بابر اعظم کیا واپس ’ڈرائنگ بورڈ‘ پر جائیں گے؟

جب پاکستان نے بابر اعظم کو ٹی ٹونٹی کرکٹ سے ڈراپ کیا، تب شائقین کا ایک بڑا حصہ بھی خودبخود اس منظرنامے سے ’ڈراپ‘ ہو گیا تھا۔ بطور ایتھلیٹ، یہ بابر اعظم کا طُرہ ٹھہرا کہ ڈھیروں ناظرین کے لیے پاکستان کرکٹ کا مقصود و مفہوم وہی تھے۔
بابر اعظم
Getty Images

یہ بابر اعظم کا وہ رُوپ نہیں تھا جسے دیکھنے راولپنڈی میں 17 ہزار شائقینِ کرکٹ امڈ آئے تھے۔ بابر کا وہ ’ورژن‘ جو کبھی تماشائیوں کی بِھیڑ سٹیدیمز تک لایا کرتا تھا، اب نجانے کن کن حوادث کی دُھول میں کھو چُکا ہے۔

چار سال پیچھے جو بابر اعظم کریز کی سمت آتے ہوئے سہل قدم اور مرتکز نظر آیا کرتے تھے، اب اسی کریز کی جانب قدم بڑھاتے مضطرب نظر آتے ہیں۔

جو کندھے کبھی جوش سے امڈ کر کلائیوں کے بل پر رنز کی ضیافت سجایا کرتے تھے، اب محض توقعات کے وزن سے ہی بوجھل دکھائی دیتے ہیں۔

جب پاکستان نے بابر اعظم کو ٹی ٹونٹی کرکٹ سے ڈراپ کیا، تب شائقین کا ایک بڑا حصہ بھی خودبخود اس منظرنامے سے ’ڈراپ‘ ہو گیا تھا۔ بطور ایتھلیٹ، یہ بابر اعظم کا طُرہ ٹھہرا کہ ڈھیروں ناظرین کے لیے پاکستان کرکٹ کا مقصود و مفہوم وہی تھے۔

کچھ ہفتے پہلے، جب ایک پریس کانفرنس میں مائیک ہیسن سے بابر کی بابت سوال اٹھایا گیا تو انھوں نے ٹیم میں واپسی کے لیے کھیل میں بہتری کو بنیادی تقاضا ٹھہرایا۔ ہیسن کے مطابق بگ بیش لیگ بابر اعظم کے لیے کم بیک کا دروازہ ثابت ہو سکتی تھی۔

بگ بیش کی تو ابھی تشہیری مہم ہی شروع ہوئی ہے، مگر بابر اعظم ٹیم میں واپس آ چکے ہیں۔ قابلِ غور یہ بھی ہے کہ مئی سے اب تک انھوں نے کسی مسابقتی کرکٹ میں حصہ نہیں لیا تھا، جو مائیک ہیسن کا تقاضا نبھانے کو کوئی ڈیٹا ہی فراہم کر سکتی۔

کوہلی
Getty Images
جب کسی ڈیٹا اینالسٹ نے ایک بار آف سٹمپ کے باہر وراٹ کوہلی کی کمزوری پکڑ لی تھی تو پھر دنیا تین برس تک ان کی سینچری دیکھنے کو ترس گئی تھی

جس عہد میں کرکٹ مہارت کی بجائے ہندسوں کا کھیل بن چکی ہو، اس مارا ماری میں بابر اعظم جیسے کرکٹرز کی زندگی آسان نہیں ہو سکتی۔

جو شہرت بابر کی عمومی زندگی سہل کرتی ہے، وہی ان کی تازہ مشکل بھی بڑھاتی ہے کہ حریف کوئی سا بھی ہو، ہر ٹیم کا ہر بولر انہی کی وکٹ کی ’ٹرافی‘ پانا چاہتا ہے۔

جب کسی ڈیٹا اینالسٹ نے ایک بار آف سٹمپ کے باہر وراٹ کوہلی کی کمزوری پکڑ لی تھی تو پھر دنیا تین برس تک ان کی سینچری دیکھنے کو ترس گئی تھی۔

شہرت پانے کے بعد جب کسی ’سٹار‘ کی ایک نمایاں کمزوری دنیا کو نظر آ جائے تو اس کے لیے ’کم بیک‘ بہت دشوار ہو جاتا ہے۔

وجہ اس کی شاید یہ بھی ہے کہ جب ایک کھلاڑی اپنے کھیل کا ایک ’بلائنڈ سپاٹ‘ ہمراہ ہوتے ہوئے بھی دنیا پر اپنا سکہ جما چکا ہو تو اسے مزید کسی ’پرفیکشن‘ کی طلب رہ ہی نہیں سکتی۔

مگر جب ایک معمولی سی کجی متواتر اس سٹارڈم کا ٹھٹھہ اڑانے لگے تو پھر سے ڈرائنگ بورڈ کی طرف پلٹنا ضروری ہو جاتا ہے۔

بابر اعظم کا مخمصہ یہ بھی ہے کہ ان کے لیے ’ڈرائنگ بورڈ‘ کی طرف پلٹنے کی ضرورت شاید کبھی محسوس ہی نہیں کی گئی۔

کین ولیمسن کی مثال لیتے ہیں۔ جب انھیں آف سٹمپ کے باہر ہارڈ لینتھ پر سلپ میں کیچ کا ’عارضہ‘ اپنی طرف آتا دکھائی دیا تو انھوں نے ہفتوں اپنے نیٹ پریکٹس سیشنز ایک نئے شاٹ کی تخلیق میں بسر کر ڈالے جہاں ہارڈ لینتھ پر ’پلے بیک‘ کے بجائے انھوں نے اسے لیٹ کھیل کر تھرڈ مین باؤنڈری کو نشانہ بنانا سیکھا۔

کین ولیمسن
Getty Images
کین ولیمسن کو آف سٹمپ کے باہر ہارڈ لینتھ پر سلپ میں کیچ کا ’عارضہ‘ اپنی طرف آتا دکھائی دیا تو انھوں نے ہفتوں ایک نئے شاٹ کی تخلیق میں بسر کر ڈالے

کین ولیمسن جس کرکٹ کلچر کے نمائندہ ہیں، وہاں کے عوامل اگرچہ بہت مختلف ہیں مگر جس کرکٹنگ بیوروکریسی کے تحت بابر اپنا کیرئیر گزار رہے ہیں، لگ بھگ وہی عوامل وراٹ کوہلی کو بھی درپیش رہے ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں ذمہ داری کا زیادہ بوجھ سسٹم پر نہیں، فرد پر ہوتا ہے۔

کوربن بوش عمدہ فاسٹ بولر ہیں جو برق رفتاری سے ہارڈ لینتھ پھینکنا جانتے ہیں مگر بابر اعظم کے لیے نامانوس ہرگز نہیں تھے۔ جو لینتھ انھوں نے ’ٹرافی وکٹ‘ حاصل کرنے کے لیے چنی، وہ بھی بابر اعظم کے لیے نئی نہیں تھی۔

اگر بابر اعظم کا چار سال پرانا ورژن یہاں سامنے ہوتا تو شاید وہ گیند سامنے کھیلی ہی نہ جاتی بلکہ ایک قدم پیچھے لے کر، تھوڑا لیٹ کھیلتے ہوئے، پیس کے بل پر ہی، تھرڈ مین باؤنڈری کو داغی جاتی۔ مگر یہاں بابر جلد کھیلے، مضطرب کھیلے اور مضمحل ٹھہرے۔

ٹیلنٹ کی کہیے تو بابر اعظم اک گوہرِ نایاب ہیں۔ پاکستان کرکٹ نے کئی دہائیوں میں ایسا بلے باز نہیں دیکھا۔ مگر جو ہنر سیکھ کر وہ اس پائیدان تک پہنچے ہیں، اب ان میں سے کچھ بھلانا بھی ضروری ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US