جیل کی دیواروں میں محبت: ’میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ جیل میں قید مرد سے شادی کی اور بچے کو جنم دیا‘

اندریا کاسامینتو کا تعلق ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس کے ایک متوسط طبقے سے ہے۔ وہ 40 سال کی تھیں جب ایک دن اچانک ان کی پُرسکون اور بے فکری والی زندگی بدل گئی۔
اندریا کی ملاقات الیخو سے اُس وقت ہوئی جب وہ جیل میں تھے
Andrea Casamento
اندریا کی ملاقات الیخو سے اُس وقت ہوئی جب وہ جیل میں تھے

اندریا کاسامینتو کا تعلق ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس کے ایک متوسط طبقے سے ہے۔ وہ 40 سال کی تھیں جب ایک دن اچانک ان کی پُرسکون اور بے فکری والی زندگی بدل گئی۔

مارچ 2004 میں جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شہر کے نواح میں ویک اینڈ گزار رہی تھیں، انھیں ایک فون کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ان کے تین بچوں میں سے بڑا بیٹا جو صرف 18 سال کا تھا، ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں اُس وقت سوئمنگ پول میں تھی، میں نہانے کے لباس میں ہی باہر بھاگی اور سیدھی پولیس سٹیشن پہنچ گئی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور خوان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔‘

اندریا مسکراتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میرے ذہن میں یہ خیال ہی نہیں آیا کہ وہ جیل جا سکتا ہے۔‘

ان کے پیچھے دیوار پر فلم ’دی وومن ان لائن‘ کا پوسٹر لگا ہے جو ان ہی کی زندگی پر مبنی ہے اور حال ہی میں ارجنٹینا اور یوروگوئے کے سینما گھروں میں ریلیز ہوئی ہے اور 31 اکتوبر سے نیٹ فلیکس پر بھی دستیاب ہو گی۔

’دی وومن اِن لائن‘ اندریا کی زندگی کی کہانی بیان کرتی ہے
Juan Pablo Pichetto
’دی وومن اِن لائن‘ اندریا کی زندگی کی کہانی بیان کرتی ہے

خوان کو سنیچر کی رات اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ایک بار میں شراب پیتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر الزام تھا کہ انھوں نے چاقو کی نوک پر چار ایمپاناداز جو لاطینی امریکا کی مشہور پیسٹریز ہیں، چُرا لی ہیں۔

چند دن پہلے ہی شہر میں ایک نوعمر لڑکے کے اغوا اور قتل کے بعد ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا۔ اندریا بھی وہاں موجود تھیں۔ ہاتھ میں موم بتی لیے وہ مجرموں کے لیے سخت اور طویل سزا کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

وہ یاد کرتی ہیں ’مجھے ڈر تھا کہ ایسا کچھ میرے بچوں کے ساتھ نہ ہو جائے۔‘

پھر مسکرا کر کہتی ہیں کہ کبھی کبھی خدا سے دعا کرتے ہوئے بھی بہت سوچ کر مانگنا چاہیے کہ آپ کس چیز کی دعا مانگ رہے ہیں۔

خوان کی گرفتاری کے بعد پیر کی صبح اندریا عدالت پہنچیں تاکہ جج کو سمجھا سکیں کہ یہ سب غلط فہمی ہے۔

مگر جج نے ان کی بات سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’میں اپنی عدالت کے باہر کوئی مظاہرے نہیں چاہتا اس لیے تمہارا بیٹا اس وقت تک جیل میں رہے گا جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو جاتا۔‘

یوں ایک ایسا سفر شروع ہوا جو آٹھ ماہ تک جاری رہا۔

اندریا کہتی ہیں ’میری زندگی ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گئی۔ چند دن بعد بغیر کسی مقدمے کے خوان کو زیادہ سکیورٹی والی ایزئیسا جیل بھیج دیا گیا جو ہمارے گھر سے ایک گھنٹے سے زیادہ کی مسافت پر تھی۔‘

کئی سال بعد اندریا نے اُن عورتوں کے ساتھ ایک کمیونٹی بنائی جو اُن ہی کی طرح اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے قطار میں کھڑی ہوتی تھیں
ACiFaD
کئی سال بعد اندریا نے اُن عورتوں کے ساتھ ایک کمیونٹی بنائی جو اُن ہی کی طرح اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے قطار میں کھڑی ہوتی تھیں

سسٹم کیسے کام کرتا ہے، اس بارے میں کچھ بھی نہ جانتے ہوئے اندریا جیل میں اس دن پہنچیں جب ان کے بیٹے کو منتقل کیا جا رہا تھا۔ اسے علیحدہ رکھا گیا تھا اسی لیے وہ اسے ملنے اندر نہیں جا سکیں۔

یہ ان کا ’قطار‘ کا پہلا تجربہ تھا۔۔۔ یہ وہی قطار ہے جس پر فلم کا عنوان رکھا گیا۔ تقریباً سبھی عورتیں، کچھ اپنے بچوں کے ساتھ بیگ اُٹھائے جیل کے دروازے پر انتظار کر رہی تھیں۔

اندریا کہتی ہیں ’وہ سب وہاں موجود تھیں مگر میں نے انھیں دیکھا ہی نہیں۔ مجھے لگا میرا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ جیل کیسی ہوتی ہے۔ یہ میری دنیا کا حصہ ہی نہیں تھا۔ مجھے ابھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ میں بھی اسی قطار میں کھڑی ایک اور عورت بن چکی ہوں۔‘

اگلے آٹھ ماہ تک اندریا ہفتے میں چار بار جیل کے چکر لگاتی رہیں۔

ان میں سے دو دن ملاقات کے لیے مخصوص تھے اور باقی دو دن وہ صرف اس لیے جیل کے دروازے پر انتظار کرتی تھیں کہ ’اگر وہ اُسے مردہ حالت میں باہر لائیں تو میں وہاں موجود ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں ’اگر میرا بیٹا وہاں سے مردہ نکلتا تو سب سے پہلے میں ہی اُسے اپنی بانہوں میں لیتی کیونکہ میں ہی دنیا میں اُسے لائی تھی۔‘

’ان آٹھ مہینوں کے ہر دن مجھے خوف رہتا کہ وہ اُسے مار نہ دیں اور پھر وہ مجھے کبھی فون نہ کرے۔‘

’میں نے کسی قیدی کو نہیں، الیخو کو چنا تھا‘

جس دن خوان نے فون نہیں کیا، اندریا فوراً جیل پہنچ گئیں مگر انھیں اندر جانے کی اجازت نہیں ملی۔

بعد میں انھیں ایک شخص کا فون آیا جس نے اپنا نام الیخو بتایا اور کہا کہ وہ پرسکون رہیں، خوان زندہ ہے لیکن وہاں لڑائی ہوئی تھی اور اسے تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

اس شخص نے وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ فون کرے گا اور اُس نے ایسا کیا۔

اس دن کے بعد خوان کے فون کے ساتھ ساتھ اندریا کو الیخو کے فون بھی آنے لگے۔

اندریا بتاتی ہیں کہ ’ہم نے بات کرنا شروع کیا اور پھر کبھی رکے نہیں۔ میں بالکل اکیلی رہ گئی تھی۔ کوئی مجھے سمجھ نہیں رہا تھا، نہ میرا خاندان، نہ میرے دوست، کوئی نہیں۔‘

الیخو ان کی زندگی میں بہار بن کر آیا، ’واحد شخص جو مجھے ہنساتا تھا اور اس جہنم جیسے وقت کو تھوڑا کم دردناک بنا دیتا تھا۔‘

الیخو پر متعدد ڈکیتیوں کا الزام ثابت ہو چکا تھا۔ جب ان کی ملاقات اندریا سے ہوئی ان کے جیل میں تقریباً 15 سال باقی تھے
Andrea Casamento
الیخو پر متعدد ڈکیتیوں کا الزام ثابت ہو چکا تھا۔ جب ان کی ملاقات اندریا سے ہوئی ان کے جیل میں تقریباً 15 سال باقی تھے

اندریا کہتی ہیں ’میں کچھ اور نہیں کر سکتی تھی سوائے اس کے کہ خوان کو جیل سے نکالوں۔ مجھے لگا رحم میں ہی کسی نے میرا بیٹا چھین لیا۔ اس کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت نے مجھے ہر رکاوٹ کو عبور کرنے پر مجبور کر دیا جو میرے راستے میں رکھی گئی اور الیخو جو خوان کی جیل کے اندر دیکھ بھال بھی کرتا تھا، وہ مجھے کہتا تھا کہ حوصلہ مت ہارو، لڑو، وہ مجھے بتاتا کہ یہاں جاؤ، وہاں جاؤ تاکہ یہ عمل جلد مکمل ہو جائے۔‘

اندریا اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنی ماں کے گھر منتقل ہو گئیں اور اپنے گھر کو بیچ کر وکیل کا خرچ اُٹھایا جس نے ثابت کیا کہ خوان کا اس ڈکیتی سے کوئی تعلق نہیں تھا جس کا الزام اس پر تھا۔

آٹھ مہینوں کے بعد، خوان آزاد ہو گیا مگر اندریا اگلے 15 سال تک ہر ہفتے جیل جاتی رہیں۔

اندریا کہتی ہیں ’میرے بیٹے کی قید نے مجھے ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ یہ ایسا تھا جیسے اچانک آنکھ کھل گئی ہو، جیسے کسی نے وہ پردہ ہٹا دیا ہو جو مجھے اپنی دنیا سے آگے دیکھنے سے روکتا تھا مگر الیخو کے ساتھ معاملہ مختلف تھا کیونکہ یہ کچھ ایسا نہیں تھا جو میرے ساتھ ہوا بلکہ میں نے خود چُنا۔‘

’میں نے کسی قیدی مرد کو نہیں چنا۔ میں نے الیخو کو چنا اور الیخو قید میں تھا۔‘

الیخو پر متعدد ڈکیتیوں کا الزام ثابت ہو چکا تھا۔ جب ان کی ملاقات اندریا سے ہوئی، جیل میں ان کے تقریباً 15 سال باقی تھے۔

وہ کہتی ہیں ’اس وقت مجھے پتہ تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے مگر مجھے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ میں اس سے مل چکی تھی اور اس کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔‘

’میرے لیے لوگوں کی باتیں معنی نہیں رکھتی تھیں۔ میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ جیل کا وقت جیا تھا مگر الیخو کے ساتھ نہیں۔ میں جیل جاتی، اس کے سامنے میز پر بیٹھتی، ہم بات کرتے اور ایسا لگتا جیسے ہم کسی کیفے میں ہوں۔‘

’بس اسے دیکھ لینا میرے لیے کافی تھا۔ بس اتنا ہی۔ میں اُس خوشی سے کیوں محروم ہوتی؟ اتنا سب کچھ گزرنے کے بعد میں اپنے دل کے احساسات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی کیونکہ مجھے پتا تھا کہ زندگی کسی بھی لمحے بدل سکتی ہے۔ باقی لوگ جو چاہیں سوچیں۔‘

وہ ہنستے ہوئے یاد کرتی ہیں ’جیل میں داخل ہونے کے لیے بہت زیادہ کاغذی کارروائی کرنا پڑتی تھی۔ میں نے مذاق میں کہا کہ ہم شادی کر لیں تاکہ کچھ آسانی ہو جائے۔‘

مگر الیخو فوراً مان گئے۔ انھوں نے جج کو بلا کر جیل میں ہی شادی کا بندوبست کر دیا۔

اندریا کہتی ہیں کہ ’ہم نے شادی کی اور میں اکیلی واپس آ گئی۔ میں خوش تھی، بس یہی کافی تھا لیکن ملاقات کی قطار میں سے ایک عورت باہر میرا انتظار کر رہی تھی۔‘

اس نے کہا کہ ’شادی کے بعد بس ایسے ہی کیسے سو جاؤ گی؟ پھر اُس نے مجھے بیئر پینے اور جشن منانے کی دعوت دی۔‘

جب جوآقین پیدا ہوئے اس وقت ان کے والد جیل میں تھے
Andrea Casamento
جب جوآقین پیدا ہوئے اس وقت ان کے والد جیل میں تھے

الیخو نے اپنی بیٹی کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنا بھی شروع کر دیا اور یہ سب اندریا کی وجہ سے ممکن ہوا جنھوں نے اسے ملاقاتوں میں لے جانے کا انتظام کیا۔

الیخو ایک اور بچہ چاہتے تھے لیکن اندریا کو فکر تھی کہ ان کی ماں بننے کی عمر گزر چکی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’خوان والے معاملے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھے دوبارہ ماں بننا ہے لیکن یہ بھی بڑا چیلنج تھا کہ زندگی جیل کے درمیان کیسے شروع ہو سکتی ہے مگر پھر ہمارے بیٹے جوآقین جیسی خوبصورت زندگی پیدا ہوئی۔‘

جون 2005 میں جب پیدائش کے درد شروع ہوئے، اندریا جیل میں تھیں۔

وہ کہتی ہیں ’قطار میں موجود لڑکیوں نے میرا ساتھ دیا اور دائی کو مجبور کر دیا کہ وہ الیخو کو اس کے موبائل پر کال کرنے دیں تاکہ وہ جیل سے پیدائش سن سکے۔‘

’الیخو اور پورے وارڈ نے یہ سنا۔ اگلے دن انھیں ہسپتال آنے اور بچے سے ملاقات کرنے کی اجازت دی گئی۔‘

اندریا کہتی ہیں کہ ’یہ میرے لیے بڑا سوال تھا کہ باہر ہماری زندگی کیسی ہو گی‘
Andrea Casamento
اندریا کہتی ہیں کہ ’یہ میرے لیے بڑا سوال تھا کہ باہر ہماری زندگی کیسی ہو گی‘

چھ سال پہلے الیخو آخرکار رہا ہو گئے۔ اندریا کہتی ہیں ’یہ میرے لیے ایک بڑا سوال تھا کہ باہر ہماری زندگی کیسی ہو گی؟‘

’میں بہت ڈری ہوئی تھی کیونکہ جیل میں اس کی پوری زندگی تھی، مگر باہر؟ ہمیں سیکھنا پڑا اور اپنے اپنے طریقے تلاش کرنے پڑے۔ اسے بھی جیل سے باہر کی زندگی کے خوف پر قابو پانا تھا۔‘

’آج ہماری ایک خوبصورت فیملی ہے جیسا کہ ہر فیملی کے مسائل ہوتے ہیں ہمارے بھی ہیں۔ کبھی ہم بہتر طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں، کبھی نہیں بھی رہتے لیکن ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر ہم ایک دوسرے کے لیے موجود ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US