سعدالرحمان پر الزام ہے کہ وہ ان چند پاکستانی یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انفلوئینسرز میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور مالی فائدے حاصل کرنے کی غرض سے عام پاکستانی شہریوں کو جوئے کی ایپس میں سرمایہ کاری کرنے پر اُکسایا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے، نے جوئے کی ایپس کی مبینہ تشہیر کے معاملے میں گرفتار ہونے والے یوٹیوبر سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کے اہلخانہ سے ملزم اور اُن کی اہلیہ کو ریلیف دینے کے عوض 90 لاکھ روپے رشوت لینے، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دیگر الزامات کے تحت نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن اتھارٹی (این سی سی آئی اے) کے چھ افسران سمیت نو افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
جن ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اُن میں این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری، ڈپٹی ڈائریکٹر زوار احمد، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز شعیب ریاض اور مجتبیٰ ظفر جبکہ این سی سی آئی اے ہیڈکوارٹر میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشن محمد عثمان اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایاز خان شامل ہیں۔
اِس کے علاوہ دو سب انسپکٹرز علی رضا اور یاسر رمضان اور ایک شہری عثمان عزیز جنھیں شعیب ریاض کا مبینہ فرنٹ مین قرار دیا گیا ہے، بھی اس مقدمے میں نامزد ہیں۔
خیال رہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان وہی افسر ہیں جو رواں ماہ کے اوائل میں اسلام آباد سے لاپتہ ہو گئے تھے۔ محمد عثمان کی گمشدگی کے بعد ان کی اہلیہ نے پولیس سے رجوع کیا تھا اور اس وقت یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ عدالت نے گذشتہ جمعہ کو محمد عثمان کو تلاش کرنے کے لیے پولیس کو مزید ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔
اس معاملے کی تفتیش کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم کے ایک رُکن کے مطابق مقدمے کے اندراج کے بعد چھ نامزد ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن میں سرفراز چوہدری، زوار احمد، شعیب ریاض، مجتبیٰ ظفر، علی رضا اور یاسر رمضان شامل ہیں۔
ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ مقدمے میں گرفتار ملزمان کو منگل (آج) کو لاہور کی مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور تفتیش کے لیے اُن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔ خیال رہے کہ ان چھ افراد کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے ان کے وکلا کی جانب سے ایک درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ این سی سی آئی اے کےافسران کے خلاف یہ مقدمہ سعد الرحمان کی اہلیہ عروب جتوئی کی درخواست پر ہونے والی تحقیقات کے بعد درج کیا گیا جس میں الزام لگایا گیا کہ این سی سی آئی اے لاہور کے اسسٹننٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض نے مدعیہ کو مقدمے میں ریلیف دینے اور ملزم سعد الرحمان کا مزید جسمانی ریمانڈ نہ لینے اور انھیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھجوانے کے لیے ڈکی بھائی کے اہلخانہ سے 90 لاکھ روپے کی رقم بطور رشوت وصول کی۔
مقدمے کی ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دوران تفتیش یہ بات ثابت ہوئی کہ ملزم شعیب ریاض نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ڈکی بھائی کی فیملی سے اپنے مبینہ فرانٹ مین عثمان، سلمان عزیز اور ڈکی بھائی کے وکیل کے ساتھ ساز باز کر کے اگست میں پہلے 60 لاکھ روپے اور پھر اس کے بعد 10، 10 لاکھ روپے کے تین چیک وصول کیے۔
اس مقدمے میں اس مبینہ رشوت کی رقم کی تقسیم کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ شعیب ریاض نے 50 لاکھ روپے، ڈپٹی ڈائریکٹر زوار احمد کے ایک دوست کے پاس رکھوائے جبکہ پانچ لاکھ روپے مبینہ فرنٹ مین عثمان عزیز اور پانچ لاکھ روپے ڈکی بھائی کے وکیل چوہدری عثمان نے رکھے۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزم شعیب ریاض نے مزید 20 لاکھ روپے خود رکھے جبکہ بقیہ دس لاکھ روپے میں سے پانچ لاکھ اپنے فرنٹ مین کو جبکہ پانچ لاکھ روپے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کو دیے۔
ایف آئی آر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض پرڈکی بھائی کے اکاؤنٹ سے تین لاکھ 26 ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم بائی نینس کے ذریعے اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا الزام بھی لگایا گیا یے۔
اس مقدمے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ملزمان ایک نیٹ ورک کے طور پر کام کرتے ہیں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مختلف کال سینٹرز اور آن لائن فراڈ کے مقدمے میں ملوث افراد سے رقم وصول کر کے نہ صرف آپس میں تقسیم کرتے تھے بلکہ اس کا کچھ حصہ اپنے افسران کو بھی بھیجتے تھے۔
اس مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ این سی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات افسران کو یہ رقمڈپٹی ڈائریکٹر آپریشن ہیڈ کوارٹر محمد عثمان اور ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اےمحمد ایاز خان کے ذریعے بھجوائی جاتی تھی۔
سعد الرحمان (ڈکی بھائی) کون ہیں اور ان پر کیا الزامات ہیں؟
سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کا شمار پاکستان کے ان یو ٹیوبرز میں ہوتا ہے جن کے فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنی مزاحیہ ویڈیوز اور فیملی وی لاگز کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ان کی جانب سے پوسٹ کیا جانے والا مواد ماضی میں بھی متنازع رہا ہے۔ رواں برس کے آغاز میں بھی انھیں اس وقت قانونی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کی موٹروے پر لاپرواہی سے ڈرائیونگ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی تاہم لاہور ہائیکورٹ نے انھیں اس مقدمے میں حفاظتی ضمانت دے دی تھی۔
تاہم اس مرتبہ سعد الرحمان کو جس معاملے کا سامنا ہے وہ اپنے پلیٹ فارمز پر غیرقانونی جوئے کی ایپس کی تشہیر کا ہے۔
سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی، ان کی اہلیہ عروب جتوئی اور دیگر ملزمان کے خلاف نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے چند ماہ قبل عام پاکستانی شہریوں کو آن لائن جوا کھلانے والی ایپلیکشنز میں سرمایہ کاری کرنے پر اُکسانے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
سعد الرحمان پر الزام ہے کہ وہ ان چند پاکستانی یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انفلوئینسرز میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور مالی فائدے حاصل کرنے کی غرض سے عام پاکستانی شہریوں کو جوئے کی ایپس میں سرمایہ کاری کرنے پر اُکسایا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بی بی سی نے سعد الرحمان کے وکیل سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم اُن کی جانب سے الزامات پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا تھا۔
اس معاملے میں سعد کو 20 اگست کو این سی سی آئی اے نے لاہور کے ہوائی اڈے سے اس وقت تحویل میں لیا تھا جب وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ بیرون ملک روانہ ہونے کے لیے امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے تھے۔
گرفتاری کے بعد عدالت کی جانب سے متعدد بار جسمانی ریمانڈ دیے جانے کے بعد اس وقت وہ عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں کیونکہ ان کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔
اس معاملے میں 20 اکتوبر کو این سی سی آئی اے نے مقدمے کا چالان لاہور کی مقامی عدالت میں جمع کروایا تھا جس میں ڈکی بھائی، ان کی اہلیہ عروب جتوئی اور ان کے مینیجر سبحان کو مرکزی ملزمان نامزد کیا گیا ہے۔
چالان کے مطابق سعد الرحمان نے تفتیش کے دوران آن لائن جوئے کو فروغ دینے کے معاملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور انکشاف کیا کہ انھیں اس تشہیر سے کروڑوں روپے کی آمدن ہوئی جبکہ ان کے دو بینک اکاؤنٹس سے 21 کروڑ روپے بھی برآمد ہوئے۔
عدالت میں جمع کروائے گئے چالان میں مزید کہا گیا تھا کہ سعد کی اہلیہ عروب جتوئی بھی جوئے کی تشہیر کی سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ اس مقدمے کی اگلی سماعت تین نومبر 2025 کو ہونی ہے اور عدالت نے اس موقع پر عروب جتوئی کو طلب کیا ہے جو فی الوقت چھ نومبر تک عبوری ضمانت پر ہیں۔
این سی سی آئی اے کیا ہے؟
نیشنل سائبر کرائمز انویسٹیگشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) پاکستان میں سائبر کرائمز کو روکنے کا ذمہ دار ادارہ ہے۔
اس سے قبل سائبر کرائمز سے نمٹنے کا کام وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائمز ونگ کے پاس تھا، مگر پھر مئی 2024 میں حکومت نے این سی سی آئی اے کی بنیاد رکھی اور ایف آئی اے کے پاس موجود تمام سائبر کرائمز کے مقدمات اس نئی ایجنسی کے پاس منتقل ہو گئے۔
این سی سی آئی اے میں متعدد افسران اور اہلکار کا تعلق ماضی میں ایف آئی اے سے ہی رہا ہے۔