پاکستان کا سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں ہزاروں نوکریاں پیدا کرنے کا منصوبہ: ’ہم سعودی عرب کے شراکت دار بننا چاہتے ہیں‘

سیمی کنڈکٹرز جدید ڈیجیٹل زندگی کے ہر پہلو میں شامل ہیں، چاہے وہ چھوٹے سمارٹ فونز ہوں یا انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے والے میگا ڈیٹا سینٹرز۔ پاکستان کی وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد انٹیگریٹڈ سرکٹ (آئی سی) ڈیزائن اور ریسرچ کے ہنر مند پروفیشنلز حاصل کرنا ہے جو مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں کام کر سکیں گے۔
سیمی کنڈکٹر
Getty Images

پاکستان میں سیمی کنڈکٹر کی مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ایک طویل مدتی حکمت عملی مرتب دی گئی ہے جس کے پہلے مرحلے میں 7200 افراد کو ٹریننگ دی جائے گی۔

پاکستان کی وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد انٹیگریٹڈ سرکٹ (آئی سی) ڈیزائن اور ریسرچ کے ہنر مند پروفیشنلز حاصل کرنا ہے جو مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں کام کر سکیں گے۔

تین مراحل کے روڈ میپ کے ذریعے پاکستان چاہتا ہے کہ 2035 کے بعد اس قابل بن جائے کہ یہ الیکٹرانکس کے شعبے میں عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر سکے۔

شزہ فاطمہ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے نہ صرف سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں پاکستان کو ٹیلنٹ حاصل ہو گا بلکہ اس سے قومی سلامتی کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ملک عالمی سپلائی چین میں رکاوٹوں سے تحفظ حاصل کر سکے گا۔

سیمی کنڈکٹرز جدید ڈیجیٹل زندگی کے ہر پہلو میں شامل ہیں۔ چاہے وہ چھوٹے سمارٹ فونز ہوں یا میگا ڈیٹا سینٹرز جو انٹرنیٹ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ سیمی کنڈکٹر کی جدید ٹیکنالوجی الیکٹرک گاڑیوں سے لے کر مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں ترقی کے لیے اہم ہے۔

پاکستان میں سیمی کنڈکٹر کی ٹریننگ کا منصوبہ ’انسپائر‘ اور سعودی شراکت داری کی کوششیں

پاکستان میں سیمی کنڈکٹر سے متعلق ’انسپائر‘ نامی منصوبے کے اجرا کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 'آئی ٹی، اے آئی اور سیمی کنڈکٹرز جیسے شعبوں میں نوجوانوں کی تربیت ناگزیر ہے۔'

انھوں نے تسلیم کیا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے اس منصوبے کے لیے ساڑھے 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو ’محض ایک قطرہ ہیں۔ حکومت سیمی کنڈکٹر پروگرام کے لیے مزید وسائل مہیا کرے گی۔‘

سرکاری سطح پر جاری کیے گئے بیان کے مطابق اس پانچ سالہ منصوبے کے تحت 7200 نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی میں تربیت فراہم کی جائے گی اور نو یونیورسٹیوں کے کلسٹرز قائم کیے جائیں گے اور چھ جدید انٹیگریٹڈ سرکٹ (آئی سی) کی لیبارٹریز تیار کی جائیں گی۔

اس موقع پر پاکستان میں سیمی کنڈکٹر ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر نوید شیروانی نے کہا کہ سیمی کنڈکٹرز مستقبل میں ڈیٹا کی حفاظت میں کلیدی حیثیت کے حامل ہوں گے۔ ’مجھے خوشی ہے کہ ہم نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ سائبر سکیورٹی اور سیمی کنڈکٹر کے بغیر ترقی کا عمل آگے نہیں چل سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب بھی اس سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ ’اس شعبے میں ہمیں خود کفالت حاصل کرنا ہوگی، اس کے علاوہ ہمارے لیے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

اس منصوبے کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی حمایت حاصل ہے۔ تقریب کے موقع پر وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ ’فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور ایس آئی ایف سی کی ٹیم نے بھی اس میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔‘

شزہ فاطمہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پاکستان سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کا قابل اعتماد ہیومن ریسورس شراکت دار بننا چاہتا ہے۔ انھوں نے مثال دی کہ سعودی عرب میں ویژن 2030 کے تحت چِپ ڈیزائن سینٹر اور فیبریکیشن پروجیکٹ شروع کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے علاقائی مراکز کے ساتھ جڑنے سے پاکستان کے ہنرمند انجینیئر نوکریاں حاصل کر سکیں گے، ملک میں آئی سی ڈیزائن کے منصوبے آؤٹ سورس ہو سکیں گے اور سرمایہ کاری آئے گی۔

وفاقی وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں بی ایس اور ایم ایس کی تعلیم کی سطح پر سیمی کنڈکٹرز سے متعلق نصاب شامل کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی کوششوں کے برعکس اس منصوبے سے مستقبل بنیادوں پر صلاحیت پیدا ہوگی اور پاکستان کے فیب لیس سیمی کنڈکٹر ایکو سسٹم کی بنیاد ڈلے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقامی سطح پر تربیت یافتہ انجینیئرز کی موجودگی سے ڈیزائن ہاؤسز اور سٹارٹ اپ بن سکیں گے اور دفاع، مواصلات اور صنعی شعبوں میں تحقیق ہو سکے گی۔

’مستقبل میں انھی چِپس کے ذریعے غلبہ حاصل ہوگا‘

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں الیکٹرک انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر اور آئی سی ڈیزائن میں مہارت رکھنے والے ڈاکٹر عدیل پاشا نے منصوبے کو سراہا مگر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس میں بہت دیر کر دی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لمز سمیت کئی پاکستانی یونیورسٹیوں میں آئی سی ڈیزائن کے شعبے میں لوگوں کو تربیت دی گئی ہے اور ملک میں بعض ایسی کمپنیاں بھی موجود ہیں جو 2019 سے کام کر رہی ہیں۔

تاہم ان کی رائے میں اب اس پیشرفت کی سب سے بڑی وجہ علاقائی سیاسی صورتحال ہے جس میں ٹرمپ نے چین پر ٹیرف عائد کیا ہے اور سیمی کنڈکٹر کی تجارت میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مستقبل میں انھی چِپس کے ذریعے عالمی غلبہ حاصل کیا جائے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بنا ڈرائیور چلنے والی گاڑیوں سے لے کر دفاعی آلات تک سبھی صنعتوں میں جدید سیمی کنڈکٹرز استعمال ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر عدیل پاشا کا کہنا تھا کہ آئی سی ڈیزائن اور سیمی کنڈکٹر انڈسٹری سافٹ ویئر کے شعبے سے بہت فرق ہے کیونکہ کمرشل مقاصد میں اس کے ٹولز کے لائسنس لاکھوں ڈالرز میں دستیاب ہوتے ہیں۔ ’مائیکرو پروسیسر کی چِپس جتنی چھوٹی ہوتی جا رہی ہیں، یہ اسی تناسب سے مہنگی بھی ہوتی جاتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فی الحال پاکستان اس شعبے میں انڈیا سے ’کافی پیچھے ہے۔ انڈیا نے جو کام 80 کی دہائی میں شروع کیا وہ ہم نے 2000 کے بعد شروع کیا۔ ہماری پالیسیوں میں تسلسل نہیں تھا۔‘

خیال رہے کہ انڈیا میں نریندر مودی کی حکومت نے چِپ بنانے والی کمپنیوں کو 10 ارب ڈالر کی مراعات دی تھیں۔

پاکستان میں آئی سی ڈیزائن کے ماہرین کے مطابق یہ صنعت مستقبل میں ملکی سالمیت اور بقا کی ضمانت دے سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر ہائی ٹیک چِپس کی تجارت پر پابندیاں بھی نافذ ہیں کیونکہ یہ دفاعی صنعت میں استعمال ہوتی ہیں۔

سیمی کنڈکٹر
Getty Images

پاکستان میں سیمی کنڈکٹر چِپس کیوں نہیں بن سکتیں؟

عدیل پاشا کہتے ہیں کہ 2019 سے ملک میں تیزی سے سیمی کنڈکٹر کی صنعت میں کام ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب تک 22 سے 25 کمپنیاں اس میں کام کر رہی ہیں جو آئی سی ڈیزائن کا کام کرتی ہیں اور اس میں تحقیق کرتی ہیں۔

مگر ان کا نہیں خیال کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں چِپس بنائی جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت اکثر چِپس تائیوان میں بنائی جا رہی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک بھی اپنی چِپس نہیں بنا پا رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چِپس بنانے کے لیے فیبریکیشن پلانٹ قائم کیے جاتے ہیں جس کے لیے کثیر مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے، اس عمل میں نقصان دہ کیمیکل استعمال ہوتے ہیں اور ایسے صاف کمرے ضروری ہوتے ہیں جہاں گرد و غبار نہ جا سکے۔ ’یہ صنعت بہت مہنگی ہے، ہمارے ملک کے لیے مستقبل قریب میں فیبریکیشن ممکن نہیں ہوگا اور ابھی ہمیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘

عدیل پاشا نے بتایا کہ اس کی بجائے فیب لیس انڈسٹری کو فروغ دیا جا سکتا ہے جس میں کمپنیاں اپنے ڈیزائن بناتی ہیں اور ملک میں سٹریٹیجک مقاصد کے لیے اس پر کام ہو بھی رہا ہے۔

اس کے دیگر مقاصد بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کمرشل سطح پر تمام جدید الیکٹرانکس میں اس کا بھاری استعمال ہے۔ ’فی الحال ہم تمام چِپس چین اور دیگر جگہوں سے لے رہے ہیں۔ لیکن انھیں ڈیزائن کرنا اور اس کے گرد پراڈکٹ بنانا، یہ ہم کر سکتے ہیں۔‘

لمز میں آئی سی ڈیزائنز کے ماہر کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ اس شعبے کا بھی رُخ کرنا چاہیے۔ ’مصنوعی ذہانت کئی نوکریاں ختم کر سکتی ہے۔ ایک پروگرامر سے بہتر کوڈنگ اب چیٹ جی پی ٹی کر لیتا ہے۔۔۔ مگر آئی سی ڈیزائن کی نوکریاں اتنی آسان نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس شعبے میں اکثر معلومات کمپنیوں کی ملکیت ہے اور وہ اسے شیئر نہیں کرتے۔ چونکہ لینگوئج ماڈلز اوپن سورس میں دستیاب معلومات سے بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں لہذا اس شعبے میں یہ آسان نہیں۔ ’چِپ ڈیزائن، سرکٹس اور دیگر انجینیئرنگ کے لیے آپ کو الیکٹرانکس کی تکنیکی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔‘

عدیل پاشا کا کہنا تھا کہ ایک ہائی ٹیک چِپ لاکھوں ڈالر میں بنتی ہے اور اسی لیے اسے ڈیزائن کرنے میں خاص مہارت ہونا ضروری ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US