اگرچہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مستقبل میں بہت سے انسانی فوسلز کھودے جائیں گے لیکن اگر ہم کبھی معدوم ہو جائیں اور کوئی اور ذہین مخلوق آج سے لاکھوں سال بعد ہماری جگہ لے لے تو کیا انھیں ہمارے ہونے کی علامات ملیں گی؟
ہم انسان اپنے ماضی اور قدیم دور کے بارے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔
ہم نے زمین کی 4.5 ارب سالہ تاریخ سے بے شمار فوسلز کھود کر نکالے ہیں جو ہمیں بہت سے قدیم انواع حیات یا مخلوق کے بارے میں معلومات دیتے ہیں جو ہم سے بہت پہلے اس کرۂ ارض پر زندہ تھیں۔
لیکن اگر ہم خود ختم ہو جائیں اور لاکھوں سال بعد کوئی اور ذہین مخلوق ابھرے تو کیا وہ جان سکیں گے کہ ہم بھی کبھی یہاں آباد تھے؟ یا کیا انھیں معلوم ہو سکے گا کہ ہماری تہذیب کیسی تھی؟
ہمارے محجر یعنیفوسل بننے کے امکانات بہت کم
امریکہ کی یونیورسٹی آف راچسٹر میں فلکیات کے پروفیسر ایڈم فرینک کہتے ہیں کہ ہم مستقبل کے پیلنتھیولوجسٹ یعنی ماہرین آثار قدیم حیاتیات سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ہمارے فوسلز تلاش کر لیں گے۔
وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'زمین پر آنے والی حیات (زندگی) کا صرف بہت کم حصہ ہی فوسل بن پاتا ہے، خاص طور پر اگر آپ کی تہذیب جغرافیائی لحاظ سے اگر مختصر مدت تک قائم رہے تو اس کے اور بھی کم امکانات ہیں۔'
سنہ 2018 کے ایک مقالے میں پروفیسر فرینک نے بتایا کہ زمین پر 165 ملین سال تک گھومنے والے ڈایناسورز کے باوجود بھی ان کے مکمل فوسلز بہت کم ملے ہیں۔
اس لیے مقالے میں بتایا گيا ہے چونکہ ہماری انسانی نسل صرف تقریباً تین لاکھ سال پر محیط ہے، اس لیے ہمارے وجود کا فوسل ریکارڈ میں زیادہ نشان نہیں ملے گا۔
تاہم ہم مختلف نشان چھوڑ سکتے ہیں۔
زمین کی کیمیا میں تبدیلی
کہتے ہیں کہ زمین کی قدرتی چٹانی پرتیں لگاتار زمین میں بنتی رہتی ہیں اور انھیں سٹریٹا کہا جاتا ہے۔
ہر پرت کی کیمیکل ساخت اس وقت کی زمین کی حالت سے میل کھاتی ہے۔
پروفیسر فرینک کے مطابق انسانی سرگرمیوں سے ہونے والی موسمی تبدیلیاں چٹانوں میں موجود مواد کو بدل دیں گی، جو 'ممکن ہے لاکھوں سال بعد بھی دکھائی دے۔'
وہ کہتے ہیں: 'آپ دیکھیں گے کہ آکسیجن اور کاربن کے آئسوٹوپس میں فرق ہوگا کیونکہ زمین کا ماحولیاتی نظام انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے بدل گیا ہے۔'
ارتقا کی شکل بدلنا
اگرچہ ہماری ہڈیاں زیادہ فوسل ریکارڈز میں نہیں نظر آئيں گی، لیکن ان دوسرے جانوروں میں نظر آ سکتی ہیں جن کے فوسلز کو ہم نے بدلا ہوگا، یا ان پودوں اور جانوروں میں نظر آ سکتی ہیں جنھیں ہم نے دنیا بھر میں منتقل کیے یا جن کی حیاتیاتی تنوع میں ہم نے تبدیلی کی۔
سنہ 2018 کے ایک مطالعے میں پتہ چلا کہ دنیا کے 96 فیصد ممالیہ یا تو ہم ہیں یا ہمارے مویشی، یعنی کل زندہ مادے کے وزن کے لحاظ سے۔
دنیا کے دو تہائی پرندے ہماری مرغیاں ہیں۔
ہم ہر سال 75 ارب سے زیادہ مرغیاں مارتے ہیں، جو مستقبل میں بہت زیادہ پرندوں کی موت کے نشانات چھوڑیں گے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیسٹر کے جیولوجسٹ اور قدیم جانوروں کے ماہر جان زالاسویچ کہتے ہیں کہ 'ہم نے حیاتیاتی ارتقا کے راستے کو بدل دیا ہے۔
'ہمارے بہت دور کے عہد (یعنی مستقبل) کے ماہرین پوچھیں گے: 'یہ کیا ہوا؟ یہ کیوں ہوا؟' اور وہ ہماری پرت پر توجہ دیں گے جہاں سب کچھ شروع ہوا۔'
وزن کے لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ پالتو جانور ہیں، پھر انسان اور پھر جنگلی جانورہماری ’حتمی میراث‘
جان زالاسویچ اور ان کی ساتھی پروفیسر سارہ گیبٹ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ہماری روزمرہ کی اشیاء زمین کی جغرافیائی تاریخ میں زندہ رہیں گی۔
وہ انھیں ’ٹیکنوفوسلز‘ کہتے ہیں، چاہے وہ ایلومینیم کے ڈبے ہوں، پولیسٹر کی شرٹ ہو یا زیر زمین پارکنگ۔
سنہ 2020 کے ایک مطالعے کے مطابق ہم ہر سال 30 گیگا ٹن اشیاء بناتے ہیں، جو زمین پر ہر شخص کے اپنے وزن سے زیادہ ہے۔
اگر محض وزن کی بنیاد پر دیکھا جائے تو انھوں نے یہ پایا کہ حقیقت میں اب ہماری بنائی ہوئی اشیاء زندہ چیزوں سے زیادہ ہیں۔
انسانی مصنوعات میں سب سے زیادہ حصہ کنکریٹ کا ہے، جو مستقبل میں دریافت کرنے والوں کے لیے قدرتی نہیں لگے گا۔
اس بابت جان زالاسویچ کہتے ہیں: ’ہم کنکریٹ بنانے میں فلائی ایش شامل کرتے ہیں۔۔۔ مائیکروسکوپ کے نیچے یہ بہت عجیب دکھائی دیتا ہے۔‘
’اگر وہ کنکریٹ کی فوسلائزڈ شکلیں دیکھیں، جیسے عمارتوں کے کنارے یا فرش کی پتھریں، تو وہ سمجھیں گے کہ یہ کچھ بالکل مختلف ہے۔‘
ہمارے بہت سے مواد بہت دیر تک باقی رہیں گے۔
پروفیسر گیبٹ کہتی ہیں کہ ’پلاسٹک ایسی چیز ہے جو شاید نہ صرف ہزاروں سال بلکہ لاکھوں سال بھی باقی رہ سکتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق ہم اتنا زیادہ پلاسٹک بناتے ہیں کہ 2050 تک سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہو سکتا ہے۔
لیکن صرف پلاسٹک کی بات نہیں ہے۔
پروفیسر گیبٹ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس چار ارب سال پرانی چٹانیں ہیں جن میں گریفائٹ ہے۔ لہٰذا پنسل کی صورت میں گریفائٹ چار ارب سال تک رہ سکتا ہے۔‘
قدیم پتے بھی لاکھوں سال پہلے سے فوسل بنے ہوئے ملے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ ’کاغذ سیلولوز سے بنتا ہے، جو پتیوں کی طرح ہوتا ہے، اس لیے مناسب ماحول میں کاغذ بھی لاکھوں سال تک رہ سکتا ہے۔‘
آدمی کے بنائے سامان قدرتی جانداروں کے وزن سے زیادہ ہو گئے ہیںسیارے کی سطح پر تبدیلیاں
انسانوں نے زمین کی جغرافیہ پر بہت بڑا اثر چھوڑا ہے۔ یہ کہ کوئی اور ذہین مخلوق ہمارے بعد اسے دیکھ پائے گی یا نہیں، یہ کہنا مشکل ہے۔
لیکن کیا لاکھوں سال بعد اپنی میراث کا تصور کرنا فائدہ مند ہے؟
پروفیسر فرینک کے مطابق ایسا کرنا ضروری ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’میرا خیال ہے کہ ہمیں اس تکنیکی ناپختگی کے دور سے نکل کر زمین کی طویل مدتی تاریخ کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘
’یہ سیارے کی سطح پر تبدیلیاں ہیں جن کے اثرات صدیوں، ہزاروں اور حتیٰ کہ لاکھوں سالوں تک رہیں گے۔‘