی زیادہ مضبوط کر لی ہیں کہ ان کی ایک کال پر کاروباری برادری سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سڑکوں پر آسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مظفر آباد کے تاجروں نے احتجاج کے دوران اپنی دکانوں کی چابیاں قومی ایکشن کمیٹی کے ارکان کے حوالے کر دیں تھیں اور ان تاجروں کا یہ کہنا تھا کہ وہ مطالبات کے حل کے لیے ایک ماہ تک بھی اپنا کاروبار بند رکھنے کو تیار ہیں۔

عارف بہار کا کہنا تھا کہ ایکشن کمیٹی کو جس طرح لوگوں میں پزیرائی ملی ہے اس کے نتیجے میں وہ جس حد تک چاہیں اپنے مطالبات کی فہرست میں اضافہ کرسکتی ہے۔

احتجاج کی کال ختم کرنے کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اب حالات معمول پر ہیں۔ حکومت اور ایکشن کمیٹی کے درمیان مزاکرات چار اکتوبر کی صبح کو طے پا گئے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US