ایک منفرد داڑھی اور بچوں جیسے چہرے کی خصوصیات کے حامل چن ژی اپنی عمر سے بھی بہت چھوٹے لگتے ہیں لیکن وہ بہت جلد امیر ہو گئے۔
37 سالہ چن ژی پر الزام ہے کہ ’وہ سائبر فراڈ کی ایک وسیع و عریض سلطنت کے ماسٹر مائنڈ تھے جو انسانی مصائب کی آڑ میں ایک مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ادارہ چلا رہے تھے۔‘
ایک منفرد داڑھی اور بچوں جیسے چہرے کی خصوصیات کے حامل چن ژی اپنی عمر سے بھی بہت چھوٹے لگتے ہیں لیکن وہ بہت جلد امیر ہو گئے۔
گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ انصاف نے اُنھیں کمبوڈیا میں سکیم سینٹرز چلانے کا ملزم قرار دیا، جس کے ذریعے اُنھوں نے پوری دُنیا میں موجود متاثرین کی اربوں ڈالر کی کرپٹو کرنسی چوری کی۔
اس ضمن میں امریکی محکمہ خزانہ نے چن ژی سے منسلک تقریباً 14 ارب ڈالر مالیت کے بٹ کوائن ضبط کیے ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق یہ اب تک ضبط کی گئی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی ہے۔
اُن کی اپنی کمپنی ’کمبوڈین پرنس گروپ‘ کی ویب سائٹ کے مطابق چن ژی ’ایک باعزت کاروباری شخصیت ہیں جو اپنے فلاحی کاموں کے لیے جانے جاتے ہیں اور ان کے وژن اور قیادت نے پرنس گروپ کو کمبوڈیا میں ایک بڑے بزنس گروپ میں تبدیل کر دیا۔‘
بی بی سی نے اس معاملے پر ردِعمل کے لیے پرنس گروپ سے بھی رابطہ کیا۔
ہم چن زی کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ایک پراسرار شخصیت جو مبینہ طور پر فراڈ کی ایک وسیع سلطنت چلا رہے تھے۔
چونکا دینے والی اُڑان
جنوب مشرقی چین کے صوبہ فوجیان میں پلے بڑھے چن ژی نے ایک چھوٹی لیکن کامیاب سمجھی جانے والی گیمنگ کمپنی قائم کر کے شروعات کی۔ سنہ 2010 کے اواخر یا 2011 کے آغاز میں وہ کمبوڈیا چلے گئے۔
یہاں اُنھوں نے اُس وقت تیزی سے ترقی کرنے والے ریئل سٹیٹ سیکٹر میں کام شروع کیا۔
اُن کی آمد کے وقت کمبوڈیا میں پراپرٹی مارکیٹ اپنے عروج پر تھی۔ اُس وقت کمبوڈیا میں طاقتور سیاسی شخصیات سے واپس لی گئی زمین فروخت کے لیے دستیاب تھی اور اس دوران یہاں چینی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔
اس میں سے کچھ سرمایہ کاری صدر شی جن پنگ کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کے تحت ہو رہی تھی جبکہ چینی سرمایہ کار انفرادی سطح پر بھی چین میں پراپرٹی کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے کمبوڈیا میں نسبتاً سستی پراپرٹی مارکیٹ میں پیسہ لگا رہے تھے۔ اس عرصے کے دوران کمبوڈیا میں چینی سیاحوں کی آمد میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔
کمبوڈیا کے دارالحکومت پنوم پن میں تیزی سے نئی عمارتیں بن رہی تھیں۔ فرانسیسی نو آبادیاتی دور میں بننے والی حویلیاں اب بلندو بالا کثیر المنزلہ عمارتوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔
سمندر کنارے واقع سیہانوک وِل کا ریزورٹ چین سے چھٹیاں منانے کے لیے آنے والوں کی پسندیدہ جگہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ جگہ جواریوں کے لیے بھی سازگار تھی کیونکہ چین میں جوا غیر قانونی ہے۔
یہاں لگژری ہوٹلز اور اپارٹمنٹس کے ساتھ ساتھ نئے کسینو بھی بن گئے، جہاں بہت سارا پیسہ بنانے کا موقع تھا۔
چن ژی بھی اس دوران تیزی سے ترقی کر رہے تھے۔ سنہ 2014 میں اُنھوں نے چینی شہریت چھوڑ کر کمبوڈیا کی شہریت حاصل کر لی جس سے اُنھیں اپنے نام سے زمین خریدنے کا حق مل گیا لیکن اس کے لیے یہ شرط تھی کہ اُنھیں کمبوڈیا میں کم از کم ڈھائی لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا تھی۔
یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا کہ چن ژی کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی۔ سنہ 2019 میں آئل آف مین پر بینک اکاؤنٹ کے لیے درخواست دیتے وقت اُنھوں نے ایک بے نامی چچا کا نام لکھوایا۔ ان چچا کے حوالے سے چن ژی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پراپرٹی کمپنی شروع کرنے کے لیے اُنھیں 20 لاکھ ڈالر دیے لیکن وہ اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکے تھے۔

چن ژی نے سنہ 2015 میں پراپرٹی ڈویلپمنٹ فرم پرنس گروپ کی بنیاد رکھی، اس وقت اُن کی عمر صرف 27 برس تھی۔
سنہ 2018میں پرنس بینک کے قیام کے لیے اُنھوں نے کمرشل بینکنگ کا لائسنس حاصل کیا۔ اسی سال اُنھوں نے ڈھائی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے بدلے قبرص کا پاسپورٹ حاصل کیا جس سے اُنھیں یورپی یونین تک رسائی ملی۔ بعدازاں اُنھوں نے وانواتو کی شہریت بھی حاصل کر لی۔
اُنھوں نے کمبوڈیا کی تیسری ایئر لائن شروع کی اور سنہ 2020 میں چوتھی ایئر لائن کے لیے سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ اُن کے پرنس گروپ نے پنوم پن میں لگژری مال بنائے جبکہ سیہانوک وِل میں فائیو سٹار ہوٹلز بھی قائم کیے گئے۔
پرنس گروپ نے ’بے آف لائٹس‘ کے نام سے 16 ارب ڈالر مالیت کی ’ایکو سٹی‘ کی تعمیر کا بھی منصوبہ بنایا۔
سنہ 2020 میں چن ژی کو کمبوڈیا کے بادشاہ کی طرف سے عطا کردہ اعلیٰ ترین اعزاز ’نیک اوکنہا‘ سے نوازا گیا۔
اُنھیں سنہ 2017 میں وزیرِ داخلہ کا سرکاری مشیر بنایا گیا اور وہ اُن کے بیٹے کے بزنس پارٹنر بن گئے۔
چن ژی کو مقامی میڈیا میں ایک مخیر شخص کے طور پر سراہا گیا، جس نے کم آمدنی والے طلبا کے لیے وظائف کی مالی اعانت کی اور کمبوڈیا کو کرونا وبا سے نمٹنے میں مدد کے لیے خاطر خواہ عطیہ دیا۔
اس کے باوجود وہ ایک پراسرار شخصیت بنے رہے۔

صحافی جیک ایڈووک ڈیوس نے چن ژی سے متعلق تین برس پر محیط ایک تحقیقاتی سٹوری پر کام کیا، جو گذشتہ برس ریڈیو فری ایشیا پر شائع ہوئی۔
جیک ایڈووک ڈیوس کہتے ہیں کہ ’میں نے اُن کے ساتھ براہ راست کام کرنے والے افراد سے بات کی، وہ سب اُنھیں انتہائی شائستہ اور پرسکون شخصیت کا حامل شخص قرار دیتے تھے۔‘
ایڈووک ڈیوس کہتے ہیں کہ جو لوگ چن ژی کو پسند نہیں بھی کرتے تھے، وہ بھی اُن کی پرسکون کرشماتی شخصیت سے متاثر تھے۔
لیکن یہ ساری دولت اور طاقت کہاں سے آئی؟
’بین الاقوامی جرائم کے لطیفے‘
سنہ 2019 میں سیہانوک ویل میں پراپرٹی کا کام ٹھپ ہونے لگا۔ آن لائن جوئے کے کاروبار نے چینی مجرمانہ گروہوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا، جنھوں نے پھر ایک دوسرے کے ساتھ پرتشدد لڑائیاں شروع کر دیں جس کی وجہ سے سیاح خوفزدہ ہو گئے۔
چین کے دباؤ میں اس وقت کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن سین نے اسی سال اگست میں آن لائن جوئے پر پابندی لگا دی تھی۔ تقریباً ساڑھے چار لاکھ چینی شہریوں نے شہر چھوڑ دیا کیونکہ ان کا مرکزی کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا۔
پرنس گروپ کے بہت سے رہائشی بلاکس بھی خالی پڑے تھے۔
اس کے باوجود چن ژی نے اپنے کاروباری مفادات کو بڑھانا اور آزادانہ خرچ کرنا جاری رکھا۔
برطانوی حکام کے مطابق 2019 میں چن ژی نے شمالی لندن میں 12 ملین پاؤنڈ کی کوٹھی اور شہر کے بزنس ڈسٹرکٹ میں 95 ملین پاؤنڈ کا آفس بلاک خریدا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ چن ژی اور ان کے ساتھیوں نے نیویارک میں جائیدادیں، پرائیویٹ جیٹ، سپر یاٹ اور پکاسو کی پینٹنگ خریدی۔
برطانوی حکام یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ چن ژی کی دولت آج ایشیا کے سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار، آن لائن فراڈ اور اس کے ساتھ انسانی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ سے آئی ہے۔
امریکہ اور برطانیہ نے چن ژی اور پرنس گروپ سے منسلک 128 کمپنیوں اور سات مختلف قومیتوں کے 17 افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں جن پر ان کا الزام ہے کہ وہ اس ’سلطنت‘ کو چلانے میں مدد فراہم کرتے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ میں چن ژی سے منسلک اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔
پابندیوں کے اعلان میں شیل کمپنیوں اور کرپٹو کرنسی والیٹس کے ایک وسیع ویب کی وضاحت کی گئی، جس کے ذریعے پیسہ اپنی اصلیت کو چھپانے کے لیے منتقل کیا گیا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ ’پرنس گروپ ٹرانس نیشنل کرائم آرگنائزیشن سیکس ٹارشن سمیت بین الاقوامی جرائم کی ایک قسم سے منافع کماتی ہے۔ اس میں جنسی مواد کے ذریعے بلیک میلنگ، منی لانڈرنگ، فراڈ، غیر قانونی جوئے، غیر قانونی تجارت اور کمبوڈیا میں کم از کم 10 فراڈ کے سینٹرز کے آپریشن چلانے کے لیے مزدوروں کو غلام بنانے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔‘
’سکیم ایمپائر‘
چین بھی سنہ 2020 سے خاموشی سے پرنس گروپ کی تحقیقات کر رہا تھا۔ کمپنی پر آن لائن فراڈ سکیموں کو چلانے کا الزام لگانے والے متعدد عدالتی کیسز سامنے آئے ہیں۔
بیجنگ میونسپل پبلک سیکیورٹی بیورو نے ’پرنس گروپ، کمبوڈیا میں ایک بین الاقوامی آن لائن جوئے بازی کی تحقیقات کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے۔
امریکہ اور برطانیہ کا الزام ہے کہ ’گولڈن فارچیون سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک‘ جیسے کاروبار میں بھی پرنس گروپ ملوث تھا۔
ماضی میں پرنس گروپ نے فراڈ میں ملوث ہونے کی تردید کی اور کہا کہ اب اس کا گولڈن فارچیون سے کوئی تعلق نہیں لیکن امریکہ اور برطانیہ کی تحقیقات کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان اب بھی واضح کاروباری تعلق موجود ہے۔
ایڈووک ڈیوس نے چن ژی کے بارے میں اپنی تحقیقات کے لیے گولڈن فارچیون کے قریب رہنے والے اور کام کرنے والے متعدد لوگوں کا انٹرویو کیا۔
تحقیقات میں سامنے آیا کہ اس دوران چینی، ویتنامی اور ملائیشیا کے لوگوں کی وحشیانہ مار پیٹ کی گئی جنھوں نے فراڈ کے ان سینٹرز سے فرار ہونے کی کوشش کی۔
ڈیوس کہتے ہیں کہ حیران کن بات یہ ہے کہ پرنس گروپ سنگین مجرمانہ الزامات کے باوجودد ایک عرصے تک کاروباری دُنیا میں ایک بڑے نام کے طور پر موجود رہا۔
اُن کے بقول بہت سے لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ چن ژی سنگا پور، لندن یا امریکہ میں اثاثے حاصل کرنے کے قابل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وکلا، ریئل سٹیٹ ایجنٹس، بینکرز سمیت اس گروپ کی اصلیت جاننے والوں کو اس معاملے میں بولنا چاہیے تھا۔

امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے اس گروپ سے متعلق متنبہ کیے جانے کے بعد کئی کاروبار تیزی سے خود کو پرنس گروپ سے الگ کر رہے ہیں۔
کمبوڈیا کے مرکزی بینک کو بھی یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ جس میں وہ صارفین کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ پرنس بینک میں موجود اُن کی رقوم محفوظ رہیں گی۔
جنوبی کوریا کے حکام نے کوریا کے بینکوں کے پاس موجود اس کے 64 ملین ڈالر کے ذخائر کو منجمد کر دیا ہے۔
سنگاپور اور تھائی حکومتیں اپنے دائرہ اختیار میں پرنس کی ذیلی کمپنیوں کے بارے میں تحقیقات کا وعدہ کر رہی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے نشانہ بنائے گئے 18 افراد میں سے تین سنگاپور کے ہیں۔
لیکن کمبوڈیا کی حکمران اشرافیہ کے لیے اتنے عرصے تک اس کے اتنے قریب رہنے کے بعد چن ژی سے خود کو دور کرنا مشکل ہوگا۔ کمبوڈیا پہلے ہی فراڈ کے کاروبار پر نرمی کی وجہ سے تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ فراڈ پر چلنے والے کاروبار کمبوڈیا کی مجموعی معیشت کا نصف ہو سکتے ہیں۔
اور خود چن ژی کا کیا ہو گا؟
گذشتہ ہفتے پابندیوں کے اعلان کے بعد سے ان کے بارے میں کچھ سنا یا دیکھا نہیں گیا۔ خفیہ ٹائیکون، جو کبھی کمبوڈیا کی سب سے طاقتور شخصیات میں شمار ہوتے تھے، ایسا لگتا ہے کہ کہیں غائب ہو گئے ہیں۔