صدر زرداری نے انڈیا کا نام لیے بغیر اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ چار دن ہم سے جنگ نہیں لڑ سکے۔۔اتنا بڑا ملک اور ہم سے 10 گنا بڑی معیشت ہونے کے باوجود آپ کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ آپ وہ دل گردہ کہاں سے لائیں گے، جو ہمارے چیف کا ہے۔۔ہمارے پی ایم کا ہے۔۔ہمارے صدر کا ہے اور ہمارے ایئر اور آرمی چیف کا ہے۔‘
سال 2025 اپنے اختتام کے قریب ہے مگر رواں سال مئی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ لڑائی پر بحث مباحثہ اب بھی جاری ہے جس میں ایک نیا پہلو دو روز قبل پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی ایک تقریر کے بعد سامنے آیا ہے۔
27 دسمبر کی شب سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر سندھ کے شہر گڑھی خدا بخش میں خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے چار روزہ لڑائی کا تذکرہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ملٹری سیکریٹری نے انھیں بنکر میں جانے کا مشورہ دیا تھا جسے انھوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
تاہم انڈیا کے مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر صدر زرداری کا یہ بیان بار بار شیئر کیا جا رہا ہے اور یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ انڈیا کے ’آپریشن سندور‘ کے نتیجے میں پاکستانی قیادت کس قدر ’خوف‘ میں مبتلا ہو گئی تھی۔ دوسری جانب صدر زرداری کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میڈیا جو کہتا ہے، اسے کہنے دیں۔ صدر پاکستان نے وہی کہا جو عوام کے سامنے کہنے کی ضرورت تھی۔‘
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کسی پاکستانی سیاسی رہنما کے ذاتی تجربے سے متعلق بیان کو انڈین میڈیا پر توجہ حاصل ہوئی ہو۔ اس سے قبل بھی انڈین میڈیا میں وزیر اعظم شہباز شریف کے سوئمنگ کے دوران جھڑپوں کی ابتدا کی اطلاع ملنا یا وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے ’جنگ کے آغاز کی خبر سُن پر گھر سے واپس آفس آنے‘ کے بیانات بھی مخصوص پیرائے میں دیکھے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں سال اپریل میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر شدت پسند حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے پر ڈرون، میزائل حملوں اور فضائی جھڑپوں کی ابتدا کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔
جہاں انڈیا نے اس چار روزہ لڑائی کو ’آپریشن سندور‘ کا نام دیا تھا وہیں پاکستان میں اس کے لیے ’معرکہ حق‘ اور ’آپریشن بنیان المرصوص‘ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔
صدر زرداری نے کیا کہا تھا؟
یہ پہلا موقع تھا کہ جب آصف زرداری نے مئی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کے دوران اپنے تجربات شیئر کیے۔
بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر سندھ کے شہر گڑھی خدا بخش میں خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری کا کہنا تھا کہ ’میرے ملٹری سیکریٹری میرے پاس آئے اور کہا کہ سر جنگ شروع ہو گئی ہے۔ سر بنکر میں چلیں۔ میں نے کہا کہ شہادت آنی ہے تو یہیں آئے گی، لیڈرز بنکرز میں نہیں، میدان میں مرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے ملٹری سیکریٹری کو (جنگ کے آغاز سے) چار دن پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جنگ ہونے والی ہے۔
صدر زرداری نے اپنے خطاب میں انڈیا کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ چار دن ہم سے جنگ نہیں لڑ سکے، اِتنا بڑا ملک اور ہم سے 10 گنا بڑی معیشت ہونے کے باوجود آپ کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ آپ وہ دل گردہ کہاں سے لائیں گے، جو ہمارے چیف کا ہے، ہمارے وزیراعظم کا ہے، ہمارے صدر کا ہے اور ہمارے ایئر اور آرمی چیف کا ہے۔‘
صدر زرداری نے مزید دعویٰ کیا کہ ’جب وہ (انڈیا) حملہ کرنے آئے تو ہم پہلے سے ہی آسمانوں پر اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ اُن کو اُس وقت پتہ چلا، جب اُنھیں سامنے پاکستان ایئر فورس نظر آئی۔‘
واضح رہے کہ 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر شدت پسند حملے کے بعد انڈیا نے کہا تھا کہ 6-7 مئی کی درمیانی شب کو اس نے پاکستان میں شدت پسندوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا۔ اس آپریشن کو 'آپریشن سندور' کا نام دیا گیا، جس کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازع شروع ہوا تھا۔
پاکستان نے انڈیا کے رفال طیاروں سمیت چھ طیار مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا جسے اس کی جانب سے ’معرکہ حق‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
اگست میں انڈین ایئر چیف نے دعویٰ کیا تھا کہ لڑائی کے دوران کم از کمچھ طیارے مار گرائے تھے۔
ادھر پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ایک بھی پاکستانی طیارے کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی کوئی تباہ ہوا ہے۔'
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا ’انڈیا پاکستان جنگ رُکوانے‘ کا کریڈٹ لے چکے ہیں اور اس دوران متعدد طیاروں کے مار گرائے جانے کا تذکرہ کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ بی بی سی ویریفائی نے تین ایسی ویڈیوز کی تصدیق کی تھی جن کے بارے میں دعوی کیا گیا تھا کہ ان میں نظر آنے والا ملبہ ایک فرانسیسی ساختہ رفال طیارے کا ہے جو انڈیا کی فضائیہ کے زیراستعمال ہیں۔
ان میں سے ایک ویڈیو کی جیو لوکیشن سے بی بی سی ویریفائی کو علم ہوا تھا کہ یہ انڈین ریاست پنجاب میں بھٹنڈہ کے مقام کی ہے۔ اس ویڈیو میں یونیفارم میں ملبوس اہلکار لڑاکا طیارے کا ملبہ اکھٹا کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
زرداری کے بیان پر انڈیا میں تبصرے اور صدر کے ترجمان کا جواب
انڈین میڈیا میں صدر زرداری کے بیان کو پاکستان میں ’آپریشن سندور‘ سے متعلق پایا جانے والا ’خوف‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
انڈین اخبار ’انڈیا ٹو ڈے‘ نے لکھا کہ ’آپریشن سندور‘ کے دوران انڈیا کی جانب سے برسائے جانے والے میزائلوں کے دوران پاکستانی صدر کو کہا گیا کہ آپ بنکر میں چھپ جائیں۔
ایس کے چکرورتی نامی صارف نے لکھا کہ پاکستان کے صدر آصف زرداری نے اعتراف کر لیا کہ اُنھیں لڑائی کے دوران بنکر میں جانے کا کہہ دیا گیا تھا، یہ اُس خوف کی علامت ہے، جو انڈیا نے پاکستانیوں پر طاری کیا تھا۔
ایک صارف نے لکھا کہ راہول گاندھی کو لازمی طور پر یہ دیکھنا چاہیے۔ خیال رہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی آپریشن سندور سے متعلق سوال اُتھاتے رہے ہیں۔ لوک سبھا سے خطاب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا تھا کہ آپریشن سدور کے ذریعے وزیر اعظم مودی نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی۔
مسٹر سنہا نامی صارف نے لکھا کہ ’ایک طرف پاکستانی صدر خوف کی وجہ سے بنکر میں چھپنے کی بات کر رہے، تو وہیں انڈیا میں اپوزیشن اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ انڈیا نے پاکستان میں کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔‘
ایک پاکستانی صارف منصور احمد قریشی نے لکھا کہ ’صدر زرداری یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا، چار روز بھی لڑائی نہیں لڑ سکا۔ یہ پاکستان سے لڑ ہی نہیں سکتا۔‘
اُن کے بقول صدر زرداری نے یہ بھی کہا کہ انڈیا کے مزید طیارے گر سکتے تھے۔
بی بی سی نے اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے صدر پاکستان کے ترجمان مرتضی سولنگی سے رابطہ کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میڈیا جو کہتا ہے، اسے کہنے دیں۔ صدر پاکستان نے وہی کہا جو عوام کے سامنے کہنے کی ضرورت تھی۔‘
مئی کی کشیدگی کے دوران اسحاق ڈار اور شہباز شریف کے ذاتی تجربات

یہ پہلی بار نہیں جب مئی کی کشیدگی کے بارے میں پاکستانی قیادت کے ذاتی تجربات انڈیا میں موضوع بحث بنے ہوں۔ 27 دسمبر کو پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا بھی ایک بیان انڈین میڈیا میں دلچسپی حاصل کرتا رہا۔
اس بیان میں اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ مئی کی لڑائی کے دوران انڈیا نے پاکستان میں 36 گھنٹوں کے دوران 80 ڈرونز پاکستانی حدود میں بھیجے تھے جن میں سے پاکستان نے 79 ڈرونز مار گرائے تھے۔
اسحاق ڈار نے یہ بھی بتایا کہ نو اور 10 مئی کی درمیانی شب ’ڈھائی تین بجے کے قریب نور خان ایئر بیس پر حملہ کرنا انڈیا کی غلطی تھی۔‘
’ہمارا پلان تھا کہ یہ صبح فجر کے قریب چار بجے شروع ہو گا اور آٹھ بجے تک ختم ہو گا۔۔۔ جس جوابی کارروائی کی وزیر اعظم میٹنگ میں پہلے ہی اجازت دے چکے تھے تو ہمارا آپریشن شروع ہوا۔‘
وزیر خارجہ نے اس موقع پر یہ بھی بتایا کہ جس وقت نور خان ایئر بیس پر حملہ ہوا تھا تو وہ ابھی ابھی اپنے گھر پہنچے ہی تھے۔ ’میں ابھی اس میٹنگ کے بعد گھر پہنچا ہی تھا کہ مجھے اطلاع ملی۔ تو میں دفتر واپس آیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 22 اپریل کو پہلگام پر حملے کے بعد سے ان کی ٹیم رات 10، 10 بجے تک دفاتر میں ہی موجود ہوتی تھی۔ اسحاق ڈار کے بقول چھ مئی سے پہلے اور چھ مئی کے بعد ان کی عالمی رہنماؤں کے ساتھ 60 سے زیادہ کالز ہوئی تھیں۔
اس سے قبل 17 مئی کو وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک تقریر کے دوران بتایا تھا کہ چھ اور سات مئی کی درمیانی شب وہ سوئمنگ کر رہے تھے اور احتیاطاً اس روز وہ اپنا سیکیور فون ساتھ لے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے عملے کو ہدایت کی تھی کہ اگر کوئی گھنٹی بجے تو انھیں فوراً بتایا جائے۔ ’وہ گھنٹی بجی تو جنرل عاصم منیر لائن پر تھے۔ کہنے لگے کہ وزیر اعظم ہم نے انھیں بھرپور جواب دیا ہے۔ اب ہمیں سیز فائر کرنے کی درخواست آ رہی ہے۔‘