پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت کے لیے یہ تازہ ترین چیلنج اس وقت پیدا ہوا جب گذشتہ مہینے اس علاقے میں بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پی پی پی اور ن لیگ ان احتجاجی مظاہروں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا ذمہ دار وزیرِ اعظم انوار الحق کو سمجھتی ہیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں گذشتہ کئی ہفتوں سے سڑکوں پر جاری ہلچل ابھی کم ہی ہوئی تھی کہ اب یہی افراتفری پارلیمان میں بھی نظر آ رہی ہے۔
سنہ 2021 میں انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں اب تک دو وزیرِ اعظم تبدیل ہو چکے ہیں اور اب اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم انوار الحق کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی مکمل تیاری میں ہیں۔
سنہ 2021 میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) 26 نشستوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اور نو آزاد امیدواروں کی حمایت کے ساتھ انھوں نے حکومت بنائی۔
لیکن بعد میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی اسمبلی میں پی ٹی آئی فارورڈ بلاکس میں تقسیم ہو گئی۔ پی ٹی آئی کے پہلے وزیرِ اعظم عبدالقیوم نیازی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا جبکہ چوہدری تنویر الیاس ایک عدالتی حکم کے سبب اس منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
موجود وزیرِ اعظم انوار الحق کا تعلق پی ٹی آئی ہی کے فارورڈ بلاک سے ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت میں ہونے والی دھڑا بندی کے سبب اب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پارلیمان میں سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔
پی پی پی نے وزیرِ اعظم انوار الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد کشمیر اسمبلی میں پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کے اراکین بھی اس کی صفوں میں شامل ہو گئے ہیں، جن میں سابق وزیرِ اعظم چوہدری تنویر الیاس بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس سیاسی ہلچل کی وجوہات پر روشنی ڈالنے سے قبل اسمبلی میں پارٹی پوزیشنز پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اپنا وزیرِ اعظم لانے کے لیے کسی بھی جماعت کو کم از کم 27 اراکینِ اسمبلی کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اسمبلی میں پی پی پی کے پاس اس وقت 17، مسلم لیگ (ن) کے پاس 9، پی ٹی آئی کے پاس چار، پی ٹی آئی فاروڈ بلاک (بیرسٹر سلطان گروپ) کے پاس سات، پی ٹی آئی وزیراعظم انوار گروپ کے پاس آٹھ، مہاجرین گروپ کے پاس چار جبکہ مسلم کانفرنس، جے کے پی پی اور علمائے مشائخ کے پاس ایک، ایک نشست ہے۔
کشمیر میں سیاسی ہلچل کیوں پیدا ہوئی؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت کے لیے یہ تازہ ترین چیلنج اس وقت پیدا ہوا جب گذشتہ مہینے اس علاقے میں بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہرے ہوئے اور یہ احتجاج اس وقت ہی ختم ہوا جب حکومت کو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات کو مان لیا۔ ان احتجاجی مظاہروں کے دوران لوگوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی خبریں بھی آتی رہی تھیں۔
پی پی پی اور ن لیگ ان احتجاجی مظاہروں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا ذمہ دار وزیرِ اعظم انوار الحق کو سمجھتی ہے۔
پیر کی رات کو پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے کشمیر کے لیے بنائی گئی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کی پاکستان کے صدر آصف علی زرادی سے ملاقات ہوئی تھی۔
اس مشاورتی اجلاس کے بعد پی پی پی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا تھا کہ ’جو معاہدہ کر کے آئے ہیں اس پر عملدرآمد کیا جائے گا، جو جائز مطالبات تھے ہم نے تسلیم کیے۔‘
میٹیا سے گفتگو میں پی پی پی کے ہی رہنما اور کمیٹی کے رکن قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ’کشمیر کی موجودہ حکومت مسائل حل کرنے کے بجائے بحران کا باعث بن گئی، ان مسائل کے حل کے لیے وفاق کو جانا پڑا۔ اب اتفاقِ رائے ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد لایا جائے گا۔ مسلم لیگ ن کا فیصلہ ہے کہ وہ حزبِ اختلاف میں بیٹھے گی۔‘
انھوں نے کہا ’ہم نے کشمیر میں سیاسی استحکام لانا ہے۔ آزاد اور منصفانہ انتخاب کروانا ہے۔ عوام کے صحیح نمائندوں کو حکومت بنانے دینی ہے۔ ہم اتفاق رائے سے چلے ہیں۔‘
اس موقع پر کمیٹی میں شامل مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر سکی۔ دونوں بڑی جماعتوں کو ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنانی پڑی اور اس معاملے کو حل کیا گیا۔ ہماری کشمیری عوام کے ساتھ کمٹمنٹ ہے کہ انھیں گڈ گورننس دینی ہے، اس کے لیے موجودہ سیٹ اپ کو ِختم کرنا ضروری ہے۔ اب آئندہ حکومت لوگوں کے مسائل کو حل کرے گی۔‘
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں اور خود سینیئر سیاستدانوں کا خیال ہے کہ موجود صورتحال میں کسی بھی جماعت کے لیے آئندہ چند ماہ نہ صرف عوامی مطالبات پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے مشکل ہوں گے بلکہ انتخابات کے لیے ووٹر لسٹوں کی تیاری اور شفاف انتخابات کا انعقاد بھی مشکل کام ہو گا۔
سیاسی جوڑ توڑ
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی تحریک کے بعد پی پی پی نے وزیرِ اعظم انوار الحق حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ جماعت کا خیال تھا کہ اس کے سبب سیاسی جماعتوں اور عوام میں دوری پیدا ہوئی تھی۔
بعد ازاں مسلم لیگ (ن) نے بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان میں ’مہاجرینِ کشمیر‘ کے اراکین اسمبلی کے گروپ کے رکن اکبر ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’مہاجرین اراکین نے فیصلہ کیا کہ وزیراعظم انوار الحق نے ہمارے خلاف سازشیں کیں، جس سے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ اس لیے ہم حکومت سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس مطلوبہ نمبر موجود ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو ہم انھیں حمایت فراہم کریں گے۔‘
یاد رہے کہ حالیہ احتجاج کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد پاکستان میں ’مہاجرینِ کشمیر‘ کے چار وزرا نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں وزیراعظم انوار الحق کی حکومت پارلیمانی اکثریت کھو بیٹھی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات سردار جاوید ایوب کے مطابق احتجاجی تحریک کے بعد متعدد سیاسی جماعتوں اور فاروڈ بلاک کے اراکین نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی۔
ان کے بقول ’مہاجرین اراکین اسمبلی سمیت فاروڈ بلاک نے پیپلز پارٹی کو نئی حکومت کی تشکیل کی صورت میں حمایت کی یقین دہانی کرائی۔‘
سردار جاوید ایوب نے مزید بتایا کہ وزیراعظم انوار الحق کو مستعفی ہونے کا موقع دیا گیا، بصورت دیگر منگل کو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی جائے گی۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کی جانب سے نئے قائد ایوان کے نام کا اعلان پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کریں گے تاہم ممکنہ امیدواروں میں اس وقت پاکستان زیر انتظام کشمیر کے سپیکر اسمبلی چوہدری لطیف اکبر اور کشمیر میں پارٹی کے صدر چوہدری یاسین کے علاوہ سردار یعقوب خان کے نام زیر غور ہیں۔
چوہدری لطیف اکبر کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہمیں اس وقت 28 ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ انوار الحق نے کہا تھا کہ 28 بندے پورے کریں تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ انھیں خود استعفی دے دینا چاہیے۔‘
انھوں نے عوامی احتجاج کے نتیجے میں کیے گئے معاہدوں کے حوالے سے کہا کہ وہ معاہدے وفاق نے کیے ہیں ان پر وہی عملدرآمد کریں گے۔
انھوں نے تسلیم کیا ’مطالبات ناجائز نہیں تھے۔ حکومت کی ذمہ داری تھی کے پہلے ہی انھیں تسلیم کر لیا جاتا۔ حکومت نے کئی چھوٹے مطالبات کو تسلیم کرنے میں کوتاہی کی جو احتجاج اور مطالبات میں اضافے کی وجہ بنی۔‘
چوہدری لطیف اکبر کا الزام تھا کہ ’یہ حکومت سیاسی تھی ہی نہیں۔ اس لیے یہ ناکام ہوئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حکومت عوام تک جانے میں ناکام ہوئی، انھوں نے اپنا کام نہیں کیا اس لیے عوامی ایکشن کمیٹی کی گنجائش پیدا ہوئی۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ آئندہ چھ ماہ میں لوگوں کو اپنی کارکردگی دکھائیں گے اور انتخابات بھی آزادانہ اور شفاف ہوں گے۔ ’ہم اس ذمہ داری کو احسن طریقے نبھانے کے لیے تیار ہیں۔‘
راجہ فاروق حیدر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اقرار کرتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں نے اپنا کام ترک کیا جس کی وجہ سے تاجروں نے ان کی جگہ لی اور سارے نظام کو مسترد کیا‘’حکومت سازی کا حصہ ہوں گے نہ کسی کو گرانے کا‘
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے کہا کہ اسمبلی کی مدت جولائی 2026 میں مکمل ہو رہی ہے، اس لیے اب نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے انتخابات کرانا ہی واحد راستہ ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما راجہ فاروق حیدر کا الزام ہے کہ 2021 کے انتخابات میں ایک ایسی جماعت کھڑی کی گئی، جس کے عوامی نمائندے تک نہیں تھے اور دھاندلی سے حکومت بنائی گئی۔ اس جماعت نے خود اپنے تین وزیر اعظم بدلے۔ ہمیں تو ہماری جماعت نے کہا تھا اس اسمبلی کے وزیرِ اعظم کو ووٹ دو ورنہ یہ ہمارا انتخاب نہیں تھے۔
راجہ فاروق حیدر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اقرار کرتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں نے اپنا کام ترک کیا جس کی وجہ سے تاجروں نے ان کی جگہ لی اور سارے نظام کو مسترد کیا۔‘
موجودہ بحران اور سیاسی جوڑ توڑ کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم مسلم لیگ ن نہ حکومت سازی کا حصہ ہوں گے اور نہ کسی کو گرانے کا۔ ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔‘
انھوں نے خبردار کیا کہ ’اگرچہ یہ مشکل کام ہے لیکن یہ سیاست کی خصوصیت ہے کہ ادھر سے ادھر جانے کے لیے لوگ مل جاتے ہیں تاہم یاد رہے کہ(ایکشن کمیٹی کے مراعات کے خاتمے کے مطالبے کے بعد) حکومت کا حصہ بننے کے فائدے بھی کم ہو چکے ہیں۔‘
سابق وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر نےکہا کہ ’آئین کے تحت جولائی میں انتخابات تو ہونے ہی ہیں۔ اگلے چند مہینوں کے لیے بننے والی حکومت کے لیے وقت آسان نہیں ہو گا۔ سیاسی جماعتیں ووٹ کیسے مانگی گی۔ بجلی پانی تو عوامی تحریک کی وجہ سے سستا ہوا۔ اب عوام سے کیا کہہ کر ووٹ مانگیں گے؟‘
’میں ایک سیاسی کارکن ہوں تو میں سچ کہوں تو یہ کافی مشکل ہو گا۔ اگرچہ ساری تحریک میں سیاسی کارکن اور نوجوان بھی شامل تھے لیکن قیادت نے اپنا کام ہی نہیں کیا۔‘
’سیاسی جماعتوں کو اب ماضی جیسی پذیرائی نہیں ملے گی‘
جہاں کشمیر میں سیاسی ہلچل عروج پر ہے وہیں کچھ سیاستدان اور تجزیہ کار یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس خطے میں سیاسی جماعتیں اپنی مقبولیت کھو رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں وزیرِ اعظم بننے والے جماعت کے صدر عبدالقیوم نیازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ وزیر اعظم انوار الحق سمیت فاروڈ بلاک کے رہنماؤں کو جماعت سے نکال دیا گیا تھا اور یہ فیصلہ جماعت کے سربراہ عمران خان نے کیا تھا۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ ماضی میں انتخابات کے دوران وفاق میں برسرِ اقتدار جماعتوں پر دھاندلی کے الزامات لگتے رہے لیکن ان کے بقول ’اِس بار جو ماحول بن رہا ہے سابقہ تمام روایات دفن ہو جائیں گی۔ عوام اپنے لیے نئے نمائندہ چُنیں گے۔‘
سابق وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی بھی عوامی ایکشن کمیٹی کی کامیاب تحریک کے معترف ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دیگر جماعتوں کے برعکس ان کی جماعت نے اس تحریک کی مکمل حمایت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی روزِ اوّل سے ہی ایکشن کمیٹی کے ساتھ تھی۔ اگرچہ اس تحریک میں تمام جماعتوں کے کارکن شامل تھے لیکن ان کی حمایت جزوی تھی تاہم ان کی جماعت مکمل طور پر بشمول قیادت اس تحریک میں شامل رہی۔‘
یہی وجہ ہے کہ انھیں امید ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت کو عوام کی حمایت حاصل ہو گی۔
عبدالقیوم نیازی نے کہا کہ ’یقیناً سیاسی جماعتوں کو اب پہلے جیسی پذیرائی نہیں ملے گی۔ جیسے پہلے جلسے جلوس ہوتے تھے۔ اب ویسا نہیں ہو گا کیونکہ لوگوں کو یاد ہوگا کہ ان کا مشکل وقت میں ساتھ نہیں دیا گیا۔‘
اسمبلی میں پارٹی کی 26 نشستوں کے ساتھ جانے والی پی ٹی آئی کے پاس اس وقت صرف چار نشستیں ہیں۔ یہاں بھی جماعت نے انتخابات کے وقت الیکٹیبلز پر انحصار کیا تھا جو فارورڈ بلاک بنا کر اب سیاسی وابستگیاں بھی بدل چکے ہیں۔
عبدالقیوم نیازی کا کہنا ہے کہ ’آئندہ انتخابات میں ہمارے نمائندے پی ٹی آئی کے ہی لوگ ہوں گے۔ ہمارے پاس نوجوانوں پر مبنی سیکنڈ لائن موجود ہے۔‘
’کشمیر کے لیے پارلیمانی نظام موزوں ہی نہیں‘
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالیہ احتجاجی تحریک کے بڑے مطالبات میں سے ایک حکمران طبقے کی مراعات میں کمی کرنا شامل تھا۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی کل آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 40 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے اور اس آبادی کی نمائندہ اسمبلی نشستیں 53 ہیں۔ مزید یہ کہ درجنوں وزرا، مشیر اور سیکریٹریز جو عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے مطابق ’خزانے پر بوجھ‘ ہیں۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے وفاق میں جس جماعت کی حکومت ہوتی ہے کشمیر میں بھی وہی جماعت برسرِ اقتدار آتی ہے۔ مارشل لا کے دور میں زیادہ تر ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کی حکومت رہی۔ وفاق کے مبینہ اثر کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتیں ہمیشہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتی ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیاسی تجزیہ کار زاہد امین کا کہنا ہے کہ ’کشمیر کے لیے موجود پارلیمانی نظام ہی ٹھیک نہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکمرانی کے فیصلے کبھی کشمیر میں ہوتے ہی نہیں۔ سابق رہنما سردار عبدلقیوم خان اور سکندر حیات جیسے وزرائے اعظم اپنی رائے ضرور دیتے تھے لیکن ماضیِ قریب میں صورتحال بالکل بدل گئی۔ اب مظفر آباد سے اسلام آباد تک مختلف لوگ ہیں جن کی پسندیدگی اثر انداز ہوتی ہے۔‘
زاہد امین کا کہنا تھا کہ ’کشمیر کی سیاست میں مسائل اس لیے بڑھ گئے کہ لوگوں نے ریاستی جماعتوں کو ترک کر دیا۔ ہم حقِ حکمرانی سے خود دستبردار ہو گئے۔ جب فیصلے، لاڑکانہ، جاتی امرا اور بنی گالا سے ہوں گے تو ان کی خوشنودی کے لیے یہاں لوگ آپس میں لڑیں گے ہی۔‘
زاہد امین کے خیال میں بھی حالیہ احتجاج کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی کی طاقت سے انکار کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پرانے سیاسی لوگ کوشش کریں گے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے لوگوں کو سیاست میں لائیں۔ وہ ان کی طاقت کو توڑنے کی کوشش کریں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ ’حالات سے تو لگتا ہے کہ اگر عوامی ایکشن کمیٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تو شاید یہاں الیکشن کے دن سناٹا ہوگا۔‘
زاہد امین کی تجویز ہے کہ خطے کی آبادی اور انتظام کے پیشِ نظر یہاں ایک صدر اور چند مشیر نظامِ حکومت چلا سکتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’ماضی میں کے ایچ خورشید اور سراد عبدالقیوم خان نے ایسا کیا اور پاکستان میں ضیاالحق کے دور تک کشمیر میں نظام اسی طرح چلتا رہا۔‘
زاہد امین کا کہنا ہے کہ ’پارلیمانی نظام مہنگا اور غیر عملی ہے۔ اس لیے اس سارے نظام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ایکشن کمیٹی اتنے بڑے پیمانے پر ساتھ دینا ثابت کرتا ہے کہ عوام نے اس نظام کو مسترد کر دیا۔‘
جیسے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزرائے اعظم اور سیاسی رہنما خود تسلیم کر چکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی حمایت میں کمی کی وجہ عوامی ایکشن کمیٹی کا عوامی مسائل کے حل کے لیے ڈٹ جانا ہے اور ان کی مقبولیت سے بھی انکار ممکن نہیں تو کیا واقعی عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندے بھی آئندہ قیادت سنبھالنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
یاد رہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کے جواب میں ابتدائی طور پر مقامی سیاستدانوں نے یہ کہہ کر ان کا ساتھ دینے یا حمایت سے انکار کیا تھا کہ ایکشن کمیٹی کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت نہیں اور خود عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں نے کہا تھا کہ ان کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ وہ صرف عوامی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
تو کیا آئندہ انتخابات میں اپنے تسلیم شدہ مطالبات پر عمل در آمد کرانے اور مسائل کے مستقل حل کے لیے ان نمائندوں کا سیاست میں حصہ لینے کا اب کوئی ارادہ ہے یا نہیں؟
اس حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عوامی ایکشن کمیٹی سراسر عوامی حقوق کی کمیٹی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’کمیٹی کے تمام 29 ارکان کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آنے والی پارلیمانی انتخابات سے مکمل قطع تعلقی کسی صورت نہیں برتی جائے گی تاہم کسی بھی رکن نے تاحال عملی سیاست میں آنے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا۔'
شوکت نواز میر کا کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر عوامی حمایت کے باوجود وہ انتظار کریں گے کہ سیاستدان ثابت کریں کہ وہ اپنے فیصلے خود لے سکتے ہیں۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ’ہماری کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ہمدردیاں نہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ تحریک کے دوران مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے اپنے کارکنوں کو باقاعدہ منع کیا تھا کہ ہمارا ساتھ نہ دیں تاہم پی ٹی آئی نے ایسا نہیں کیا تھا۔‘
شوکت نواز میر نے بتایا کہ’'ہم نے وارڈوں کی سطح پر عوامی رابطوں کا کام مکمل کر لیا، ہماری ہر طرح سے تیاری پوری ہے اگر ضرورت پڑی تو ہم سیاست میں شامل ہو بھی سکتے ہیں تاہم ابھی حکومت کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار ہے۔ اگر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا تو ایک بار پھر لانگ مارچ ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آنے والی حکومت جس کی بھی ہو ریاستی سیاست جماعت یا غیر ریاستی سیاسی جماعت، فیصلے تو ہمشیہ باہر سے ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے سیاست میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا۔‘
’ابھی ان کی نظر پہلے وعدے یعنی نئی حکومت میں معاہدے کے مطابق وزرا کی محدوو تعداد 20 یعنی ایک صدر، ایک وزیرِ اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے علاوہ 16 وزرا کی تقرری اور مہاجرین ارکان کی کابینہ میں عدم شمولیت پر ہے۔‘
ان کے بقول یہ پہلا اقدام ظاہر کرے گا کہ حکومت وعدے کی تکمیل میں کس قدر سنجیدہ ہے۔