پاکستان میں عدالت نے توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے الزام میں سزائے موت اور قید کی سزا پانے والی ایک خاتون کو باعزت بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

پاکستان میں عدالت نے توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے الزام میں سزائے موت اور قید کی سزا پانے والی ایک خاتون کو باعزت بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
انیقہ عتیق نامی خاتون کو جنوری 2022 میں راولپنڈی میں ایف آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے توہین رسالت پر مبنی پیغام بھیجنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف اپیل پر لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے بدھ کو فیصلہ سنایا۔
جسٹس صداقت علی خان اور جسٹس چوہدری وحید پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ استغاثہ ملزمہ کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
خیال رہے کہ انیقہ عتیق پہلی مسلماناور مجموعی طور پر تیسری خاتون تھیں جنھیں توہین مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی جبکہ دیگر دو خواتین میں آسیہ بی بی اور شگفتہ بی بی شامل ہیں تاہم یہ دونوں خواتین مسیحی برادری سے تعلق رکھتی تھیں۔
اپیل کی سماعت کے دوران انیقہ عتیق کے وکیل سیف الملوک ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جو مقدمہ درج کیا گیا وہ حقائق پر مبنی نہیں۔
سیف الملوک نے اپنی اپیل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کی موکلہ کے خلاف اس وقت کے سائبر کرائم ونگ نے فرانزک شواہد ہی حاصل نہیں کیے تو کس بنیاد پر انھیں موت کی سزا سنائی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ان کی موکلہ کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ اگرچہ اپریل 2020 میں درج کیا گیا لیکن مقدمے کا اندراج وقوعہ سے دس روز کے بعد ہوا اور ملزمہ کا موبائل بھی حکام نے قبضے میں ہی نہیں لیا۔
اس پر جب دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس صداقت علی خان نے استغاثہ سے استفسار کیا کہ انیقہ عتیق کے موبائل کا فرانزک تجزیہ کروایا گیا تھا تو عدالت کو بتایا گیا کہ ’چونکہ مذکورہ موبائل مجرمہ کا نہیں بلکہ کسی اور خاتون کا تھا اس لیے اسے فرانزک کے لیے نہیں بھیجا گیا۔‘
اس پر بینچ کے سربراہ نے سوال کیا کہ جس خاتون کے نام پر موبائل سم یا وہ موبائل فون تھا کیا اسے مقدمے میں شریک ملزم گردانا گیا تو اس پر بھی استغاثہ کی جانب سے نفی میں جواب دیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ ’جب مجرمہ کے خلاف کوئی چیز ریکارڈ پر بھی نہیں تو پھر کیسے اسے موت کی سزا سنائی گئی۔‘
بینچ کے سربراہ نے انیقہ عتیق کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کے مدعی حسنات فاروق کا نام لیے بغیر کہا کہ کیسے ایک شخص ایک ایسی خاتون کے ساتھ ڈیڑھ سال تک رابطے میں رہا جس کا اس کے ساتھ مذہب کے اعتبار سےکوئی تعلق بھی نہیں۔
بعدازاں عدالت نے سزائے موت کے خلاف انیقہ عتیق کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے انھیں بری کرنے کا حکم دیا۔
خیال رہے کہ انیقہ عتیق کے خلاف یہ مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ راولپنڈی میں سنہ 2020 میں حسنات فاروق نامی شخص کی مدعیت میں درج کروایا گیا تھا۔
مقدمے میں توہین رسالت، توہین مذہب اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی متعلقہ دفعات درج تھیں۔ جب اس مقدمے میں مجرمہ پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی تو انھوں نے اس جرم کے ارتکاب سے انکار کیا تھا۔

توہین مذہب کے قوانین کیا ہیں اور یہ کب سے رائج ہیں؟
توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے میں سنہ 1860 میں بنائے گئے تھے اور پھر سنہ 1927 میں ان میں اضافہ کیا گیا تھا۔
سنہ 1980 اور 1986 کے درمیان جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے دور میں متعدد شقیں ڈالی گئیں۔ جنرل ضیا ان قوانین کو اسلام سے مزید مطابقت دینا چاہتے تھے اور احمدیہ برادری (جسے 1973 میں غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا) کو ملک کی مسلمان اکثریت سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے۔
برطانوی راج نے جو قوانین بنائے ان میں کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا، کسی قبرستان میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین کرنا، یا سوچ سمجھ کر کسی کی عبادت گاہ یا عبادت کی کسی چیز کی توہین کرنا جرم قرار پائے تھے۔ ان قوانین میں زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید اور جرمانہ تھی۔
1980 کی دہائی میں توہینِ مذہب کے قوانین میں اضافہ کیا گیا۔ 1980 میں اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو بھی جرم قرار دے دیا گیا تھا جس میں تین سال قید کی سزا مقرر کی گئی۔
1982 میں ایک اور شق شامل کی گئی جس میں جان بوجھ کر قرآن کی بےحرمتی کی سزا پھانسی رکھ دی گئی۔ 1986 میں پیغمبرِ اسلام کی توہین کی سزا بھی موت یا عمر قید رکھ دی گئی۔