صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ایشیا کے دورے کے دوران نایاب معدنیات کی سپلائی امریکہ کے لیے محفوظ کرنے کی غرض سے مختلف معاہدے کر رہے ہیں، نایاب معدنیات وہ اہم شعبہ ہے جس پر چین کئی عرصے سے راج کر رہا ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ جاپان کی جانب سے پہلے سے طے شدہ 550 ارب ڈالر کی امریکی سرمایہ کاری نایاب معدنیات کے اس معاہدے کا حصہ ہو گی یا نہیںصدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ایشیا کے دورے کے دوران نایاب معدنیات کی سپلائی امریکہ کے لیے محفوظ کرنے کی غرض سے مختلف معاہدے کر رہے ہیں، نایاب معدنیات وہ اہم شعبہ ہے جس پر چین کئی عرصے سے راج کر رہا ہے۔
امریکہ نے جاپان، ملائیشیا، تھائی لینڈ، ویتنام اور کمبوڈیا کے ساتھ نایاب معدنیات کے حصول کے لیے مختلف نوعیت کے معاہدے کیے ہیں۔ ان معاہدوں کا کیا نتیجہ نکلے گا، اِس کا اندزہ تو ابھی نہیں لگایا جا سکتا لیکن یہ معدنیات سمارٹ فونز سے لے کر الیکٹرک کاروں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔
صدر ٹرمپ کی حالیہ کوششیں ان اہم معدنیات تک رسائی کو یقینی بنانے کی کوشش ہے۔
ان معاہدوں کا مقصد چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے قبل امریکہ کے تجارتی شراکت داروں کو پابند بنانا ہے، تاکہ اس شعبے میں چین پر انحصار کم کیا جا سکے۔
امریکہ کا مقصد اِن معاہدوں کی بنیاد پر نایاب معدنیات کے شعبے پر بیجنگ کی مضبوط حیثیت یا گرفت کو چیلنج کرنا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک مہنگا نعم البدل ہو گا اور اس کے لیے کافی وقت درکار ہو گا۔
چیٹم ہاؤس سے منسلک سینیئر محقق پیٹرک شروڈر نے رواں ہفتے ایک اداریے میں لکھا کہ ’آسٹریلیا، امریکہ اور یورپ جیسے خطوں میں نئی کانیں، معدنیات کو ریفائن کرنے کی سہولیات اور پروسیسنگ پلانٹس کی تعمیر کرنا، چین کے مقابلے میں کہیں زیادہ اخراجات، سخت ماحولیاتی ضوابط یا قوانین اور زیادہ مہنگی لیبر کو برداشت کرنا ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔‘
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جاپان کی جانب سے پہلے سے طے شدہ 550 ارب ڈالر کی امریکی سرمایہ کاری نایاب معدنیات کے اس معاہدے کا حصہ ہو گی یا نہیں۔ امریکی وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹنک اپنی آئندہ جاپانی کمپنیوں سے ہونے والی ملاقات کے دوران ان تفصیلات کو واضح کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ امریکہ اور چین کے درمیان اس شعبے میں سبقت حاصل کرنے کے لیے جاری جنگ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔
بیجنگ دنیا کی تقریباً تمام نایاب معدنیات کی پروسیسنگ کے عمل میں کلیدی اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا اس شعبے پر لگ بھگ مکمل کنٹرول ہے، اور یہی وہ ایک اہم ہتھیار ہے کہ جس کا فائدہ چین کے صدر شی واشنگٹن کے مقابلے میں اُٹھا رہے ہیں۔
چین کی جانب سے حال ہی میں معدنیات کی چین سے باہر برآمد پر پابندیوں نے حال ہی میں نایاب معدنیات کی فراہمی کو محدود کر دیا ہے۔
چین کی جانب سے عائد کردہ ان پابندیوں نے امریکہ، یورپ اور ایشیا کے صنعتی مراکز میں ایک بار پھر خدشات کو جنم دیا ہے۔ پہلا خدشہ یہ ہے کہ عالمی سپلائی چین کس قدر نازک اور ناپائیدار ہو چُکی ہے اور دوسرا یہ کہ کس طرح امریکہ اور چین کے تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی اس سارے معاملے پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
ایشیا کے اپنے دورے سے قبل ہی ٹرمپ نے آسٹریلیا کے ساتھ 8.5 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس کے تحت صنعتی تعاون اور چین سے باہر نایاب معدنیات کی پروسیسنگ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے مشترکہ سرمایہ کاری جیسے معاملات پر اتفاق ہوا۔
اس موقع پر جب آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانیز وائٹ ہاؤس کے دورے پر تھے تب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’تقریباً ایک سال بعد ہمارے پاس اتنی زیادہ اہم معدنیات اور نایاب دھاتیں جمع ہو چکی ہوں گی کہ آپ کو یہ سمجھ نہیں آئے گی کہ اب اِن کا کیا کرنا ہے اور انھیں کہاں استعمال کرنا ہے۔‘
اُن کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں مستقبل میں ان معدنیات کی قیمت انتہائی کم ہو جائے گا۔
اگرچہ ابھی تو کسی بھی چیز کا اندازہ درست نہیں لگایا جا سکتا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا بلاشبہ امریکہ کی اہم معدنیات کے حصول کی مہم میں ایک اہم شراکت دار ہے۔
سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کی گریسلن باسکارن اور کیسرن ہورواتھ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا کہ آسٹریلیا کے پاس معدنی وسائل کی وسیع اقسام پائی جاتی ہیں۔
کئی کمپنیاں پہلے ہی ریفائنریز بنا رہی ہیں جن میں ایلُوکا ریسورسز بھی شامل ہے جس نے اس سال بی بی سی کو بتایا تھا کہ حکومت کی مدد کے بغیر ریفائنری بنانا تقریباً ناممکن ہو گا۔

جاپان کے ساتھ معدنیات سے متعلق معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے نایاب معدنیات کی فراہمی اور پیداوار میں اضافے پر اتفاق کیا ہے اور اس میں مشترکہ سرمایہ کاری اور ان معدنیات کے ذخائر تشکیل دینے کے منصوبے شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک ’ریپڈ ریسپانس گروپ‘ بھی قائم کیا جائے گا جو سپلائی میں کسی بھی قسم کے اچانک تعطل یا رکاوٹ کو دور کرنے اور ایسے ممکنہ حالات سے نمٹنے میں اہم کرداد ادا کرے گا۔
جنوب مشرقی ایشیا کی چھوٹی معیشتوں کے ساتھ کیے گئے امریکی معاہدوں کی تفصیلات ابھی غیر واضح ہیں۔ ملائیشیا، تھائی لینڈ، ویتنام اور کمبوڈیا سب نے امریکہ کو نایاب معدنیات تک زیادہ رسائی دینے اور ایسے برآمدی ضوابط پر اتفاق کیا ہے جو چینی کمپنیوں کے مقابلے میں امریکی خریداروں کے لیے زیادہ سازگار ہوں گے۔
ان میں یہ وعدے بھی شامل ہیں کہ وہ امریکہ کو معدنیات کی برآمدات نہیں روکیں گے اور اسی کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر غیر چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور پروسیسنگ کو فروغ دیں گے۔
تاہم ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے ساتھ کیے جانے والے خیر سگالی کے معاہدے، نان بائنڈنگ ایگریمنٹس ہیں یا جنھیں ہم رسمی طور پر ’میمورنڈم آف انڈر سٹینڈنگ‘ یا ایم او یو کہا جاتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدے ان ممالک میں سیاسی تبدیلیوں کے باوجود برقرار رہیں گے؟
ایک اور بڑا مسئلہ جو ابھی حل طلب ہے وہ اس ضمن میں قواعد و ضوابط کے طے کرنے کا ہے، اور خاص طور پر ماحولیات سے متعلق خدشات کا۔ نایاب معدنیات کے معاملے میں صرف کان کنی ہی نہیں بلکہ ان کی پروسیسنگ بھی ایک ایسی صنعت ہے کہ جس کی وجہ سے ماحول کے آلودہ ہونے کے بڑے امکانات ہیں۔
اس میں ایکسٹریکشن یعنی زمین سے معدنیات کا نکالا جانا، لیچنگ یعنی محلول میں تحلیل کرنا، تھرمل کریکنگ یعنی حرارت کی مدد سے انھیں توڑنا یا مختلف اشکال میں ڈھالنا اور ریفائننگ یعنی ان معدنیات کی صفائی جیسے عمل شامل ہیں، جو سب ماحول کو آلودہ کرنے میں اہم کرداد ادا کر سکتے ہیں۔
چین میں اس کے اثرات بہترین انداز میں دستاویزی شکل میں موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک نے اس صنعت کو فوری طور پر اپنانے میں ہچکچاہٹ دکھائی ہے۔
دنیا میں چین کے باہر نایاب معدنیات کی سب سے بڑی سپلائر آسٹریلوی کمپنی لیناس ریئر ارتھس ہے۔ یہ معدنیات کی ریفائننگ کے لیے کسی حد تک ملائیشیا پر انحصار کرتی ہے مگر اسے وہاں برسوں سے مختلف ریگولیٹری رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
جاپان اور آسٹریلیا جیسے طاقتور ممالک کو سرمایہ کاری کے معاہدوں کے ذریعے شامل کر کے امریکی صدر ٹرمپ جمعرات کو شی جن پنگ کے ساتھ ہونے والے اہم مذاکرات میں نسبتاً مضبوط پوزیشن میں سامنے آئیں گے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اب بھی تقریباً 70 فیصد نایاب معدنیات کی پروسیسنگ پر اپنا اثرورسوخ جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ کے لیے اس فرق کو ختم کرنا بے حد سرمایہ، سخت ماحولیاتی قوانین اور تکنیکی مہارت کا متقاضی ہے۔ معدنیات کے ایک پروسیسنگ پلانٹ کو ڈیزائن کرنے سے اسے مکمل پیداوار کے قابل بنانے تک کے عمل میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ آسٹریلیا طویل عرصے سے اس صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس کے پلانٹس ابھی تک مکمل طور پر فعال نہیں ہو پائے۔
اور چین اس خطے میں یہ سب ہوتا دیکھ کر خاموش تماشائی نہیں بنا بیٹھا رہے گا، دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے ساتھ تجارت ان تمام ممالک بشمول جاپان کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس لیے امریکہ بیجنگ کے اثر و رسوخ کو نظر انداز نہیں کر سکتا، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں۔
آخرکار نایاب معدنیات کی سپلائی چینز کو متنوع اور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعاون اور سرمایہ کاری کے وعدے اس سمت کی جانب ایک قدم تو ہے مگر آگے کا راستہ طویل اور پیچیدہ ہے۔