حنیفیا اچکزئی نے 16 اکتوبر کی شب فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں تو سنی تھیں لیکن وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ اس لڑائی کے دوران ان کا نوجوان بیٹا بھی ہلاک ہو چکا ہے۔ جانیے بی بی سی نمائندہ نے چمن میں کیا دیکھا اور مقامی لوگوں نے انھیں کیا بتایا۔
کلیم شاہ کے مطابق وہ گاڑی میں سو رہے تھے جس وقت فائرنگ سے سکرین ٹوٹ گئیحنیفیا اچکزئی نے 16 اکتوبر کی شب فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں تو سنیں تھیں لیکن وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ پاکستان اور افغانستان کی لڑائی کے دوران ان کا نوجوان بیٹا بھی ہلاک ہو چکا ہے۔
حنیفیا اچکزئی کا تعلق چمن شہر سے ہے۔ بی بی سی کی ٹیم جب ان سے ملاقات کے لیے پہنچی تو لوگ ان کے پاس تعزیت کے لیے آ رہے تھے۔
16 اکتوبر کی رات کو جب دونوں ملکوں کے درمیان شیلنگ ہوئی تو حنیفیا کا بیٹا نصیب اللہ اور بھتیجا روزی خان چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف موجود تھے۔
اس شیلنگ میں ان دونوں سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ دونوں کی لاشیں دو روز کے بعد چمن پہنچائی گئیں۔
حنیفیا اچکزئی نے اپنے آنسو پگڑی کے کونے سے صاف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بیٹے کی ہلاکت سے اس وقت تک باخبر نہیں تھے جب تک تین ایمبولینسیں لاشیں لیکر نہیں آئیں۔
’ایسا کوئی شخص میرے سامنے نہیں آیا جو کہتا کہ آپ کا بیٹا گھوڑا گاڑی لیکر بارڈر پر گیا ہے۔ میں یہاں گھومتا پھرتا تھا، اس کی غیر موجودگی میں بچے گھر میں رات کا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ ہلاک ہو گیا ہے۔‘
’میرے دو ہی بیٹے تھے جن میں سے ایک ہلاک ہو گیا۔ اس کے تین چھوٹے بچے ہیں۔‘
یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی روز تک جاری رہنے والے مسلح تصادم کے بعد سنیچر کی شب فریقین جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔
قطر کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان نے مذاکرات میں جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ قطری وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ دیرپا امن اور استحکام کے لیے فریقین ایک لائحہ عمل بنائیں گے۔
دونوں ملکوں میں مزید مذاکرات 25 اکتوبر کو استنبول میں ہوں گے۔ ان کوششوں کو خوش آئند تو سمجھا جا رہا ہے لیکن سرحد کے قریب لوگ ابھی بھی غیر یقینی کا شکار ہیں۔
حنیفیا اچکزئینصیب اللہ کے کزن محمد ولی منڈولی نے بتایا کہ نصیب اللہ گھوڑا گاڑی پر سامان لاتے اور لے جاتے تھے۔ ’اس دن وہ افغانستان کی طرف تھے۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ لڑائی ہو جائے گی۔‘
رات دیر گئے ہونے والی شیلنگ میں نصیب اللہ اور روزی خان سمیت پانچ مزدور ہلاک ہوئے۔ یہ سب پاکستانی شہری تھے۔ ان کی لاشیں دو روز کے بعد یہاں لائی گئی ہیں۔
محمد ولی منڈولی نے بتایا کہ ’بارڈر پر گھوڑا گاڑی والے مزدور کو ہزار سے 1500 روپے ملتے ہیں۔ ایک کارڈ جاری ہوتا ہے جس پر وہ دونوں طرف آتے جاتے ہیں، لڑائی کے بعد کئی مزدور وہاں پھنس گئے ہیں جو ابھی نہیں آئے۔‘
شاہد خان کے مطابق ان کے گھر کی دیوار میں سوراخ افغان طالبان کے مارٹر کی وجہ سے ہوا دونوں ممالک کے درمیان واقع ’باب دوستی‘ اس وقت بند ہے جس کے قریب کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔
افغان طالبان نے باب دوستی کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی نے اپنی خبروں میں اس کی تردید کی اور کہا کہ ’درحقیقت افغان طالبان نے افغانستان کی جانب موجود گیٹ کو خود ہی بارودی مواد کے ذریعے تباہ کر کے یہ ڈرامہ رچایا تھا۔‘
باب دوستی سے چند سو میٹر دور کانٹے دار باڑ کے قریب سے پاکستان کے ٹینک دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب ہم قریبی گاؤں کلی جانان گئے تو صرف نوجوان نظر آئے۔
ایک نوجوان شاہد خان نے ہمیں گھر کی ایک دیوار دکھائی اور بتایا کہ ’اس میں جو سوراخ ہے وہ دراصل افغان طالبان کے مارٹر کی وجہ سے ہوا ہے۔‘
لڑائی کے بعد انھوں نے اپنے بچوں، خواتین اور بزرگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا ہے۔اس وقت صرف نوجوان موجود ہیں جو گھروں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اس گاؤں اور آس پاس بھی گولے گرے۔
(فائل فوٹو) باب دوستی سے چند سو میٹر دور کانٹے دار باڑ کے قریب سے پاکستان کے ٹینک دیکھے جا سکتے ہیںاس گاؤں سے چند قدم فاصلے پر محمود خان اچکزئی کا مکان تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کا خاندان ساڑھے چار سو سالوں سے یہاں مقیم ہے۔
انھوں نے باڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ جو باب دوستی ہے اس کے دوسری طرف بھی ہمارے گھر، زمینیں اور رشتے دار ہیں۔‘ ان کی ’خواہش اور دعا ہے کہ امن ہوجائے، دونوں ملک مذاکرات کریں۔‘
چمن کی دس لاکھ سے زائد آبادی کا انحصار سرحدی کاروبار سے منسلک ہے۔ افغانستان سے یہاں پیاز، ٹماٹر، انگور، کوئلہ اور سیب آتے ہیں تو پاکستان سے چاول، سبزیاں، ادویات، سیمنٹ، موٹر سائیکلیں، ٹریکٹر اور دوسری اشیا ایکسپورٹ ہوتی ہیں۔
اس وقت کاروبار ٹھپ ہے اور بارڈر پر مال برداری کرنے والے مزدور بیروزگار ہیں۔
حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 25-2024 میں پاکستان کی افغانستان کو برآمدات 38.68 فیصد بڑھ کر 77 کروڑ 38 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ مالی سال کے دوران 55 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھیں۔
چمن بارڈر کے ساتھ ہی افغان پناہ گزینوں کا ایک ہولڈنگ کیمپ موجود ہے، جب ہم وہاں پہنچے تو ٹریکٹر، ڈاٹسن پک اپس، ٹرکس سے لیکر کنیٹینرز تک میں لوگ بچوں اور خواتین سمیت سوار تھے۔
انھوں نے لوہے اور لکڑی کے دروازے، کھڑکیاں، پانی کی ٹینکیاں بھی اٹھا رکھی تھیں جو وہ اپنی بستیوں کے مسمار ہونے کے بعد ساتھ لائے ہیں۔
پاکستان کے کئی علاقوں سے افغان پناہ گزین اس کیمپ میں آ رہے ہیں لیکن پینے کے پانی سے لیکر صحت اور خوراک کا کوئی بندوبست نہیں۔
محمود خان اچکزئی کہتے ہیں کہ ان کا خاندان ساڑھے چار سو سال سے یہاں مقیم ہے چمن چیمبر آف کامرس کے رہنما اور وفاقی چیمبر آف کامرس کے صدر کے عہدے پر رہنے والے دارو خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں زمینی راستے سے تجارت ہوتی ہے جس میں چمن اور طورخم بڑے سٹیشنز ہیں۔
اس تجارت کی مقدار ان کے مطابق تقریبا دو بلین ڈالر کے قریب ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب کبھی بھی اس قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو تاجر اور عوام دونوں پریشان ہوتے ہیں۔ پنجاب سے جو گاڑی نکلتی ہے وہ تین دن اور کراچی سے چار دن لگتے ہیں یہاں پہنچنے میں۔ اس وقت سینکڑوں گاڑیاں رکی ہوئی ہیں جن میں سامان ہے، اس صورتحال میں مال خراب ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔‘
’جس طرح کیلا خراب ہوا تو تاجر پھینک رہے ہیں یا سستے داموں فروخت کر رہے ہیں کیونکہ کولڈ سٹوریج ایک حد تک اس کو بچاتا ہے۔‘
’اسی طرح پنجاب سے چوزا آتا ہے جو ایکسپورٹ ہوتا ہے یہ ڈھائی سو روپے کا چوزہ 20 روپے کا فروخت ہو رہا ہے تاکہ نقصان سے بچ سکیں۔‘
چمن بارڈر کے ساتھ ہی افغان پناہ گزینوں کا کیمپ موجود ہےانھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ ایک معاہدہ تجارت کے بارے میں بھی کیا جائے۔
’وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ جو معاہدہ ہے افغانستان اس کا احترام کرے اور ان کا سامان جانے دے۔ اسی طرح افغانستان نے جو سامان کراچی بندرگاہ سے بھیجنا ہے یا ان کا سامان آنا ہے، اس کو تحفظ دیا جائے یعنی سیاست کو تجارت سے الگ کریں۔‘
افغانستان اور پاکستان میں امپورٹ ایکسپورٹ کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا کاروبار بھی اسی راستے سے ہوتا ہے۔ کسٹمز نے کراچی سے لیکر چمن تک اس کاروبار کو بھی معطل کردیا ہے۔ چمن میں کئی ٹرک بھی لڑائی کی زد میں آ گئے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا کاروبار بھی اسی راستے سے ہوتا ہےبی بی سی کی ٹیم نے سرحدی گاؤں کے دورے کے ساتھ ساتھ باب دوستی پر پھنسے ہوئے کنٹینروں کا جائزہ لیا اور متاثرین سے بات چیت کر کے احوال جانا۔
کلیم شاہ کی گاڑی کی ونڈ سکرین ٹوٹی ہوئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ گاڑی میں سو رہے تھے جس وقت ’فائرنگ سے سکرین ٹوٹ گئی اور خدا نے بچایا۔‘
گلاب خان نے بتایا کہ پہلے وہ گیٹ (باب دوستی) پر کھڑے تھے پھر ’وہاں سے ہٹا کر شہر کے باہر لائے۔ اب کہتے ہیں کہ یہاں سے بھی پیچھے جاؤ۔‘
’ہم سمجھ نہیں رہے کہ کہاں جائیں۔ ہم کہتے ہیں کہ کنٹینر یہاں اتار دو، ہم گاڑی واپس کوئٹہ لے جاتے ہیں۔ جب حالات کی تسلی ہو جائے تو ہم اپنا سامان اٹھا کر لے جائیں گے۔‘