چوبیس اکتوبر 1954 کو گورنرجنرل غلام محمد نے ایمرجنسی لگا کر پاکستان کی پہلی دستورساز اسمبلی تحلیل کردیکہ ’اس نے عوام کا اعتماد کھو دیا‘ اور اپنے ہی لائے وزیراعظم محمد علی بوگرا کی حکومت توڑ کر ان ہی سےنئی کابینہ بنوائی جس میں فوج کے سربراہ ایوب خان وزیر دفاع تھے اور ریٹائرڈ میجر جنرل اسکندر مرزا وزیرِ داخلہ۔
شہاب لکھتے ہیں کہ نئی اسمبلی قائم کرنے کا حکم مان کر غلام محمد کے دلی عزائم کو شکست فاش ہوئی تھی24 اکتوبر 1954 کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایمرجنسی لگا کر پاکستان کی پہلی دستورساز اسمبلی تحلیل کر دی کہ ’اس نے عوام کا اعتماد کھو دیا‘ اور اپنے ہی لائے وزیراعظم محمد علی بوگرا کی حکومت توڑ کر ان ہی سے نئی کابینہ بنوائی جس میں فوج کے سربراہ ایوب خان وزیر دفاع تھے اورریٹائرڈ میجرجنرل اسکندر مرزا وزیرِ داخلہ۔
امریکی جریدے ٹائم نے لکھا کہ ’خون بہائے بغیر، پاکستان ایک غیر مستحکم، مغرب نواز جمہوریت سے ایک زیادہ مستحکم، مغرب نواز فوجی آمریت میں بدل گیا۔ اگلی شام، خوبرو غلام (محمد) اطمینان سے ’لو ان وینس‘ نامی فلم کی نجی نمائش میں بیٹھے تھے۔ وہ (امریکی اداکارہ) میریلن منرو کے بھی پرجوش مداح ہیں۔ یوں، پچھلے ہفتے ایشیا میں ایک نیا نظام قائم ہوا۔‘
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیرِاعظم بنے تھےاور غلام محمد گورنر جنرل۔
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق غلام محمد ایک کامیاب اور پرانے بیوروکریٹ اور پاکستان کے پہلے وزیرِ خزانہتھے۔ ناظم الدین دیندار اور خاموش طبیعت کے جبکہ غلام محمد طاقتور اور سخت نظم و نسق کے حامی۔ یوںملک میں ایک کمزور وزیرِاعظم اور ایک مضبوط گورنر جنرل کی جوڑی بنی اور وائسرائے کا طرزِ حکمرانی لوٹ آیا۔
اکبر ملک نے اپنی کتاب ’کہانی ایک قوم کی‘ میں لکھا کہ ’جب خواجہ ناظم الدین اور ان کے دیگر رفقائے کار نے غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے کا حلف دلایا تو اس وقت غلام محمد کی صحت جواب دے چکی تھی۔ وہ اکثر بیمار رہتے، فالج کے حملے نے انھیں چڑچڑا کر دیا تھا۔ ان کی گفتگو اور کردار میں مخبوط الحواسی کے آثار بھی نمایاں ہورہے تھے۔۔۔ وہ اپنا بیشتر وقت اپنی ایک غیر ملکی سیکریٹری مس روتھ بورل کے ساتھ گزارتے، اس کے باوجود ان کو اقتدار کی شدید بھوک اور پیاس تھی۔‘
اکبر ملک کے مطابق ’ناظم الدین کا خیال تھا کہ بیماری کی وجہ سے وہ (غلام محمد) زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے اور محض برائے نام گورنر جنرل ہوں گے لیکن خواجہ ناظم الدین کا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور غلام محمد نہایت ہی سخت جان نکلے اور انھوں نے بطور گورنر جنرل ایسے اقدامات کیے کہ پاکستان کی اساس متزلزل ہو گئی۔‘
قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ میں غلام محمد میں ’ہوس اقتدار‘، ’صنفِ نازک کی طرف اکثرمریضانہ حد تک پہنچتے رجحان‘ اور ’اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خودغرضی، خود سری، ہٹ دھرمی، دھونس، دھاندلی اور ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے کی صلاحیت‘ کا تذکرہ کرتے ہیں۔
برٹینیکا کے مطابق ’سنہ 1953 میں پنجاب میں فسادات پر قابو نہ پا سکنے کو بنیاد بنا کر غلام محمد نے ناظم الدینکی حکومت برطرف کر دی۔‘
شہاب سیکریٹری ٹو گورنرجنرل تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’مفلوج، معذور اور مغرور‘ غلام محمد نے قلم کی ایک جنبش سے ناظم الدین کو ملک کی وزارتِ عظمیٰ سے موقوف کر دیا۔ ابھی چند روز قبل خواجہ صاحب کا بجٹ قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے منظور کیا تھا۔‘
شہاب کے مطابق مسلم لیگ کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ ’اس لیے اس نے اپنے منھ پر یہ چپت بھیگی بلی بن کر قبول کر لی اور گورنر جنرل کے نامز د وزیراعظممحمد علی بوگرا کو بڑی فرمانبرداری سے اپنا لیڈر منتخب کر لیا۔‘
بوگرا جب وزیرِاعظمنامزد ہوئے تو وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔
کتاب ’پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم‘ میں نعیم احمد ’پاک امریکہ دوستی، وزیرِاعظم انجن ڈرائیور‘ کے عنوانکے تحت لکھتے ہیں کہ ’امریکہ نے ایک دفعہ پاکستان کو دوستی کے تحت ریلوے کے چند انجن دیے۔ گورنر جنرل کو یہ انجن وصول کرنا تھے۔‘
وزرائے اعظمکے ملازمین کی یادداشتوں اور مشاہدات پر مشتمل اس کتاب میں لکھا ہے کہ گورنر جنرل باقاعدہ اپنی گاڑی میں اس مقام کی طرف روانہ ہوئے لیکن بوگرا ایک فوجی کی موٹر سائیکل کو خود چلانے لگے اور گورنر جنرل کی گاڑی کے آگے آگے پائلٹ کا کردار ادا کیا۔
ایوب خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لندن ایئرپورٹ پر گورنر جنرل نے مجھے ٹیلی فون پر بلوایا لیکن ان کی بات میری سمجھ میں مطلق نہیں آئی’جب ریلوے سٹیشن جہاں پر انجن کھڑے تھے، وہاں پہنچے تو انجن کے اندر پہنچ گئے۔ انجن کے ڈرائیور کی ٹوپی لے کر اپنے سر پر پہن لی اور انجن چلانا شروع کر دیا‘۔
اکبر ملک نے لکھا کہ ’محمد علی بوگرا ممکن ہے وزارت خارجہ کے امور کے ماہر ہوں مگر وہ ہرگز وزیراعظم بننے کے قابل نہیں تھے۔ شروع شروع میں وہ غلام محمد کے نہایت ہی اطاعت گزار اور وفادار رہے۔ وہ جب بھی آزادانہ طور پر کاروبار مملکت کے فیصلے کرنے کی جسارت کرتے تو غلام محمد برہم ہو جاتے اور ان کی سرزنش کرتے‘۔
ایوب خان کی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ کے اردو ترجمے ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘ میں لکھا ہے کہ محمد علی بوگرا نے غلام محمد کے منظورِ نظر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ جب ان کے قدم ذرا جمے تو انھوں نے خود کو گورنر جنرل کے بندھنوں سے آزاد کرنا چاہا۔
شہاب لکھتے ہیں کہ 21 ستمبر 1954 کو آئین ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے وہ تمام اختیارات چھین لیے جنھیں استعمال کر کے وہ وزیراعظم یا کابینہ کو معطل کرسکتے تھے۔
’یہ قدم نہایت مناسب اور صحیح تھا لیکن طریقہ مضحکہ خیز تھا‘۔
شہاب لکھتے ہیں کہ اسمبلی کے ممبر مفلوج غلام محمد سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ انھوں نے یہ کارروائی چوروں کی طرح دبے پاؤں چھپ چھپا کر کی۔ ترامیم کی قرارداد چھپوا کر ممبروں میں فوراً تقسیم نہیں کی گئی بلکہ آدھی رات کو اسمبلی میں ان کے پجن ہولز(ڈبوں) میں رکھوا دی گئی۔
’اگلی صبح اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ قبل شروع ہوا اور گورنر جنرل کے اختیارات کم کرنے کی قرارداد دس منٹ کے اندر اندر پاس ہو گئی‘۔
شہاب کے مطابق گورنر جنرل نے اس شب خون کا جواب 33 دن بعد دیا۔
’وزیرِ اعظم محمد علی بوگرا، چودھری محمد علی، اسکندر مرزا اور ایوب خان کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر تھے کہانھیں گورنر جنرل غلام محمد کا پیغام ملا کہ وہ فوراً وطن واپس لوٹ آئیں۔ جب وہ لندن پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس روز کوئی ہوائی جہاز مشرق کی طرف نہیں جا رہا، اس لیے انھوں نے کراچی کے لیے ہوائی جہاز چارٹر کر لیا‘۔
محقق اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر سید جعفر احمد نے روزنامہ ڈان کے ایک مضمون میں لکھا کہ لندن ایک خصوصی طیارہ بھیجا گیا اور جبمحمد علی بوگرا امریکہ کے دورے کے بعد وہاں پہنچے تو اُنھیں فوراً پاکستان واپس آنے پر مجبور کیا گیا۔ کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خان اور اُس وقت مشرقی بنگال کے گورنر اور سابق سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا، وزیرِاعظم کے ساتھ لندن سے کراچی تک آئے۔
’یہ کسی حد تک اسکارٹ تھا یا شاید اغوا۔‘
غلام محمد کی جگہ اسکندرمرزا نے لی اور پھر انھیں بھی جلا وطن کر کے فوجی آمر ایوب خان نے اقتدار سنبھال لیالیکن ایوب خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لندن ایئرپورٹ پر گورنر جنرل نے مجھے ٹیلی فون پر بلوایا لیکن ان کی بات میری سمجھ میں مطلق نہیں آئی۔ میں نے ٹیلی فون اسکندر مرزا کو دے دیا۔ ہمیں بس اسی قدر معلوم ہو سکا کہ وہ مجھے فوراً پاکستان بلانا چاہتے ہیں۔ انھیں دوسروں سے غرض نہ تھی۔
’وزیرِ اعظم کو اس بات سے بڑی تشویش تھی کہ واپسی پر ان کا حشر کیا ہوگا۔ میں نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کر اپنے ساتھ وطن چلنے پر تیار کر لیا۔ راستے میں، میں نے اسکندر مرزا اور چودھری محمد علی سے کہا کہ کراچی پہنچتے ہی وزیرِ اعظم کو گورنر جنرل کے پاس لے جانا سخت خلافِ مصلحت ہو گا۔ ایسا آمنا سامنا بدمزگی کا موجب ہو سکتا ہے۔‘
’وزیرِ اعظم اپنے بنگلے پر جائیں اور ہمارے اشارے کے منتظر رہیں‘۔
صحافی آصف جیلانی نے بی بی سی کے لیے اپنی یادداشت ’پاکستانی جمہوریت پر پہلا وار‘ میں لکھا کہ 23 اکتوبر 1954 کا وہ پر آشوب دن مجھے ابھی تک یاد ہے جب بوگرا امریکہ کا دورہ اچانک ادھورا چھوڑ کر لندن کے راستہ کراچی واپس آئے تو ہوائی اڈےسے انھیں پولیس کے سخت پہرے میں عملی طور پر ایک قیدی کی طرح سیدھے گورنر جنرل ہاؤس لے جایا گیا، جہاں گورنر جنرل ملک غلام محمد، فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور اُس زمانہ کے مشرقی پاکستان کے گورنر، اسکندر مرزا صلاح مشورہ کر رہے تھے۔
’ہوائی اڈے پر موجود ہم چند صحافیوں نے وزیر اعظم بوگرا سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن صاف منع کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ پرنسپل انفارمیشن افسر کرنل مجید ملک بھی بے بس تھے اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے‘۔
آصف جیلانی کے مطابق ہوائی اڈے سے واپسی پر جب کراچی میں بھاری تعداد میں فوج کے دستوں کو نقل و حرکت کرتے دیکھا تو ماتھا ٹھنکا۔
’طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا اور قیاس آرائیوں کا زور تھا۔ وہ آشوب انگیز رات تھی۔ پوری رات صحافی انجانے اہم اعلان کا انتظار کرتے رہے‘۔
ایوب خان لکھتے ہیں کہ ’اسکندر مرزا، چودھری محمد علی اور میں، ہم تینوں تو گورنر جنرل کی کوٹھی پر پہنچے۔ وہ غصے سے آگ بگولہ ہو رہے تھے اور گالیوں کی بوچھاڑ تھی کہ تھمنے کا نام نہ لیتی تھی لیکن خوش قسمتی سے یہ گالیاں کسی کی سمجھ میں نہ آتی تھیں۔ چودھری محمد علی نے جرات کر کے کچھ کہا، اس کے جواب میں ان پر بوچھاڑ پڑی۔‘
’اس کے بعد اسکندر مرزا کچھ بولے، ان پر بھی بوچھاڑ پڑی۔ ہم ان کی خدمت میں یہ گزارش کرنا چاہتے تھے کہ آپ محمد علی (بوگرا) کو ایک موقع اور دیں۔ اس کے جواب میں غصے میں انھوں نے غرا کر کہا: ’جاؤ، جاؤ، دور ہو جاؤ۔ ان کی زبان سے بار بار ’نہیں، نہیں‘ کے الفاظ نکلتے۔ وہ بس ہم کو بھگا دینا چاہتے تھے۔
’ہم ایک کے پیچھے ایک ان کی خواب گاہ سے نکلے۔ آگے آگے اسکندر مرزا، ان کے پیچھے چودھری محمد علی اور سب سے پیچھے میں۔ میں کمرے سے قدم باہر رکھنے ہی کو تھا کہ ان کی نرس جو کہ ان کی خدمت پر مامور تھی، نے میرا کوٹ پکڑ کر کھینچا، میں پلٹا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ میں ایک بالکل مختلف آدمی سے دو چار ہوں۔
’یہی ہمارے بوڑھے اور بیمار گورنر جنرل جو تھوڑی دیر پہلے غصے سے دیوانے ہو رہے تھے، اب ان کا چہرہ مسرت سے کھِل اُٹھا تھا اور وہ قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے دل میں کہا کہ آپ بھی بڑے حضرت ہیں۔ انھوں نے ایک خاص مسرت کی چمک آنکھوں میں لیے مجھے اشارہ کیا، ’مسہری پر بیٹھ جاؤ‘۔
’اس کے بعد انھوں نے تکیے کے نیچے سے دو دستاویزات نکالیں۔ ان میں سے ایک پر کچھ اس قسم کی عبارت تھی کہ ’میں غلام محمد فلاں فلاں وجوہ کی بنا پر فلاں فلاں اختیارات جنرل ایوب خان کو سونپتا ہوں اور انھیں حکم دیتا ہوں کہ وہ تین مہینے کے اندر اندر آئین تیار کریں۔‘
’میں نے اس کاغذ پر نظر ڈالی اور دل میں کہا ’خدا آپ کو سمجھے۔ پچھلے آٹھ برس تو آپ کو ہوش نہ آیا اور اب چاہتے ہیں کہ میں تین مہینے میں دستور بنا کے پیش کردوں۔‘
’دوسری دستاویز اس مضمون کی تھی کہ میں نے اس پیشکش کو قبول کر لیا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے میں ان تاریخی دستاویزات کو اپنے ہاتھ میں تھامے رہا۔ جیسے ہی میں نے ان کاغذوں پر نظر ڈالی میرا تن بدن پُکار اُٹھا کہ ’نہیں، ہرگز نہیں۔‘ میں نے ان سے کہا کہ آپ جلد بازی سے کام لے رہے ہیں۔ اس سے ملک کو سخت نقصان پہنچے گا۔ میں فوج کی تعمیر میں مصروف ہوں۔‘
’اس کے جواب میں انھوں نے مجھ پر گالیوں کی ایک اور بوچھاڑ کردی لیکن انھیں احساس ہو گیا کہ میں اس جلد بازی کے کام میں ان کا ساتھ نہیں دوں گا‘۔
آصف جیلانیکے مطابق گورنر جنرل ہاؤس میں، تین کے ٹولے کے طویل صلاح مشورہ اور منصوبہ بندی کے بعد وزیر اعظم بوگرا کو فوجی افسروں اور پولیس کی معیت میں بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کے سٹوڈیو لے جایا گیا جہاں سے انھوں نے (گورنر جنرل کے حکم کے تحت) ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کیا۔
شہاب لکھتے ہیں کہ جو کمانڈر ان چیف اپنے گورنر جنرل کو ایسی کھری کھری سنانے کی ہمت رکھتا ہو اس کا یہ فرض بھی تھا کہ وہ اسے کوئی اور غیر جمہوری اورغیر آئینی قدم اٹھانے سے باز رکھنے کی تلقین بھی کرے بلکہ اس کے برعکس نئی کابینہ بنی تو ایوب خان نے کمانڈر ان چیف کے عہدہ کے ساتھ ساتھ اس میں وزیر دفاع کا منصب بھی قبول کر لیا۔ اسکندر مرزا اس نئی کابینہ میں وزیر داخلہ مقررہوئے۔
’ان دونوں حضرات کی رفاقت غلام محمد کے لیے بڑی زبردست پشت پناہی تھی اور غالباً یہی وہ شہ تھی جس کے زور پر انھوں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا تھا‘۔
ڈاکٹر رشید احمد خان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ 12 اگست 1955 تک پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے بوگرا نے اگرچہ مشرقی بنگال میں وزیراعلیٰ فضل الحق کی جمہوری اور منتخب حکومت کو معزول کیا اور اسکندر مرزا اور ایوب خان کو مرکزی کابینہ میں شامل کیا‘ مگر ان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انھوں نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد چھ ماہ کے اندر پاکستان کے پہلے دستور کا پہلا مسودہ تیار کر لیا۔
جی ڈبلیو چودھری اپنی کتاب ’کانسٹی ٹیوشنل ڈیویلپمنٹ ان پاکستان‘ میںلکھتے ہیں کہ آئین ساز اسمبلی میں شق وار منظوری کے بعد اس مسودے کو قائداعظم کے یومِ ولادت (25 دسمبر 1954) کے موقع پر نافذ کرنے کا محض رسمی اعلان باقی تھا‘ لیکن اس سے قبل 24 اکتوبر 1954 کو گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی توڑ کر اس کی نوبت ہی نہ آنے دی۔
حامد خان اپنی کتاب ’کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس آئین میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آبادی کے فرق کا تنازع طے کر دیا گیا تھا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 55 فیصد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 45 فیصد طے کر دیا گیا تھا‘۔
’منصوبے کے مطابق آئین ساز اسمبلی اسی برس دسمبر میں دستور کے مسودے کو حتمی شکل دے کر اس کی منظوری کا فیصلہ کر چکی تھی کہ غلام محمد نے اسمبلی کو تحلیل کر کے دستور کی منظوری کا راستہ بند کر دیا۔
اس طرح ملک کے دونوں حصوں کے درمیان پارلیمان میں نمائندگی کا مشکل مسئلہ جو اس دستور میں حل کر دیا گیا تھا، ایک بار پھر بگاڑ کر مشرقی پاکستان کے حق نمائندگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا گیا اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اسٹیبلشمنٹ مشرقی پاکستان کے حق حکمرانی کو کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اس طرح اس فیصلے نے علیحدگی کا بیج بو دیا‘۔
وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ یہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے امریکہ میں پاکستانی سفیر تھےڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق کابینہ نے وقت ضائع کیے بغیر ملک کے مغربی حصے کی تمام صوبائی اور ریاستی اکائیوں کو ضم کر کے ’صوبہ مغربی پاکستان‘ بنانے کا منصوبہ تیار کیا۔
’اس اقدام کا مقصد مشرقی بنگال کی عددی اکثریت کو غیر مؤثر بنانا تھا۔ اس نئی ’انجینئرنگ‘ کے ذریعے یہ مؤقف ممکن ہوا کہ چونکہ اب ملک میں صرف دو صوبے ہیں — مشرقی اور مغربی پاکستان — اس لیے دونوں کو مساوی نمائندگی دی جائے۔ یوں ’پیریٹی‘ کی اصطلاح پاکستانی سیاست میں داخل ہوئی‘۔
جعفر احمد لکھتے ہیں کہ دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیزالدین کی درخواست پرغلام محمد کے 24 اکتوبر 1954 کو اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دے کر دستور ساز اسمبلی کو بحال کر دیا۔
اس فیصلے کے بعد 27 مارچ 1955 کو ملک غلام محمد نے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر کے وسیع اختیارات سنبھال لیے۔
نیویارک ٹائمز نے تب لکھا کہ مبصرین کی رائے ہے کہ انتخابات کم از کم پانچ سال دور ہیں۔
ان مبصرین، جن میں کابینہ کے اراکین بھی شامل تھے، نے حال ہی میں وزیرِ داخلہ اور گورنر جنرل کے قریبی مشیر میجر جنرل اسکندر مرزا کے ایک بیان کی یاد دلائی۔ جنرل مرزا نے کہا کہ پاکستان میں ’کنٹرولڈ جمہوریت‘ ہو گی اور ’عوام کو خود ان سے بچانا ضروری ہے‘۔
گورنر جنرل کے ریفرنس پر 10 مئی 1955 کو جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں فیڈرل کورٹ نے کثرت رائے سے سندھ ہائی کورٹ کا دستور ساز اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
شہاب کے مطابق فیڈرل کورٹ نے لکھا ’ہم ایک خندق کے کنارے آ پہنچے ہیں جہاں ہمارے سامنے صرف تین راستے ہیں۔ ایک یہ کہ جس راہ سے ہم آئے ہیں اسی راہ واپس مڑ جائیں، دوسرا یہ کہ خندق پر ایک قانونی پل تعمیر کر کے اسے عبورکر لیں اورتیسرا یہ کہ خندق میں چھلانگ لگا کر تباہی کا شکار ہوجائیں‘۔
’فیڈرل کورٹ نے غلام محمد کی کھودی ہوئی اس خندق پر جو قانونی پل تعمیر کیا وہ نظریہ ضرورت کے ستون پر کھڑا تھا‘۔
شہاب لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں یہ ریفرنس فیڈرل کورٹ میں تھا ان کے ڈپٹی سیکریٹری فرخ امین ہر دوسرے روز انھیں بتائے بغیر لاہور آ جا رہے تھے۔
’میرے ڈانٹنے پر انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ گورنرجنرل کا کوئی خفیہ پیغام چیف جسٹس محمد منیر کے پاس لے کر جاتے ہیں اور وہاں سے اسی طرح کوڈڈ الفاظ میں چیف جسٹس کا پیغام گورنر جنرل کو لا کر دیتے ہیں۔۔۔ ایسے موقع پر مملکت کے سربراہ اور عدلیہ کے سربراہ کا آپس میں رابطہ قائم کرنا دونوں کو زیب نہ دیتا تھا‘۔
فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے کثرت رائے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم اور گورنر جنرلغلام محمد کے اقدام کو درست قرار دے دیا۔
فیڈرل کورٹ کے اس فل بنچ میں، چیف جسٹس محمد منیر، جسٹس ایس اے رحمان، جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس، جسٹس محمد شریف اور جسٹس ابوصالح محمد اکرم شامل تھے۔
جعفر احمد کے مطابق پاکستان کی عدلیہ نے اس فیصلے کے ذریعے ملک کے آئینی اور جمہوری سفر کو پٹڑی سے اتار دیا۔
’بعد ازاں فیڈرل کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے یہی روایت برقرار رکھی مگر اس کی بنیاد 1954 ہی میں رکھی گئی‘۔
اس فیصلے سے جسٹس کارنیلیس نے اختلاف کیا۔
تاہم، فیڈرل کورٹ نے دستور سازی کے لیے اسمبلی ازسرِنو تشکیل دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’دستور بنانے کا ذریعہ مجلس دستور ساز ہی ہے‘۔
شہاب لکھتے ہیں کہ نئی اسمبلی قائم کرنے کا حکم مان کر غلام محمد کے دلی عزائم کو شکست فاش ہوئی تھی۔ وہ تو اپنی مرضی کا ساٹھ رکنی آئین ساز کنونشن معرض وجود میں لا کر کام چلانا چاہتے تھے۔
’اس ذاتی ہزیمت کا غم غلط کرنے کے لیے انھوں نے اپنی کھوئی ہوئی جسمانی قوتوں کو بحال کرنے کی ٹھانی۔‘
’لکھنؤ سے طلب کیے جانے والے105 برس کے حکیم کے آتے ہی گورنر جنرل ہاؤس کا ایک حصہ طبی دوا خانہ میں تبدیل ہو گیا۔ دو تین بار اس نے 33 زندہ اور صحت مند چڑوں کی فرمائش کی جو ہم نے بڑی مشکل سے کمشنر حیدرآباد کے ذریعے سندھ کے مضافات سے حاصل کیے۔‘
’چڑوں کو ذبح کرنے کے بعد ان کا مغز تو کسی دوا میں استعمال ہوتا تھا اور گوشت کی یخنی بنا کر حکیم صاحب خود نوش فرما لیتے تھے۔
ایک بار حکیم نے بکری کا ایک ایسا بچہ طلب کیا جسے پیدا ہونے کے بعد آنکھیں کھولنے سے پہلے ذبح کیا گیا ہو۔ گورنر جنرل ہاؤس کے کئی ملازم شہر کی حاملہ بکریوں کے سرہانے جا بیٹھے اورکسی نہ کسی طرح حکیم صاحب کی یہ فرمائش بھی پوری کی گئی۔
’انواع و اقسام کی ادویات تیار ہوتی تھیں۔ جنھیں ملک غلام محمد کو بڑے اہتمام سے کھلایا جاتا تھا۔ اس کارروائی کا اور کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ البتہ ان کا بلڈ پریشر مزید بڑھ گیا اور ایک روز وہ اچانک بے ہوش ہو کر کوما میں چلے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر لکھنؤی حکیم اپنا بوریہ بستر سنبھال کر رفو چکر ہو گیا اور گورنر جنرل کو آکسیجن لگا دی گئی۔
’اس واقعہ کے بعد غلام محمد کی حالت میں بہتری نہ آئی اور وہ مسلسل صاحب فراش رہے‘۔
ایمرجنسیکے ساتھ ہی پریس بھی پابندیوں کی زد میں آ گیا تھا۔
لیکن انگریزی اخبار ڈان نے 27 اکتوبر 1954 کو اپنے اداریے میں لکھا کہ ’اگر یہ تحریر سنسر سے گزر گئی تو ہمارے قارئین اسے چھپے ہوئے دیکھیں گے۔‘
’حل یہ ہونا چاہیے تھا کہ آئین کی تکمیل کا کام بہرحال آگے بڑھایا جاتا، خواہ وہ اچھا ہو، برا ہو یا معمولی اور اس میں مستقبل کی پارلیمنٹ کے لیے آسان ترمیم کی گنجائش رکھی جاتی تاکہ عوام جلد از جلد اپنے حقیقی نمائندوں کو مرکزی پارلیمنٹ میں بھیج سکیں اور جمہوریت کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والی برائیوں کو جمہوریت کے درست استعمال سے درست کیا جا سکے‘۔
لیکن ایسا نہ ہو پایا۔ پہلے بیمار غلام محمد کی جگہ اسکندرمرزا نے لی اور پھر انھیں بھی جلا وطن کر کے فوجی آمرایوب خان نے اقتدار سنبھال لیا۔