افغان وزیرِ دفاع کا ’ڈیورنڈ لائن‘ سے متعلق بیان اور دوحہ جنگ بندی معاہدے سے جڑی امیدیں اور خدشات

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی روز تک جاری رہنے والی کشیدگی کے بعد قطر میں ترکی اور قطر کی ثالثی میں فریقین نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ آٹھ اکتوبر کو شروع ہونے والے اس تصادم کے دوران فریقین ایک دوسرے پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں سمیت شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے الزامات عائد کرتے رہے۔
تصویر
Getty Images

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی روز تک جاری رہنے والے مسلح تصادمکے بعد سنیچر کی شب فریقین جنگ بندی معاہدہ ہونے کے بعد سے سرحد کے دونوں اطراف یہ بحث جاری ہے کہ یہ معاہدہ اور جنگ بندی کتنے پائیدار ثابت ہوں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب تک اس معاہدے کی تفصیلات واضح نہیں ہو سکی ہیں۔

تاہم افغانستان کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان میں حکومتی وزرا پراُمید ہیں کہ اس سے اُن کے بقول ’افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات‘ رک جائیں گے۔

بعض ماہرین اسے مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ مبصرین اب بھی اسے معاہدے کے مستقبل سے متعلق خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد فریقین نے جنگ بندی اور مستقبل میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا اور قطری وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق فریقین نے اتفاق کیا کہ ’دیرپا امن اور استحکام کے لیے فریقین ایک لائحہ عمل بنائیں گے جس کے ذریعے دونوں ملکوں میں سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔‘

معاہدے کے بعد خواجہ آصف کی جانب سے ایکس پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ معاہدے کے بعد ’افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہو گا اور دونوں ہمسایہ ملک ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام کریں گے۔‘

خواجہ آصف کے مطابق 25 اکتوبر کو استنبول میں دوبارہ وفود کے درمیان ملاقات ہو گی اور تفصیلی بات چیت ہو گی۔

جنگ بندی معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا مزید جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لانا ضروری ہے۔

ایکس پر اپنے بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک ٹھوس اور قابل تصدیق نگرانی کا طریقہ کار چاہتے ہیں جس پر ترکی میں ہونے والے اجلاس میں غور ہو گا تاکہ افغان سرزمین سے پاکستان کی طرف اٹھنے والی دہشت گردی کے خطرے سے نمٹا جا سکے۔‘

’یہ پانچ روزہ ٹیسٹ ہے‘

تصویر
Getty Images
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی روز تک جاری رہنے والے مسلح تصادم کے دوران فریقین نے ایک دوسرے پر متعدد الزامات عائد کیے تھے

سیاسی تجزیہ کار اور وزیر اعظمپاکستان کے چیف کوآرڈینیٹر برائے گورنمنٹ پرفارمنس مشرف زیدی بھی اس معاہدے کے دیرپا ہونے سے متعلق سوال اُٹھانے والوں میں شامل ہیں۔

’ایکس‘ پرمشرف زیدی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ ’پانچ روزہ ٹیسٹ ہے‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر طالبان حکومت اپنے وعدوں پر عمل نہ کر سکی تو پھر اس معاہدے کے ضامن قطر اور ترکی کا کیا ردعمل ہو گا۔‘

تجزیہ کار اور صحافی نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ’اس معاہدے کے ذریعے پاکستان نے افغان طالبان کو کامیابی سے باور کرایا ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور اس کے شہریوں کی جان اس کے لیے ریڈ لائن ہے۔‘

’ڈیورنڈ لائن سے متعلق افغان وزیر دفاع کا بیان

بعض ماہرین افغان وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد کی نیوز کانفرنس کا بھی حوالہ دے رہے ہیں جس میں اُنھوں نے ڈیورنڈ لائن کو ’فرضی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دوحہ معاہدے میں اس سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔

واضح رہے کہ پاکستان ’ڈیورنڈ لائن‘ کو بین الاقوامی سرحد قرار دیتا ہے۔

’دی خراسان ڈائری‘ سے منسلک صحافی افتحار فردوس کہتے ہیں کہ دوحہ معاہدے کے بعد افغان طالبان قیادت کی جانب سے دیے جانے والے بیانات جارحانہ ہیں۔

’ایکس‘ پر اُن کا کہنا تھا کہ ’ڈیورنڈ لائن‘ کے معاملے پر بات کرنا ظاہر کرتا ہے کہ افغان طالبان دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

اُن کے بقول ’ایسا لگتا ہے کہ معاملات کو حل کرنے سے متعلق پاکستان کے سفارتی اقدامات نے بہت کم کام کیا ہے۔ لہذا حالات یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان ایک اور تنازع کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے جس سے وہ بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

صحافی احسان ٹیپو محسود نے اپنی ’ایکس‘ پوسٹ پر اسے طالبان کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا ہے۔

پاکستان، افغان طالبان اور قطر کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے لفظ بارڈر نکالنے کے معاملےپر تاحال کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔

’ڈیورنڈ لائن ایک طے شدہ معاملہ ہے‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی معاملات کئی دہائیوں پہلے سے ہی طے پا چکے ہیں۔ لہذا بار بار اس معاملے کو اُٹھانا غیر ضروری ہے۔

لاہور کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ سائنسز (لمز)میں پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ 1946 تک افغان حکمرانوں نے اس مسئلے کو نہیں اُٹھایا تھا ’لیکن جب 1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو افغان حکومت نے اس مسئلے کو اُٹھایا۔‘

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’اُس وقت کی برطانوی حکومت نے افغان حکومت کے اس مطالبے کو یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ یہ معاملہ بہت پہلے حل ہو چکا ہے۔‘

رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’افغان وزیر دفاع کا بیان بدنیتی پر مبنی ہے اور اس سے دوحہ معاہدے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’پاکستان یہ طے کر چکا ہے کہ اب طالبان حکومت سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔‘

اُن کے بقول ’اگر طالبان حکومت کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان دوبارہ افغانستان کے اندر کارروائی سے گریز نہیں کرے گا۔‘

تصویر
Getty Images

اورکزئی واقعہ، خواجہ آصف کا پارلیمان میں بیان اور کابل میں مبینہ کارروائی

واضح رہے کہ پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان سے آ کر پاکستان میں فوج اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں میں افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں۔ لیکن طالبان حکومت پاکستان کے ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتی رہی ہے۔

افغانستان پاکستان پر حالیہ برسوں کے دوران سرحدی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرتا رہا ہے۔ پاکستان بعض کارروائیوں کی تصدیق جبکہ بعض کی تردید کرتا آیا ہے۔

رواں ماہ آٹھ اکتوبر کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں بتایا کہ سات اور آٹھ اکتوبر کی درمیانی شب اورکزئی میں ہونے والے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے دوران 19 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ اس آپریشن میں فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل اور ایک میجر سمیت 11 اہلکار بھی مارے گئے تھے۔

آٹھ اکتوبر کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمان میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’حکومت اور فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور شدت پسندوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے والوں کو اب نتائج بھگتنا پڑیں گے۔‘

اس سے اگلے روز یعنی نو اکتوبر کو افغان طالبان کےترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی کہ کابل شہر میں دھماکے کی آواز سنی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر افغان وزاتِ دفاع کے سرکاری اکاؤنٹ سے جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے افغانستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور کابل اور ڈیورنڈ لائن کے قریب پکتیکا کے علاقے میں ایک بازار پر بمباری کی ہے۔ تاہم پاکستان نے افغان طالبان کے دعوؤں کی تردید تا تصدیق نہیں کی تھی۔

دس اکتوبر کو پشاور میں نیوز کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف سے کابل اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں حملوں سے متعلق پوچھا گیا۔

اس سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پاکستان کی کارروائیوں کی نہ تصدیق کی تھی نہ تردید، تاہم نیوز کانفرنس میں اُنھوں نے بتایا تھا کہ پاکستان کے عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

تصویر
Getty Images

افغان طالبان کی جوابی کارروائی اور دونوں جانب نقصان کے دعوے

سنیچر اور اتوار یعنی 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب فریقین کے مابین سرحدوں پر شدید جھڑپوں کی اطلاعات آئیں۔

اتوار 12 اکتوبر کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اسے پاکستان کے خلاف ’انتقامی کارروائی‘ قرار دیا۔

اُنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے کابل اور افغانستان کے دیگر علاقوں میں حملوں کے بعد جوابی کارروائی میں پاکستان کے 58 فوجی ہلاک جبکہ 30 زخمی ہوئے ہیں۔

اسی روز آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں ان جھڑپوں میں 200 سے زائد طالبان اہلکاروں کی ہلاکت اور متعدد چیک پوسٹس قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا گیا۔

اسی بیان میں پاکستانی فوج نے سکیورٹی اہلکاروں سمیت 23 پاکستانیوں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی۔

اس دوران 13، 14 اور 15 اکتوبر کو بھی پاکستان، افغانستان سرحد پر کشیدگی جاری رہی۔

15 اکتوبر کو افغان طالبان کے ترجمان نے الزام لگایا کہ پاکستانی فورسز نے قندھار کے سپین بولدک ضلع میں افغانستان پر ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے حملے شروع کیے، جس کے نتیجے میں 12 سے زائد عام شہری ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

پاکستان کا موقف رہا ہے کہ اس نے افغانستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ مسلح تصادم ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک ہفتے سے زیادہ دورانیے کے دورے پر انڈیا میں موجود تھے۔

انڈیا سے دیے گئے امیر خان متقی کے اُس بیان کو بھی توجہ ملی جس میں اُنھوں نے پاکستان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ’سوویت یونین، امریکہ اور نیٹو سے سبق سیکھے‘ جو اُن کے بقول ’افغانستان کو کبھی شکست نہیں دے سکے تھے۔‘

پاکستان کی جانب سے امیر خان متقی کے انڈیا کے دورے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

تصویر
Getty Images

دوست ممالک کا اظہارِ تشویش اور 48 گھنٹوں کی جنگ بندی

قطر اور سعودی عرب نے فریقین کو مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا مشورہ دیا تھا، تاہم اس دوران دونوں جانب کے حکام کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات کا سلسلہ جاری تھا۔

15 اکتوبر کو دونوں ممالک کے درمیان 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دونوں فریقین بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔

فریقین نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ عارضی جنگ بندی دوسرے فریق کے اصرار پر ہو رہی ہے۔

لیکن اسی دوران خواجہ آصف نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی زیادہ دیر تک نہیں چلے گی کیونکہ ان کے مطابق اس وقت افغانستان کے ’سارے فیصلے دلی سے سپانسر ہو رہے ہیں۔‘

پاکستانی وزیر دفاع نے افغانستان میں طالبان حکومت پر انڈیا سے قربت کا الزام عائد کیا وہیں ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’پاکستان نے ٹی ٹی پی پر حملہ کیا تھا لیکن اس کے جواب میں ہونے والی کارروائیوں میں افغانستان بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دونوں فرنچائز ایک ہی چیز ہیں، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ افغانستان اس وقت انڈیا کی پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ ’جھںڈے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے اور وہ اس وقت انڈیا کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔‘

خواجہ آصف کے خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب طالبان حکومت نے الزام عائد کیا کہ جمعے کی شب پاکستان کی فوج نے پکتیکا میں شہری علاقوں پر فضائی حملے کیے جس کے نتیجے میں متعدد شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغان حکومت افغانستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور ان کارروائیوں کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

سنیچر کو پاکستان کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان سرحد سے متصل شمالی اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ’ایکس‘ پر جاری بیان میں کہا کہ سرحدی اضلاح میں شدت پسند گروہ حافظ گل بہادر کے تصدیق شدہ کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ 48 گھنٹوں کی جنگ بندی کے دوران ’خارجیوں‘ نے پاکستان کے اندر متعدد دہشت گرد حملے کرنے کی کوشش کی ہے جس کا سکیورٹی فورسز نے مؤثر جواب دیا ہے اور سو سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

وزیرِ اطلاعات نے بتایا کہ جمعے کی شب ’مصدقہ‘ انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر حافظ گل بہادر گروپ کے خلاف کارروائی کی گئی جس میں کم سے کم 60 سے 70 شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔

تاہم افغانستان کے کرکٹ بورڈ نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں تین کلب کرکٹرز سمیت عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

قطر اور ترکی کی ثالثی میں جنگ بندی معاہدہ

ان الزامات اور دعوؤں کے درمیان خبر آئی کہ فریقین مذاکرات کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ جا رہے ہیں۔

پہلے افغان طالبان نے تصدیق کی کہ افغان وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد اور انٹیلی جنس چیف دوحہ جائیں گے، جس کے بعد پاکستان نے بھی وزیر دفاعخواجہ آصف کی سربراہی میں اپنا وفد دوحہ بھیجنے کی تصدیق کی۔

اتوار کی صبح قطر کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان نے فوری طور پر جنگ بند کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی جنگ بندی معاہدے کی تصدیق کی ہے۔

قطر کی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ فریقین جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے بات چیت جاری رکھیں گے۔

قطری وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ دیرپا امن اور استحکام کے لیے فریقین ایک لائحہ عمل بنائیں گے جس کے ذریعے دونوں ملکوں میں سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر تناؤ ختم ہو گا اور دونوں برادر ملک مستقبل میں خطے میں امن و استحکام کی بنیاد رکھیں گے۔

معاہدے کے بعد خواجہ آصف کی جانب سے ایکس پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ معاہدے کے بعد ’افغانستان سے دہشت گردی‘ کا سلسلہ فی الفور بند ہو گا اور دونوں ہمسایہ ملک ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام کریں گے۔

خواجہ آصف کے مطابق 25 اکتوبر کو استنبول میں دوبارہ وفود کے درمیان ملاقات ہو گی اور تفصیلی بات چیت ہو گی۔

جنگ بندی معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا مزید جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لانا ضروری ہے۔

ایکس پر اپنے بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک ٹھوس اور قابل تصدیق نگرانی کا طریقہ کار چاہتے ہیں جس پر ترکی میں ہونے والے اجلاس میں غور ہو گا تاکہ افغان سرزمین سے پاکستان کی طرف اٹھنے والی دہشت گردی کے خطرے سے نمٹا جا سکے۔‘

خیال رہے کہ سنیچر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی تھی۔ پاکستان کے سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کے مطابق ان مذاکرات میں آئی ایس آئی کے سربراہ اور مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی شریک ہوئے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US