’جب خواتین 35 سال یا اس کے بعد کی عمر کو پہنچتی ہیں تو ان میں ہارمونل تبدیلیاں آتی ہیں اور اُن کا ذہنی توازن متاثر ہوتا ہے جس سے وہ دوسروں کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں۔۔۔‘
یہ کیس وفاقی اُردو یونیورسٹی کی ایک خاتون استاد کی جانب سے دائر کیا گیا تھا’جب خواتین 35 سال یا اس کے بعد کی عمر کو پہنچتی ہیں تو ان میں ہارمونل تبدیلیاں آتی ہیں اور اُن کا ذہنی توازن متاثر ہوتا ہے جس سے وہ دوسروں کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں۔۔۔‘
یہ متنازع بیان وفاقی اُردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کا ہے اور اسی کی بنیاد پر یونیورسٹی کی ایک خاتون اُستاد کی شکایت پر وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی (فوسپا) نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ خواتین کے خلاف تضحیک آمیز یا جنس کی بنیاد پر امتیازی ریمارکس دینا کام کی جگہ پر ہراسانی (ورک پلیس ہراسمنٹ) کے زمرے میں آتا ہے۔
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی نے ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کو یونیورسٹی کی خواتین فیکلٹی ممبران کے خلاف صنفی بنیادوں پر دقیانوسی اور تضحیک آمیز ریمارکس دینے پر ہراسانی کا مرتکب قرار دیا ہے۔
کام کی جگہ پر ہراسانی سے متعلق یہ کیس وفاقی اُردو یونیورسٹی کی ایک استاد کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ اپنی شکایت میں انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ انھیں وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری اور ایک اور شعبے کے سربراہ کی جانب سے مسلسل ہراسانی کا سامنا ہے۔
خاتون استاد کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں صنفی امتیاز پر مبنی جملوں کے علاوہ متعدد دیگر مبینہ ہراسانی پر مبنی واقعات کا تذکرہ کیا گیا تھا تاہم اس کیس کی تحقیق کے بعد فوسپا نے قرار دیا کہ ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری اور دیگر کے خلاف عائد کیے گئے دیگر الزامات ثابت نہیں ہوئے، تاہم یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ڈاکٹر شنواری نے خواتین اساتذہ کے بارے میں صنفی تعصب پر مبنی تبصرے کیے جو پیشہ ورانہ ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں۔
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کی چیئرپرسن فوزیہ وقار نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ ایسے بیانات ’جنسی امتیاز، تضحیک آمیز اور تحقیر پر مبنی ہیں، جو خواتین کے خلاف دقیانوسی سوچ کو فروغ دیتے اور پیشہ ورانہ ماحول کو غیر محفوظ اور نقصان دہ بناتے ہیں۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی جیسے اداروں کے سربراہان پر لازم ہے کہ وہ صنفی حساسیت اور احترام کا مظاہرہ کریں اور تعصب یا دقیانوسی خیالات سے لاعلمی کسی بہانے کے طور پر قابل قبول نہیں ہے۔
شکایت کیا تھی اور فیصلے میں کیا کہا گیا؟
خاتون استاد کی شکایت تھی کہ انھیں مسلسل ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا اس معاملے کا آغاز دو جنوری 2025 کو اُس وقت ہوا جب وفاقی اردو یونیورسٹی کی خاتون اُستاد نے یونیورسٹی وائس چانسلر اور شعبۂ کمپیوٹر سائنس کے سربراہ کے خلاف ہراسانی کی شکایت وفاقی محتسب برائے ہراسانی میں درج کروائی۔
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی (فوسپا) کی ترجمان مومنہ آصف نے بی بی سی کو بتایا کہ شکایت کنندہ کا الزام تھا کہ انھیں دونوں افراد کی جانب سے مسلسل دباؤ، ہراسانی، غیر منصفانہ رویے اور صنفی امتیاز کا سامنا رہا ہے۔
بی بی سی کو دستیاب دستاویزات کے مطابق خاتون استاد کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ انھیں زیادہ کام دے کر، وضاحتی خطوط جاری کرنے سمیت دیگر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ خاتون نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ انھیں پی ایچ ڈی کے لیے این او سی حاصل کرنے میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اس کام میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔
شکایت کنندہ کے مطابق انھیں وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کے دفتر طلب کیا گیا اور میٹنگ کے دوران اُن کا موبائل فون لے لیا۔
شکایت کنندہ کے مطابق اس موقع پر وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری نے کہا کہ ’جب خواتین 35 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہو جاتی ہیں تو انھیں ہارمونل مسائل کا سامنا ہوتا ہے جس سے ان کی ذہنی حالت غیر مستحکم ہو جاتی ہے اور وہ دوسروں کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں۔‘
خاتون کا دعویٰ ہے کہ انھیں اس موقع پر یہ دھمکی بھی دی گئی ’تم وہی ہو جو ہراسانی کی شکایتیں درج کراتی ہو، اب تمہیں اس کی قیمت چکانی ہو گی۔‘
خاتون نے اپنی شکایت میں مؤقف اختیار کیا کہ اس صورتحال کے باعث انھیں شدید ذہنی دباؤ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
فوسپا کی ترجمان مومنہ آصف کے مطابق وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی (فوسپا) نے اس معاملے کی مکمل تفتیش کی اور فریقین کے بیانات سُنے۔ ابتدائی سماعت میں وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری اور ڈاکٹر محمد شیراز نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات مسترد کیے۔
فوسپا کے مطابق تفتیش، جرح اور کارروائی کے بعد یہ سامنے آیا کہ شکایت کنندہ ڈاکٹر محمد شیراز کے خلاف اپنے الزامات کے لیے کافی شواہد فراہم نہیں کر سکیں لہٰذا یہ شکایات خارج کر دی گئی تاہم وائس چانسلر کے خواتین کے بارے میں نامناسب جنسی تعصب پر مبنی اور تحقیر آمیز ریمارکس ثابت ہو گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’فوسپا نے انھیں ہراسانی کا مجرم پایا اور 2010 کے ایکٹ کی دفعہ 4(4)(i)(a) کے تحت تنبیہی کارروائی کی گئی۔‘
ان کے مطابق دیگر الزامات جیسے این او سی جاری نہ کرنا یا موبائل فون ضبط کرنا، زیادہ تر انتظامی نوعیت کے تھے اور ان سے کوئی جنس پر مبنی امتیاز ثابت نہیں ہوا۔
تحقیق کے بعد وفاقی محتسب برائے تحفظِ خواتین ہراسانی نے قرار دیا کہ 'ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری اور ڈاکٹر شیراز کے خلاف دیگر الزامات ثابت نہیں ہوئے، تاہم یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ڈاکٹر شنواری نے خواتین لیکچراروں کے بارے میں صنفی تعصب پر مبنی تبصرے کیے جو پیشہ ورانہ ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں۔‘
ڈاکٹر ضابطہ شنواری کو دی گئی تنبیہ کے متعلق مومنہ بتاتی ہیں کہ ’ہم یا تو وارننگ دے سکتے ہیں یا سرزنش کر سکتے ہیں اور 'یہ دراصل ایک قسم کی وارننگ یا سرزنش ہی ہے جسے سادہ الفاظ میں 'ڈانٹ' بھی کہہ سکتے ہیں۔' انھیں کہا گیا ہے کہ 'آپ کا رویہ غلط تھا اور آئندہ ایسا رویہ نہ اپنائیں۔‘
خیال رہے ’پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمینٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010 کے تحت ہراسانی میں زبانی، تحریری یا نفسیاتی رویہ بھی شامل ہے جو کسی کے لیے ناموافق یا غیر محفوظ ماحول پیدا کرے۔‘
یہ پہلا موقع ہے جس میں کسی تعلیمی سربراہ کو صرف جنسی امتیازی گفتگو کی بنیاد پر قصوروار ٹھہرایا گیا ہے جو آئندہ کیسز کے لیے ایک اہم مثال بن سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کے تعلیمی اور سرکاری اداروں میں پائی جانے والی صنفی دقیانوسی سوچ کی نشاندہی کرتا ہے جہاں خواتین کو اکثر 'جذباتی' یا 'ہارمونل اثرات کی زد میں' قرار دے کر ان کی پیشہ ورانہ ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی (فوسپا) کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’خواتین کے طرزِ عمل کو ہارمونل تبدیلیوں سے جوڑنا صنفی دقیانوسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو خواتین کی عزتِ نفس کو مجروح اور امتیازی رویوں کو فروغ دیتا ہے۔‘
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ یونیورسٹی کے سربراہ پر ادارہ جاتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صنفی حساسیت کا مظاہرہ کریں، کیونکہ اُن کے الفاظ اور رویے تعلیمی ماحول کی سمت طے کرتے ہیں۔
وفاقی محتسب نے فیصلے میں واضح کیا کہ یہ فیصلہ صرف ایک فرد تک محدود نہیں بلکہ اس وسیع تر تعصبی سوچ کو چیلنج کرتا ہے جو لاعلمی یا غلط مفروضات کے پیچھے چھپی ہوتی ہے۔
فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ لاعلمی یا ناسمجھی کو بہانہ نہیں بنایا جا سکتا: ’صنفی دقیانوسی تصورات سے لاعلمی کسی بھی ذمہ دار عہدے دار کو بری الذمہ نہیں کرتی۔‘
فوسپا نے اُردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو تنبیہ کی ہے اور یونیورسٹی سنڈیکیٹ کو ہدایت دی ہے کہ وہ ان کے رویے کی نگرانی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔
ساتھ ہی یونیورسٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ادارے میں صنفی برابری اور حساسیت کے فروغ کے لیے مستقل انکوائری کمیٹی تشکیل دے، ضابطہ اخلاق نمایاں طور پر آویزاں کرے، اور عملے و طلبہ کے لیے باقاعدہ آگاہی ورکشاپس کا انعقاد کرے۔
فیصلے میں زور دیا گیا کہ ’صنفی تعصب سے لاعلمی اُن ادارہ جاتی سربراہان کے لیے قابلِ معافی نہیں جو مثال بننے کے پابند ہیں۔‘
’یہ فیصلہ واضح پیغام دیتا ہے کہ پاکستان کے اداروں میں ہراسانی کی روک تھام صرف قانون پر عمل سے ممکن نہیں۔ یہ ایک ذہنیت ہے جس کا تعلق سوچ میں تبدیلی سے ہے۔ تعصب خواہ سوچ، الفاظ یا عمل کی شکل میں ہو، کام کی جگہ پر اس کی کوئی گنجائش نہیں۔‘
کیا عمر کے ساتھ ہارمونل تبدیلیاں خواتین کے رویے یا پیشہ ورانہ صلاحیت پر اثر ڈالتی ہیں؟
ماہر امراض نسواں ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی کہتی ہیں کہ 35 سال سے زائد عمر کی خواتین کے بارے میں یہ تصور کہ ہارمونل مسائل کی وجہ سے وہ جذباتی دباؤ کا شکار یا پیشہ ورانہ طور پر کمزور ہو جاتی ہیں، غلط اور دقیانوسی ہے۔
ان کے مطابق پیری مینوپاز، جو مینوپاز سے پہلے کا قدرتی مرحلہ ہے، ہارمونل تبدیلیاں لا سکتا ہے جو عارضی طور پر موڈ یا کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہیں لیکن یہ خواتین کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر اثر نہیں ڈالتیں۔
کلینیکل ماہرِ نفسیات ڈاکٹر وجیہہ ظفر کہتی ہیں کہ 30 سال کے بعد خواتین زیادہ مضبوط، باشعور اور خوداعتماد ہو جاتی ہیں، جبکہ نسبتاً کم عمر خواتین میں ہراسانی کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود کو محفوظ رکھنے کے طریقوں سے کم واقف ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر وجیہہ ظفر کے مطابق یہ درست ہے کہ ہارمونل تبدیلیاں ہمارے رویے کو متاثر کر سکتی ہیں اور بعض اوقات اس کے نتیجے میں چڑچڑاپن یا ڈپریشن جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں، لیکن یہ ہر عورت پر مختلف انداز میں اثر ڈالتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک قدرتی عمل ہے اور اسے بیماری تب ہی کہا جا سکتا ہے جب کوئی خاتون شدید ڈپریشن یا اینگزائٹی کا شکار ہو جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے رویے یا پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر ہارمونل تبدیلیوں کا اثر مخصوص حالات میں ہوتا ہے، جیسے پیریڈز یا زچگی کے بعد، لیکن یہ کہنا کہ 35 سال کے بعد ہر عورت متاثر ہوتی ہے، ایک دقیانوسی سوچ ہے۔
ڈاکٹر وجیہہ وضاحت کرتی ہیں کہ ایسے مرد جو خود عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں یا جنھیں تعلیم اور آگاہی کی کمی ہوتی ہے، وہی خواتین کے بارے میں دقیانوسی تصورات رکھتے ہیں اور انھی بنیادوں پر فیصلے کرتے ہیں۔
ان کے مطابق خواتین کے لیے ایک حوصلہ افزا، محفوظ اور مثبت ماحول بہت ضروری ہے کیونکہ ایسے ماحول میں وہ بہتر کارکردگی دکھاتی ہیں، جبکہ منفی رویے ان کی ذہنی صحت اور کارکردگی دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ثمرینہ کہتی ہیں کہ کسی عورت کے ناراضی، غصے یا اداسی کے جذبات کو صرف اس کے ہارمونز سے جوڑنا نہ صرف غلط بلکہ نقصان دہ ہے۔ عمر، مینوپاز یا پیری مینوپاز کی علامات پر کیے جانے والے مذاق یا غیر ضروری تبصرے ہراسانی کے زمرے میں آتے ہیں اور ایسا رویہ کام کی جگہ کو دشمنانہ ماحول میں بدل دیتا ہے، جہاں خواتین بائولوجیکل عمل کی وجہ سے تنقید اور مزاح کا نشانہ بنتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ کام کی جگہ پر خواتین کو درپیش چیلنجز بائولوجیکل نہیں بلکہ سماجی اور ادارہ جاتی نوعیت کے ہیں، جن کی وجہ اکثر حمایت کی کمی، جنسی تعصب کا خوف اور پرانی یا غیر مؤثر پالیسیاں ہیں۔ ان کا حل کمپنی کے ماحول اور ثقافت میں مثبت اصلاحات لانا ہے، نہ کہ کسی فرد کی صلاحیت یا قابلیت پر شک کرنا۔
فوسپا کے حالیہ فیصلے پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر وجیہہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں پہلی بار کسی ایسے رویے کو واضح طور پر ہراسانی کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے جو ایک اہم پیش رفت ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ اب پاکستان میں خواتین کے تحفظ سے متعلق قوانین مضبوط ہو رہے ہیں جس کے باعث خواتین بھی آگے آ رہی ہیں اور معاشرہ آہستہ آہستہ آگاہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر وجیہہ کے مطابق معاشرے میں حقیقی تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب مرد خواتین کے ساتھ کھڑے ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ خواتین سے متعلق دقیانوسی سوچ کو ختم کرنا آسان نہیں، لیکن مسلسل آگاہی اور تعلیم کے ذریعے اسے بتدریج کم کیا جا سکتا ہے۔