"میں نے شاہد اور بابرا شریف کی ایک فلم دیکھی تھی، اور تبھی دل میں ٹھان لی تھی کہ مجھے بھی ایسا ہی اداکار بننا ہے۔ اداکاری کے شوق میں کم عمری میں ہی گھر چھوڑا، شہر بدلا اور تین لاکھ روپے لے کر لاہور آگیا۔ والد کو علم نہیں تھا، بس والدہ کو بتایا تھا۔ ہم پٹھان لوگ پیسے بکسوں میں رکھتے ہیں، میں نے وہی بکس اٹھایا اور نکل پڑا۔ لاہور پہنچ کر فلم بنانے کی ٹھانی، مگر قسمت کچھ اور چاہتی تھی۔ پیسے ختم ہو گئے، لوگ بدل گئے، پروڈیوسر میری قمیض کی جیب سے آخری رقم نکال کر چلا گیا۔ دو دن بھوکا رہا، اور آخر کار بھوک مٹانے کے لیے چھت پر پڑی سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھائی۔‘‘
پاکستان ٹیلی ویژن اور پشتو فلموں کے معروف اداکار جہانگیر خان جانی کی یہ داستان ایک فلمی اسکرپٹ سے کم نہیں۔ چمکتی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے وہ جس کٹھن سفر سے گزرے، اس کی ہر کہانی درد اور حوصلے سے بھری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بچپن میں فلموں نے ان پر ایسا اثر ڈالا کہ خواب دیکھنا عادت بن گئی۔ لاہور پہنچے تو جیب میں رقم تھی مگر رہنمائی کا کوئی سایہ نہیں۔ ایک واقف کار کو پیسے دے کر فلم "اولاد" شروع کروائی تاکہ خود ہیرو بن سکیں، مگر حالات نے وہ کردار بھی ان سے چھین لیا۔ فلم ادھوری رہ گئی، امیدیں ماند پڑ گئیں اور لاہور کی سڑکوں پر ایک نیا امتحان ان کا منتظر تھا۔
جب جانی کے پاس کچھ نہ بچا تو وہ ایک معمولی کمرے میں قید تنہائی جینے لگے۔ بھوک نے ہمت توڑی تو چھت پر پڑے نان کے خشک ٹکڑے ان کی زندگی کا واحد سہارا بن گئے۔ ’’میں نے وہ روٹی پانی میں بھگو کر کھائی، اور تب سمجھا کہ بھوک انسان کو انا سے بڑا سبق سکھاتی ہے‘‘ ان کے لہجے میں درد کے ساتھ جیت کی طاقت چھپی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہی دنوں میں رکشے دھوئے، چھوٹے موٹے کام کیے، لیکن اداکاری کے خواب کو مرنے نہیں دیا۔ آج وہی لڑکا جو دو دن بھوکا رہا، وہی جہانگیر خان جانی پاکستان کی انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہے, ایک زندہ مثال کہ خواب دیکھنے والے اگر ہار نہ مانیں تو قسمت بھی جھک جاتی ہے۔