BBC News goes inside the lab powering computers with 'mini brains' grown from human cells.
ہم سب ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کے متعلق جانتے ہیں۔ ڈاکٹر جارڈن اور ان کے ساتھی اب جو تخلیق کرنا چاہ رہے ہیں وہ اسے ’ویٹ ویئر‘ کہتے ہیں۔یہ کسی سائنس فکشن فلم کا تصور لگتا ہے لیکن حقیقت میں کچھ ریسرچرز جاندار خلیوں سے کمپیوٹر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں اس میں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔
اس تحقیق میں شامل ریسرچرز کے ایک گروپ سے ملاقات کے لیے میں سوئٹزرلینڈ گیا۔
ڈاکٹر فرید جارڈن کا خواب ہے کہ وہ ایک روز ’جیتے جاگتے‘ سرورز کی مدد سے ایسے ڈیٹا سینٹرز بنانے میں کامیاب ہو جائیں جو نہ صرف مصنوعی ذہانت کے سیکھنے کے طریقوں کی نقل کر پائیں بلکہ اس سے کہیں کم توانائی استعمال کریں۔
وہ فائنل سپارک نامی اس لیب کے شریک بانی ہیں جس کا میں نے دورہ کیا۔
ہم سب ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کے متعلق جانتے ہیں۔ ڈاکٹر جارڈن اور ان کے ساتھی اب جو تخلیق کرنا چاہ رہے ہیں وہ اسے ’ویٹ ویئر‘ کہتے ہیں۔
آسان الفاظ میں کہیں تو اس طریقہ کار کے تحت نیورون کے کلسٹرز بنائے جاتے ہیں جنھیں آرگنائیڈز کہا جاتا اور یہ الیکٹروڈز کے ساتھ منسلک کیے جا سکتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو انھیں منی کمپیوٹرز کی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر جارڈن کہتے ہیں ہم سے بہت سارے لوگ رابطہ کرتے ہیں لیکن ہم صرف اپنے سپلائر سے ہی سٹیم سیلز لیتے ہیں کیونکہ خلیوں کا معیار بہت اہم ہوتا ہے۔ڈاکٹر جارڈن اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بہت سارے لوگوں کے لیے بائیوکمپیوٹنگ کا تصور عجیب لگ سکتا ہے۔
لیکن ان کے مطابق ایک طویل عرصے سے سائنس فکشن سے جڑے افراد ان چیزوں کے بارے سوچتے آئے ہیں۔
’جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں نیورون کو کسی چھوٹی مشین کی طرح استعمال کرنا چاہتا ہوں تو یہ ہمارے دماغ کے لیے ایک نیا نظریہ ہوتا ہے اور یہ آپ کو اپنے بارے میں غور کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کیا ہیں۔‘
فائنل سپارک میں انسانی جلد کی خلیوں سے سٹیم سیلز بنائے جاتے ہیں جن پر وہ کام کرتے ہیں۔ ان خلیوں کو جاپان کے ایک کلینک سے منگوایا جاتا ہے اور انھیں عطیہ کرنے والے کی شناخت خفیہ رکھی جاتی ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ انھیں خلیے عطیہ کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔
ڈاکٹر جارڈن کہتے ہیں ہم سے بہت سارے لوگ رابطہ کرتے ہیں لیکن ہم صرف اپنے سپلائر سے ہی سٹیم سیلز لیتے ہیں کیونکہ خلیوں کا معیار بہت اہم ہوتا ہے۔
یہ کہیں سے بھی انسانی دماغ کے جتنے پیچیدہ نہیں لیکن یہ کام بالکل ان ہی کی طرح کرتے ہیں۔لیب کے دورے کے دوران فائنل سپارک کی سیلولر بائیولوجسٹ ڈاکٹر فلورا بروزا نے میرے ہاتھ میں ایک ڈش تھمائی جس میں چھوٹے چھوٹے گول ذرے موجود تھے۔
ان میں سے ہر ایک ذرہ سٹیم سیل کی مدد سے لیبارٹری میں تخلیق کیا گیا چھوٹا سا دماغ تھا جنھیں اس طریقے سے بنایا گیا ہے کہ وہ نیورونز اور معاون خلیوں کے کلسٹرز بن سکیں۔ انھیں آرگنائیڈز کہا جاتا ہے۔
یہ کہیں سے بھی انسانی دماغ کے جتنے پیچیدہ نہیں لیکن یہ کام بالکل ان ہی کی طرح کرتے ہیں۔
چند ماہ تک جاری رہنے والے ایک پراسیس کے بعد یہ آرگنائیڈز الیکٹروڈز سے منسلک کیے جانے اور کی بورڈ کی مدد سے احکامات وصول کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
اس کے مدد سے الیکٹرونک سگنلز بھیجے اور وصول کیے جا سکیں گے جبکہ اس کے نتائج اس کے ساتھ منسلک کمپیوٹر پر دیکھے جا سکیں گے۔
یہ بالکل سادہ اور آسان قسم کا تجربہ ہوتا ہے: آپ کوئی بٹن دباتے ہیں تو الیکٹروڈز کی مدد سے ایک الیکٹرک سگنل جاتا ہے، اور اگر یہ کام کرتا ہے تو آپ کو سکرین پر ہلکی سی ہلچل دکھے گی۔ تاہم یہ ہر مرتبہ کام بھی نہیں کرتا۔
سکرین پر دراصل ایک گراف چلتا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ یہ بالکل آپ کے دماغ کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرنے والی ای ای جی یا الیکٹرو اینسفیلوگراف مشین کے گراف کی طرح ہوتا ہے۔
میں نے یکے بعد دیگرے مختصر وقفے سے کچھ احکامات دیے تو اس نے کام کرنا بند کر دیا۔
پھر چارٹ پر توانائی کا ایک مختصر، مخصوص برسٹ دکھائی دیا۔
جب میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے تو ڈاکٹر جارڈن نے بتایا کہ ہم ابھی تک آرگنائیڈز کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے۔ شاید وہ مجھ سے ناراض ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر جارڈن کی ٹیم کے لیے الیکٹرونک سیمولیشن بائیو کمپیوٹر کے نیورونز کے سیکھنے کے عمل کو متحرک کرنے کے ہدف کی جانب ایک بڑا قدم ہے تاکہ یہ بائیو کمپیوٹرز بالآخر مختلف کاموں کو انجام دینے کے لیے قابل بن سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے لیے تو یہ ہمیشہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ’آپ کچھ حکم دیتے ہیں اور آپ کو اس کا جواب چاہیے ہوتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر اگر آپ اے آئی کو بلی کی تصویر دیتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کو بتائے کہ یہ بلی ہے یا نہیں۔
بائیو کمپیوٹرز کو زندہ رکھنا
ایک عام کمپیوٹر کو چلاتے رکھنا آسان ہے، آپ کو اسے صرف یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اسے مستقل بجلی ملتی رہے۔ لیکن بائیو کمپیوٹرز کو کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سائنسدانوں کے پاس ابھی تک نہیں ہے۔
سائمن شولٹز امپیریل کالج لندن میں نیوروٹیکنالوجی کے پروفیسر اور سینٹر فار نیوروٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آرگنائیڈز میں خون کی نالیاں نہیں ہوتیں۔
’انسانی دماغ میں خون کی نالیاں ہوتی ہیں جو اس میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اور اسے اچھی طرح سے کام کرنے کے لیے درکار غذائی اجزا فراہم کرتی ہیں۔‘
’ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ یہ کس طریقے سے بنائی جائیں۔ لہذا ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔‘
تاہم ایک بات یقینی ہے کہ جب ہم کمپیوٹرز کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مر گیا ہے تو ’ویٹ ویئر‘ کے ساتھ واقعتاً ایسا ہی ہو رہا ہوتا ہے۔
گذشتہ چار سالوں میں فائنل سپارک نے کچھ ترقی کی ہے: اب ان کے آرگنائیڈز چار ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
لیکن ان کی موت سے کچھ خوفناک حقائق جڑے ہوئے ہیں۔
جیسے کچھ انسانوں کی موت سے قبل آخری لمحات میں دل کی دھڑکن اور دماغ کی سرگرمی میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے ویسے ہی مرنے سے پہلے آرگنائیڈز میں بھی سرگرمی کی ایک لہر دیکھا جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر جارڈن کا کہنا ہے کہ کچھ مرتبہ ارگبائیڈز کی زندگی کے آخری منٹ یا 10 سیکنڈز (زندگی کے) میں بہت زیادہ سرگرمیاں دیکھی گئیں۔
’میرے خیال میں ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں ایسی تقریباً 1,000 یا 2,000 انفرادی اموات ریکارڈ کی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ کافی افسوسناک ہوتا ہے کیونکہ ہمیں اس تجربے کو روکنا پڑتا ہے، اس کی موت کی وجہ سمجھنی پڑتی ہے اور پھر ایک بار پھر اسے دوبارہ شروع کرنا پڑتا ہے۔
پروفیسر سائمن اس غیر جذباتی طریقہ کار سے متفق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ان سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، یہ صرف کمپیوٹر ہیں جو مختلفبنے ہوئے ہیں۔‘
عملی زندگی میں اس کا استعمال
فائنل سپارک سائنسدانوں کی واحد ٹیم نہیں جو نائیوکمپیوٹنگ پر کام کر رہی ہے۔
2022 میں آسٹریلوی فرم کورٹیکل لیب نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے مصونوعی نیورونز کو کمپیوٹر گیم ’پانگ‘کھیلنے کے قابل بنا لیا ہے۔
امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے محققین بھی چھوٹے دماغ تخلیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جان سکیں کہ دماغ کسی بھی انفارمیشن کو کیسے سمجھتا ہے۔ اسے وہ الزائمر اور آٹزم جیسی بیماریوں کے لیے دوا تخلیق کرنے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
امید کی جار ہی ہے کہ جلد ہی مصنوعی ذہانت اس طرح کی تحقیق کو تیزی سے آگے بڑھانے میں مدد دے گی۔
جان ہاپکنز سے تعلق رکھنے والی محقق ڈاکٹر لینا سمرنووا سمجھتی ہیں کہ ویٹ ویئر ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہِں لیکن سائنسی طور پر کافی دلچسپ ہیں۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان کافی کم ہے کہ ویٹ ویئر کمپیوٹر چپس بنانے کے لیے استعمال ہونے والے مواد کی جگہ لے سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ بائیو کمپیوٹنگ کو سلیکون اے آئی کی جگہ لینے کے بجائے اس کی مدد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
پروفیسر سائمن اس بات سے متفق ہیں کہ بہت سی چیزوں پر وہ سلیکون کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔
یہ ٹیکنالوجی حقیقی دنیا میں اس کے استعمال کے قریب آتی جا رہی ہے تاہم ڈاکٹر جارڈن اب بھی اس کی سائنس فکشن ابتدا سے متاثر ہیں۔
’میں ہمیشہ سے سائنس فکشن کا مداح رہا ہوں۔‘
’جب بھی میں کوئی سائنس فکشن فلم دیکھتا ہوں یا کتاب پڑھتا ہوں تو میں ہمیشہ کچھ افسردہ ہو جاتا تھا کہ میری زندگی ایسی کیوں نہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ میں خود کتاب میں ہوں، اور کتاب لکھ بھی رہا ہوں۔‘