کرکٹر صہیب مقصود کی لگژری کار جو پولیس ریڈ کے بعد واپس مل گئی: گاڑیوں کے لین دین میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پاکستانی کرکٹر صہیب مقصود نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے فراڈ کا معاملہ واضح کیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا اور یوں ملتان پولیس کی مداخلت کے بعد صہیب مقصود کو اپنی رقم اور گاڑی مل گئی۔

فرض کریں کہ آپ اپنی پرانی گاڑی ایک ’قابل اعتماد‘ ڈیلر کے توسط سے فروخت کرنے جائیں اور خریدار آپ سے مخصوص رقم کی ادائیگی کے بعد بقایا رقم کے لیے مہلت مانگے لیکن مسلسل تقاضوں کے باوجود چند ماہ بعد آپ پر انکشاف ہو کہ کاغذات آپ کے پاس ہونے کے باوجود بھی آپ نہ صرف گاڑی بلکہ بقایا رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو آپ اس فراڈ کے لیے کِسے مورد الزام ٹھرائیں گے؟

گاڑی کی خرید و فروخت میں مالی فراڈ کا کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا پاکستانی کرکٹر صہیب مقصود کے ساتھ پیش آیا جنھوں نےتقریبا نو ماہ قبل اپنی پرانی گاڑی ملتان کے ایک شوروم کے ذریعے فروخت کی۔

گاڑی خریدنے والے شخص نے 60 لاکھ روپے دینے کے بعد گاڑی ان سے لے لی اور کہا کہ وہ بقیہ ادائیگی کے ساتھ گاڑی کے کاغذات کے ساتھ ان سے وصول کر لے گا۔

تاہم کئی ماہ گزرنے کے باوجود نہ ان کو پیسے ملے نہ گاڑی اور دوسری کار کی خریداری میں بھی ان کو رقم کا نقصان اٹھانا پڑا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پاکستانی کرکٹر صہیب مقصود نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے فراڈ کا معاملہ واضح کیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا اور یوں ملتان پولیس کی مداخلت کے بعد صہیب مقصود کو اپنی رقم اور گاڑی مل گئی۔

اس معاملے کے تصفیے کے بعد پاکستانی کرکٹرکی جانب سے پولیس حکام کا شکریے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر صارفین کی توجہ حاصل کر گئی وہیں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ گاڑیوں کی خرید و فروخت کے وقت لوگ کن باتوں کو مد نظر رکھیں اور رقم کی ادائیگی اور گاڑی کے ٹرانسفر سے قبل کیا جاننا ضروری ہے۔

ان سوالوں کے جواب کے لیے ہم نے رابطہ کیا ملتان کے سٹی پولیس آفیسر صادق علی ڈوگر سے۔ یاد رہے کرکٹر صہیب مقصود کے ساتھ گاڑی کی خرید و فروخت میں مالی فراڈ کے اس معاملے کو سی پی او ملتان نے انجام تک پہنچایا تھا اور صہیب مقصود نے اپنی ویڈیو میں بھی ان کے تعاون پر شکریہ ادا کیا ہے۔

فراڈ میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج

https://twitter.com/sohaibcricketer/status/1981835371056140540

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر سٹی پولیس آفیسر صادق علی ڈوگر نے پہلے اس واقعے کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاملہ چھ سے آٹھ مہینے پرانا ہے۔ کرکٹر صہیب نے اپنی گاڑی فروخت کی جس میں درمیان میں ایک ڈیلر بھی تھا اور مختلف مقامات پر اس میں پیسوں کی منتقلی کا عمل ہوتا رہا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے نوٹس میں یہ بات دو دن پہلے آئی۔ صہیب مقصود نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا دی کہ ان کو گاڑی واپس نہیں دی جا رہی۔ جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس پوسٹ پر نوٹس لیا۔ اور یوں ہم نے صہیب مقصود کو آفس بلایا اور اس فراڈ میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔‘

سی پی او ملتان کے مطابق ’اسی رات لاہور میں ریڈ کیا گیا اور پھر سارا پیسوں کا معاملہ حل کروایا اور صہیب کی گاڑی بھی واپس دلوائی۔‘

’پیسے دینے سے پہلے گاڑی اپنے قبضے میں لیں‘

جب کبھی آپ اپنی گاڑی فروخت کرنے یا خریدنے جائیں تو لین دین سے قبل کن چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے؟

اس سوال کے جواب میں سی پی او ملتان کا کہنا تھا کہ جب بھی گاڑیوں کا لین دین ہو تو پیسے دینے سے پہلے گاڑی اپنے قبضے میں لیں۔

ان کے مطابق کاروبار میں اعتماد فراڈ کی اصل وجہ بنتی ہے۔ ایجنٹ خوشامدی بات کرتے ہیں اور جھانسے میں لیتے ہیں کہ ان سے مخلص آپ سے کوئی نہیں۔ لیکن اعتماد کے پردے میں شہریوں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہاؤسنگ سکیمز میں ایک سے زائد بار پلاٹ بک جاتا ہے۔

’مالک کے ساتھ براہ راست بات کریں‘

سی پی او صادق علی ڈوگر کے مطابق گاڑی کی خریداری کے وقت کمیشن ایجنٹ کے بجائے ڈائریکٹ مالک کے ساتھ بات کریں۔ عام طور پر ایجنٹ ویلیو سے زیادہ رقم پر گاڑی فروخت کر کے اپنا کمیشن بناتے ہیں اور فراڈ کر لیتے ہیں۔

’چوری یا چھینی ہوئی گاڑی کا پولیس ریکارڈ چیک کروائیں‘

پولیس کے مطابق صارفین پرانی گاڑی لینے سے پہلے اس کا ریکارڈ چیک کریں۔

’گاڑی خریدتے وقت پولیس کے ریکارڈ کے ساتھ اصل مالک سے مل کر بات کرنا لازمی ہے اس سے فراڈ کا اندیشہ نہیں رہتا۔‘

ان کے مطابق ’پولیس کا سسٹم ہے جس میں چوری شدہ یا چھینی ہوئی گاڑیوں کا پورا ڈیٹابیس موجود ہے۔ تو پہلے اس سسٹم میں درخواست دے کر چیک کریں کہ جو گاڑی آپ خریدنا چاہ رہے ہیں اس کا انجن نمبر چیسسز نمبر کہیں پولیس کے ریکارڈ میں تو نہیں؟‘

’جب بھی گاڑی لیں اسی روز بایو میٹرک کےسے اپنے نام پر کروا لیں‘

گاڑیوں کی خرید و فروخت کے دوران ایک معاملہ اس کو اپنے نام کروانے کے لیے بائیو میٹرک کا مرحلہ ہوتا ہے جس کے بروقت نہ ہونے سے ٹرانسفر کا معاملہ عموما لٹکا دیا جاتا ہے۔

سی پی او صادق علی ڈوگر نے بتایا کہ ’جب بھی گاڑی لیں اسی روز بایو میٹرک کے ذریعے اسے اپنے نام پر کروا لیں کیونکہ جو مسائل ان کو ایکسائز کے دفتر میں سامنے آنے ہیں وہ بھی اسی موقع پر حل ہوں۔‘

انھوں نے بتایا کہ کئی بار ڈیلر گاڑی کی قیمت طے کر کے پیسے لے لیتے ہیں اور گاڑی خریدار کے حوالے کر دیتے ہیں۔

یوں خریدار بھی مطمیئن ہوتا ہے کہ گاڑی اس کے پاس آ گئی۔ تاہم جب جب ٹرانسفر کروانے کی باری آتی ہے تو بائیو میٹرک کے ڈیلرز علیحدہ سے دو سے تین لاکھ تک چارج کر لیتے ہیں۔

ان کے مطابق ’کئی دفعہ ایکسائز کے دفتر جا کے پتا چلتا ہے کہ گاڑی کے دعوےدار ایک سے زائد ہیں تو اس گاڑی کی ٹرانسفر پر بین یا پابندی لگی ہوتی ہے۔ اس لیے پیسے دینے سے پہلے اس معاملے کو بھی حل کروائیں۔‘

’دھوکہ دہی پر مبنی معلومات کے خلاف 406 کے تحت پولیس میں پرچا‘

گاڑی کی خرید و فروخت کے ابتدائی مرحلے میں بیانیے کی اہمیت اور مطالبے سے کون واقف نہیں لیکن اس بیانیے کے باوجود صارف سے دھوکہ کیا جائے تو اس کے لیے اس کے پاس کیا حل ہے؟

اس کے جواب میں پولیس آفیسر صادق علی ڈوگر نے بتایا کہ ’اگر بیانہ دے دیا ہے اور پھر پتا چلتا ہے کہ جو معلومات دی گئیں گاڑی میں وہ خوبیاں موجود ہی نہیں، یا وہ چوری کی ہے تو ’بریچ آف ٹرسٹ پاکستان پینل کورٹ کے سیکشن آف لا 406‘ کے تحت اس کے خلاف درخواست دی جا سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق ایک آدمی پر کسی چیز کی معلومات کے حوالے سے اعتماد کیا لیکن یہ معلومات غلط یا دھوکہ دہی پر مبنی نکلتی ہیں تو یہ کرمینل ایکٹ ہے اور اس کے خلاف 406 کے تحت درخواست دی جاتی ہے۔

ان کے مطابق اعتماد توڑ کر فراڈ اور جعلسازی کے مقدمات یومیہ پانچ سے چھ کیسز آتے ہیں۔ لوگ جعلی کاغذات بنا کر جائیدادیں تک منتقل کروا لیتے ہیں اور ایسے کیسز میں تیزی آتی جا رہی ہے۔

ان کے مطابق ’وائٹ کالر کرائم میں لوگوں سے کروڑوں لوٹے جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ یا گروہ اثر رسوخ رکھنے والے یا سیاسی پشت پناہی والے ہوتے ہیں جیسا کہ صہیب مقصود کے کیس میں ہوا۔ لوگ خوشامدی زبان بھی استعمال کرتے ہیں اور ان سے رقم کی وصولی ڈاکو چور سے زیادہ مشکل ہوتی ہے۔‘

’خدشات دور ہونے تک رقم کا لین دین نہ کریں‘

گاڑیاں
Getty Images
سی پی او صادق علی ڈوگر نے بتایا کہ 'جب بھی گاڑی لیں اسی روز بایو میٹرک کے ذریعے اسے اپنے نام پر کروا لیں‘

دھوکہ دہی کے مقدمات پر اگر 406 کے تحت پرچا کروایا جائے تو وہ کب تک حل ہونے کی توقع کی جائے؟

اس سوال کے جواب میں سی پی او ملتان صادق ڈوگر نے بتایا کہ ’فراڈیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو لین دین کے معاملے کو سول ٹرانزیکشن کی طرف لے جائیں۔ سول کورٹ میں جا کر ایک ہیئرنگ ہوتی ہے سالہا سال معاملہ چلتا ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’تاہم کریمینل ایکٹ کے تحت کارروائی کے تحت ایسے فراڈ کے کیسز عموما ایک ماہ میں حل ہو جاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق وارداتیوں کو جیل جانے سے ڈر لگتا ہے۔ وائٹ کالر کرائم میں نئی قسم ہے جو گاڑیوں اور پلاٹ کے سلسلے میں سامنے آ رہی ہے۔

رقم کی ادائیگی جب تک نہ ہو جب تک یہ سب خدشات دور نہ ہو جائیں۔ کاغذات میں بھی آپ کی اوونر شپ میں گاڑی ہو اور کسی بھی تنازع سے پاک ہو جب ہی مکمل ادائیگی کی جائے۔

سی پی او نے متنبہ کیا کہ بیانیہ دیتے وقت بھی بینک کی ادائیگی لین دین کو مستند بناتی ہے ورنہ ڈیلر مکر سکتا ہے اور آپ اس پانچ یا 10 فیصد بیانیے سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔

صادق علی ڈوگر کے مطابق پولیس کے خدمت مراکز کئی شہروں میں ہیں جہاں عام شہری جا کر لگ بھگ 100 روپے کے قریب فیس دے کر یہ معلومات لے سکتا ہے۔

ان کے مطابق ملتان میں 22 مقامات پر یہ خدمت مراکز ہیں۔ وہاں جا کر آپ نے گاڑی کی تفصیلات دینی ہے اور پولیس اپنے ریکارڈ سے اس کو چیک کر کے سرٹیفیکیٹ بنا دیتی ہے کہ اس کا ریکارڈ چوری یا چھینی ہوئی گاڑی کا ہے یا نہیں۔

’یہ سارا عمل چند منٹ میں مکمل ہوتا ہے بدقسمتی سے اس کی آگاہی نہ ہونے یا معلومات سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US