ایوری کی پالیسی کے مطابق ڈرائیور پارسل حوالے کرتے وقت صارف کی تصویر لیتا ہے۔ یہ ڈرائیور بھی معمول کے مطابق یہی کرنے کے لیے وہاں موجود تھا لیکن جب دوسری طرف سے دروازہ کھلا تو ایلی 'گیلا بدن لیے تولیہ لپیٹ کر' باہر نکل آئیں۔
                    
ایلی جونسن اپنے باتھ روم میں نہا رہی تھیں جب ایک پارسل کی ڈیلیوری کرنے والے نے اُن کے گھر کی گھنٹی بجائی۔
پارسل کی ترسیل کرنے والی کمپنی ’ایوری‘ کی پالیسی کے مطابق پارسل مطلوبہ شخص کو حوالے کرتے وقت اس کی تصویر لی جاتی ہے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کے پارسل اپنی منزل مقصود پر پہنچایا جا چکا ہے۔ 
اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ڈیلیوری وین کا ڈرائیور ایلی کے گھر کے باہر موجود تھا لیکن جب دوسری طرف سے دروازہ کُھلا تو ایلی ’گیلے بدن پر تولیہ لپیٹ کر‘ باہر نکل آئیں۔
اور اسی حلیے میں ڈرائیور نے دروازے کی چوکھٹ پر اُن کی ’عجیب‘ سی تصویر لے لی۔
ایلی نے 14 اکتوبر کو پیش آئے اس واقعے کے حوالے سے ایک ویڈیو شیئر کی اور بتایا کہ وہ ابتدائی طور پر ’غصے‘ میں آ گئی تھیں مگر بعدازاں ڈرائیور کی جانب سے لی گئی تصویر دیکھ کر وہ ’ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ‘ ہو گئیں۔
اُن کی یہ ویڈیو اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر وائرل ہے اور اسے ہزاروں مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی اس ویڈیو کو آئی ٹی وی کے شو ’لوز ویمن‘ میں بھی کوریج ملی ہے۔
ایلی کہتی ہیں کہ انھیں ’ہر وقت‘ پارسل موصول ہوتے رہتے ہیں لیکن عام طور پر ڈیلیوری کرنے والے یہ پارسل اُن کے دروازے پر ہی چھوڑ جاتے ہیں جنھیں بعد میں وہ اٹھا لیتی ہیں اور پارسل کے یوں دروازے پر چھوڑ جانے پر وہ خفا بھی ہوتی تھیں۔
لیکن اس مرتبہ ڈیلیوری وین کا ڈرائیور کمپنی کی پالیسی کے مطابق مستقل اُن کے گھر کا دروزاہ کھٹکھٹا رہا تھا۔
وہ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میں اُس وقت سوچ رہی تھی کہ مجھے باتھ روم سے باہر نکل کر درازہ کھولنا پڑے گا کیونکہ آپ کو نہیں معلوم ہوتا کہ ڈیلیوری ڈرائیور کیا کرنے والا ہے۔‘
’میں نے پھر دروازہ کھولا، ڈرائیور میری طرف نہیں بلکہ اپنے موبائل کی طرف دیکھ رہا تھا اور آنکھیں ملائے بغیر مجھے پارسل پکڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔‘
ایلی کہتی ہیں کہ ’اس (ڈرائیور) نے نگاہیں اوپر اُٹھا کر دیکھا، میرا حلیہ دیکھا اور مجھے بالکل گیلا اور تولیے میں لپٹا ہوا دیکھا، میری تصویر لی اور چلا گیا۔‘
’میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئی‘
پیشے کے اعتبار سے بلاگر ایلی کے مطابق ڈیلیوری کے کچھ دیر بعد انھیں کمپنی کی طرف سے ان کی تصدیقی تصویر موصول ہو گئی جس کے فوراً بعد انھوں نے اپنے فالورز کے لیے ایک ویڈیو بنائی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے اپنی فوٹو دیکھی تو میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اُن کی ویڈیو پوسٹ پر آنے والا ردِعمل ’بالکل پاگلوں‘ والا تھا اور اسے نہ صرف ہزاروں مرتبہ دیکھا گیا بلکہ اسے روایتی ’میڈیا کی بھی توجہ‘ حاصل ہوئی۔
 ڈرائیور نے کمپنی کی پالیسی کے مطابق ایلی کی تصویر پارسل موصول کرتے ہوئے لی تھی
ڈرائیور نے کمپنی کی پالیسی کے مطابق ایلی کی تصویر پارسل موصول کرتے ہوئے لی تھیاپنے فیس بُک اکاؤنٹ پر انھوں نے لکھا کہ وہ اس ڈرائیور کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتیں۔
انھوں نے مزاقاً کہا کہ کہ ’بھلا کون اس علاقے کی سب سے معروف لڑکی کی تصویر نہیں لینا چاہے گا؟ وہ اسے ہزاروں روپے میں فروخت کر سکتے تھے۔‘
ڈیلیوری کمپنی ایوری کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ انھیں خوشی ہے کہ ایلی نے اس واقعے کے ’مزاحیہ پہلو‘ کو دیکھا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے ڈرائیور پالیسی کے تحت پارسل حوالے کرتے وقت تصاویر لیتے ہیں اور یہ تصاویر محفوظ کی جاتی ہیں، لیکن یہ تصاویر ڈرائیور کے فون میں موجود نہیں ہوتیں۔
