49 سالہ بین نے جب مغربی ویلز کے ایک چھوٹے سے قصبے میں کھڑکیاں صاف کرنا شروع کیا تھا تو انھیں کبھی اس بات اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام انھیں کروڑوں پاؤنڈ کے کاروبار تک لے جائے گا۔ انھیں اتفاقاً پتا چلا کہ کسی قتل شدہ لاش یا گندگی سے بھرا باتھ ٹب صاف کرنے پر وہ بھاری رقم وصول کر سکتے ہیں۔
بین گائلز کو 30 سال کا صفائی کا تجربہ ہےانتباہ: اس کہانی میں جسمانی اعضاء، ان سے نکلنے والی رطوبتیں، موت اور تشدد کی تفصیلات شامل ہیں جو کچھ لوگوں کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
یہ کام کمزور دل والوں کے لیے نہیں ہے۔
بین جائلز نے پچھلے 25 برسصفائی ستھرائی کے کام میں مہارت حاصل کرنے میں گزارے ہیں لیکن یہ کوئی عام صفائی نہیں ہے بلکہ وہ دھماکوں اور جسموں کے کٹنے کے سبب پیدا ہونے والے داغ دھبوں کو صاف کر رہے ہوتے ہیں۔
49 سالہ بین نے جب مغربی ویلز کے ایک چھوٹے سے قصبے میں کھڑکیاں صاف کرنا کا کام شروع کیا تھا تو انھیں کبھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام انھیں کروڑوں پاؤنڈ کے کاروبار تک لے جائے گا۔
انھیں اتفاقاً پتا چلا کہ کسی لاش یا گندگی سے بھرا باتھ ٹب صاف کرنے پر وہ بھاری رقم وصول کر سکتے ہیں۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں ایک ایسی جگہ کو صاف کرنے کے لیے بلایا گیا تھا جہاں 'باتھ ٹب اوپر تک فضلے سے بھرا ہوا تھا، بیت الخلا بھی بھر چکا تھا، باورچی خانہ ناقابلِ برداشت حالت میں تھا اور فرش پر پسوؤں کی بھرمار تھی۔'
تو یہ سب کیسے شروع ہوا؟
بین سیریڈیگن کے علاقے کارڈیگن میں کھڑکیاں صاف کرنے کا کام کیا کرتے تھے کہ ایک بار ایک گاہک نے ان سے ایک ایسی پراپرٹی صاف کرنے کے لیے کہا جو دس سال سے خالی پڑی تھی۔
چہرے پر ایک معمولی نقلی ماسک کے ساتھ انھوں نے اپنے اس صفائی کے کیریئر کا آغاز کیا جو انھیں یہاں تک لے آيا۔
بین بتاتے ہیں کہ جیسے ہی انھوں نے دروازہ کھولا اتنی شدید بدبو اٹھی کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک شخص نے ماسک کے اندر ہی قے کر دی۔
بین ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ 'جب ہم نے اس کا ماسک اتارا تو ساری قے فرش پر گر گئی، اب ہمیں اس کی قے بھی صاف کرنی تھی اور باقی مکان بھی۔'
بین نے گاہک کو دو ہزار پاؤنڈ کا بل بھیجا اور کسی نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا۔ تب انہیں اندازہ ہوا کہ یہ ایک منافع بخش کام ہے۔
'ہم نے سوچا اگر اتنی رقم اس کام سے مل سکتی ہے تو سب سے خوفناک چیز کیا ہوگی جو ہم صاف نہ کر سکیں؟ آخرکار ہم نے طے کیا کہ ہم کچھ بھی صاف کریں گے۔'
بین بتاتے ہیں کہ وہ یہ کام کرتے ہیں اپنے ضمیر اور جذبات کو دباتے ہیںان کا پہلا بڑا کام ایک ایسے شخص کا گھر تھا جو دو ماہ قبل مر گیا تھا اور بر وقت کسی کو ان کی موت کا پتا نہیں چلا تھا۔
ان کی لاش قالین، لکڑی کے فرش اور کنکریٹ پر پڑی پڑی گل چکی تھی۔
’جیسے ہی ہم نے دروازہ کھولا، نیلی مکھیاں جھنڈ کی صورت میں اڑنے لگیں۔ ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ وہ کوئی جراثیم لے کر جا رہی ہیں یا نہیں اور ہمیں آٹھ ہفتے پرانے جسمانی مادّوں کو کنکریٹ سے صاف کرنا تھا۔‘
ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
’مجھے یار ہے کہ ہم اپنی ناک کے نیچے وِکس لگا رہے تھے۔ اتنے میں ایک لڑکا کھانسا اور اس کے ماسک میں سے سنگترے کے چھلکے نکل کر کرے جو کہ اس نے بدبو روکنے کے لیے ماسک میں رکھے تھے۔‘
بین نے بتایا کہ کس طرح ان کے ایک ساتھی نے وہاں کی بدبوکے ساتھ ہی قے کر دیا تھابین نے سنہ 2000 میں پہلی مرتبہ بائیو ہیزرڈ مواد کی صفائی کی تربیت حاصل کی جو دراصل ایک میز سے ٹماٹر ساس صاف کرنے پر مشتمل تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ مضحکہ خیز تھا کیونکہ اس (تربیت) کا ان کے اصل کام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘
اب پچیس سال بعد ان کی کمپنی نے آج تک کوئی کام نہیں ٹھکرایا، چاہے بیس ٹن وزنی وھیل مچھلی کی لاش ہو، خون سے لت پت کمرہ یا ذخیرہ اندوزی کے باعث دم گھٹنے کا واقعہ ہو۔ بین اپنے کام کے دوران یہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں۔
بین اور ان کی ٹیم نے 20 ٹن وزنی وھیل کو صاف کیالوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ ان سب کاموں کے دوران کیسے بو آتی ہے؟
بین کے مطابق بدبو جسم کی چربی کی مقدار پر منحصر ہوتی ہے چاہے لاش کتنے ہی عرصے سے کیونہ نہ پڑی ہو۔
’ایک معمر خاتون جو تقریباً پانچ سٹون (یا 30 کلو) وزن رکھتی ہوں اور اگر آپ ان کے گھر میں داخل ہوں تو آپ کو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔‘
’لیکن بیس سٹون (127 کلو گرام) کے کسی شخص کی لاش ہو تو دروازے سے ہی بو آنے لگتی ہے۔‘
اپنے ہاتھ سے کام کرنے والے کسانوں کے گھر میں پرورش پانے والے بین کے لیے گوبر اٹھانا یا جانوروں کی پیدائش میں مدد دینا عام بات تھی۔
16 سال کی عمر میں سکول چھوڑ کر انھوں نے کھڑکیاں صاف کرنے کا کام شروع کیا کیونکہ انھیں اعلی تعلیم میں دلچسپی نہیں تھی اور وہ مڈ ویلز ہی میں رہنا چاہتے تھے۔
بین کا کہنا ہے کہ گذشتہ 25 سالوں میں صفائی کا معیار بہت بدل گیا ہےجب قسمت نے انھیں اس غیر معمولی کام کی طرف موڑا تو وہ بتاتے ہیں کہ 'میں نے خوفناک چیزیں دیکھیں، مگر مجھے اس میں روپے آتے نظر آ رہے تھے۔'
جو کام ایک مہینے میں دو یا تین بار ہوتا تھا، اب وہ ہفتے میں 50 سے 100 بار ہوتا ہے کیونکہ ان کی کمپنی کو پولیس اکثر جرائم کے مقامات صاف کرنے کے لیے بلاتی ہے۔
عام صفائی کے لیے وہ مہنگے کیمیکل کے بجائے سادہ طریقے پر بھروسہ کرتے ہیں، جیسے کپڑے دھونے والا پاؤڈر یا نیم گرم پانی۔
وہ بتاتے ہیں کہ 'اسے داغ پر لگائیں، پھر ایک شیشے کے گلاس کو ہتھیلی میں تھام کر گول دائرے میں رگڑیں۔ اس حرکت سے داغ گلاس کے اندر جمع ہو جاتا ہے، جسے بعد میں صاف کیا جا سکتا ہے۔'
بین کے لیے کوئی کام اتنا خراب نہیں ہے کہ اسے منع کر دیا جائےبین نے تقریباً ساڑھے تین ہزار افراد کو تربیت دی ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ کام سب کے بس کا نہیں کیونکہ کچھ مناظر ذہن سے نہیں نکلتے ۔
ایک معاملے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی پر حملہ کیا جو تین دن تک گھر میں پڑی رہی، پھر پڑوسی نے اسے زندہ مگر شدید زخمی حالت میں پایا لیکن پھر وہ ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گئی۔
بین بتاتے ہیں کہ ’میں نے اپنی پوری زندگی میں اتنی ہولناک چیز نہیں دیکھی۔ ہر جگہ خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔‘
’یہ منظر کئی لحاظ سے المناک تھا۔ مجھے اس عورت پر بے حد ترس آیا۔ وہ دونوں پڑھے لکھے، پیشہ ور لوگ تھے۔ آج تک سمجھ نہیں آیا کہ کسی نے ایسا کیوں کیا۔ میں اپنے ذہن کو اس تاریک سمت میں جانے نہیں دیتا۔‘
بین کو بعض اوقات ایسے دل دہلا دینے والے مناظر کا سامنا بھی کرنا پڑا جنھیں بھلا پانا آسان نہیں۔ انھیں ایک بار ایسے گھر میں صفائی کے لیے بلایا گیا جہاں پالتو کتے نے ایک بچے کو مار دیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم ایک کمرے میں صفائی کر رہے تھے تو ساتھ والے کمرے سے رونے اور سسکیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔‘
’ایسے مواقع پر مجھے خود کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ میں ایک پیشہ ور شخص ہوں، یہ میرا کام ہے، مجھے اسے مکمل کرنا ہے اور پھر وہاں سے نکل جانا ہے۔۔۔ میں اپنے جذبات کو دبا دیتا ہوں، انھیں نظر انداز کر دیتا ہوں۔‘
وہ اپنے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے اکثر ساحل سمندر پر چہل قدمی کرتے ہیں، گالف کھیلتے ہیں یا اپنی پہاڑی گایوں کو سہلاتے ہیں۔
بین اپنی بیوی لنڈسے اور اپنے اہل خانہ کو اس بات کا سہرا دیتے ہیں کہ انھوں نے ان کی زندگی کو گلزار بنا رکھا ہےاسی زمانے میں جب بین نے اپنی خودنوشت ’دی لائف آف اے کرائم سین کلینر‘ لکھنی شروع کی لکھی اس کے بعد ہی انھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرنا شروع کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اسے لکھتے وقت ’یوں لگا جیسے ساری دبی ہوئی کیفیات ایک دم باہر آ گئیں۔ میں اسے علاج نہیں کہوں گا کیونکہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے بہتر محسوس ہوا، لیکن میں نے سب کچھ باہر نکال دیا۔‘
’میں نے ہر واقعے کے لیے ایک عنوان سوچ رکھا تھا اور جب لکھنا شروع کیا تو ہر کیس پر آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے۔‘
بین اپنے خاندان سے ملنے والی امداد کو سراہتے ہیں کہ ان کے اہل خانہ نے اس جذباتی دباؤ کے باوجود ہمیشہ اس کا ساتھ دیا۔
’مجھے معلوم تھا کہ کام پر کچھ بھی ہو جائے، میں جب گھر آتا ہوں تو اپنے پیاروں کے درمیان ہوتا ہوں۔ یہ ایک ایسی جگہ جہاں میں محفوظ اور پرسکون ہوتا ہوں۔‘