ایک طرف چین سرد جنگ سے وابستہ انسانی جاسوسی کے پرانے طریقوں کے روایتی فریم ورک کے اندر جاسوسی کرتا ہے اور اس کے جاسوس دنیا میں سفارت کاری کی آڑ میں کام کرتے ہیں اور راز حاصل کرنے کے لیے ملازمتیں دیتے ہیں۔ چینی انٹیلیجنس سروسز پالیسی سازوں، سرکاری عملے اور جمہوری اداروں سمیت متعدد ذرائع سے معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تقریباً ہر ملک اسی طرح سے جاسوسی کرتا ہے۔ دوسرے ممالک کے بارے میں اندر کی خبر حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ کام پہاڑوں کی عمر جتنا پرانا ہے۔

چین واقعی برطانیہ کے لیے کس قسم کا خطرہ ہے؟
یہ ایک سوال ہے جس کا سامنا ہر حکومت کو رہا ہے
اس سلسلے میں دو برطانوی شہریوں، کرسٹوفر کیش اور کرسٹوفر بیری کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر چین کے لیے جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔
دونوں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ جب گذشتہ ماہ ان کے خلاف الزامات واپس لے لیے گئے تو اس سے سیاسی منظر نامے پر عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
اس کے بعد پراسیکیوٹرز اور عہدیداروں نے اس بارے میں متضاد موقف اختیار کیا کہ آیا چین کو قومی سلامتی کے لیے فعال خطرہ قرار دینے میں ناکامی یا عدم رضامندی الزامات کو واپس لینے کا باعث بنی۔ اب تو اٹارنی جنرل لارڈ ہرمر نے کیس کے خاتمے کے لیے ’فرسودہ‘ قانون سازی کو مورد الزام ٹھہرا دیا ہے۔
لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید دنیا میں چین کی جاسوسی کیسی نظر آتی ہے۔

ایک طرف چین سرد جنگ سے وابستہ انسانی جاسوسی کے پرانے طریقوں کے روایتی فریم ورک کے اندر جاسوسی کرتا ہے اور اس کے جاسوس دنیا یں سفارت کاری کی آڑ میں کام کرتے ہیں اور راز حاصل کرنے کے لیے ملازمتیں دیتے ہیں۔
’کیش اور بیری‘ کے اب ختم ہونے والے کیس کی تحقیقات کرنے والے پراسیکیوٹرز کے نائب قومی سلامتی کے مشیر کے گواہ کا بیان اسی قسم کے کام کی عکاسی کرتا ہے۔
چینی انٹیلیجنس سروسز پالیسی سازوں، سرکاری عملے اور جمہوری اداروں سمیت متعدد ذرائع سے معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور وہ ایسے مواقعے کو خوب استعمال کرتے ہوئے جتنا ممکن ہوتا ہے وہ معلومات حاصل کر سکتی ہے۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تقریباً ہر ملک اسی طرح سے جاسوسی کرتا ہے۔ دوسرے ممالک کے بارے میں اندر کی خبر حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ کام پہاڑوں کی عمر جتنا پرانا ہے۔
برطانیہ چین کے خلاف اس قسم کی جاسوسی کرتا ہے جیسا کہ چین نے خود عوامی سطح پر اس متعلق شکایت کی ہے۔ جب ممالک پکڑے جاتے ہیں تو عام طور پر عوامی تنازع پیدا ہوتا ہے لیکن ہر فریق جانتا ہے کہ یہ ایک معمول کا کام ہے۔ لیکن چین کا طرز عمل اس سے کچھ بڑھ کر ہے جو سکیورٹی حکام کو پریشان کرتا ہے۔
ایم آئی 5 کے سربراہ سر کین میک کالم نے رواں ماہ کے اوائل میں قومی سلامتی کے خطرات کے بارے میں بریفنگ کے دوران کہا کہ ’کوشش کریں کہ جان لی کیری کے ناول کے کردار جیسے سفارت خانے سے باہر موجود ’روایتی کارڈ‘ لے جانے والے جاسوسوں کے بارے میں زیادہ فکرمند نہ ہوں۔‘
ان کے مطابق جو چیز واقعی چین کو ایک نئی جگہ پر لے کر جاتی اور جو اصل مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ چین کو قومی سلامتی کے خطرات جاسوسی کے روایتی تصورات سے بالاتر ہیں۔
کچھ خطرات اس وجہ سے بھی مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب بہت سے لوگ اس رائے سے متفق ہوتے ہیں کہ ہمیں چین کے ساتھ بات چیت اور تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

چین کی معاشی طاقت ترقی برطانیہ کے لیے بھی ممکنہ طور پر بہت اہمیت کی حامل ہے جو معاشی پیداوار کے لیے بہت بے چین ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ لیبر پارٹی چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، اس سے وابستہ خطرات سے آگاہ رہتے ہوئے ان تعلقات کو منافع بخش بنانا ایک مشکل کام ہے جس نے حکومتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔
بڑھتے سیاسی اثر و رسوخ سے متعلق تحفظات
سکیورٹی امور پر کام کرنے والے چینی انٹیلیجنس اہلکاروں کی تعداد کچھ اندازوں کے مطابق پانچ لاکھ تک بنتی ہے جو ملک اور بیرون ملک فعال ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں چین بڑے پیمانے پر بیرون ملک اپنے ان اہلکاروں کو تعینات کر سکتا ہے۔
ہر ملک اپنی انٹیلیجنس سروسز کو مختلف طریقے سے استعمال کرتا ہے، جس سے اس ریاست کی ترجیحات کا علم ہوتا ہے۔ چین میں اولین ترجیح کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔
عملی طور پر اس کا مطلب بیرون ملک سیاسی بحث پر اثر انداز ہونا، مخالفین کا تعاقب کرنا، بڑے پیمانے پر ڈیٹا اکٹھا کرنا اور اندرون ملک معاشی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔

برطانیہ میں، چینی سیاسی اثر و رسوخ کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ایم آئی 5 نے جنوری 2022 میں ایک مبینہ چینی ایجنٹ کرسٹین لی کی سرگرمیوں کے بارے میں ’انٹرفیرنس الرٹ‘ (کسی بھی مقام پر داخلے کا انتباہ) جاری کیا تھا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں گھس گئی تھیں۔
کرسٹین لی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ بعد ازاں انھوں نے ایم آئی 5 کے خلاف ناکام قانونی چارہ جوئی کی اور ایک ٹریبونل کو بتایا کہ ان کے بارے میں خفیہ ایجنسی کا الرٹ ایک ’سیاسی مقصد‘ ہے۔
ایم آئی 5 نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ بیجنگ اپنے کریئر کے ابتدائی مراحل میں مقامی سیاستدانوں کو مزید سینیئر عہدوں تک پہنچانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ایجنسی کے مطابق اس صبر آزما طویل دورانیے کی حکمت عملی کا مقصد برطانیہ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔

یہاں، مقصد راز چوری کرنا یا معلومات حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ سیاسی بحث کو پراگندا کرنا تھا۔ اگر بااثر عہدوں پر چین کے منظور نظر لوگ ہوں گے پھر وہ مسائل اور عالمی منظر نامے سے متعلق چین کی حمایت والا نقطہ نظر اختیار کریں گے۔
ایک اور چیز جو برطانیہ کے سکیورٹی حکام کو پریشان کرتا ہے وہ ہے چین کا اپنے ناقدین کی جاسوسی کا رجحان، جسے بین الاقوامی جبر کے نام سے جانا جاتا ہے، جو برسوں سے چینی انٹیلیجنس کا بنیادی ہدف رہا ہے۔ اس میں تبتی مہم چلانے والوں جیسے گروہوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
لیکن بیجنگ کی پابندی کے بعد ہانگ کانگ سے بہت سے نوجوان جمہوریت نواز کارکنوں کی برطانیہ آمد نے ایسے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
ایم آئی 5 کے مطابق ہانگ کانگ پولیس نے یہاں برطانیہ میں ایک درجن سے زیادہ جمہوریت نواز کارکنوں کے سر کی قیمت مقرر کر دی ہے جس سے انھیں ہراساں کرنے اور نگرانی کی اطلاعات میں اضافہ ہوا ہے۔
بیجنگ نے ہمیشہ جاسوسی کے الزامات کو چین کو ’بدنام‘ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
اس سے قبل لندن میں چینی سفارت خانے نے کہا تھا کہ چین کبھی بھی دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور ہمیشہ سر عام اور شفاف انداز میں کام کرتا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں جاری ہونے والے ایک بیان میں اس نے مزید کہا کہ ’برطانیہ کی طرف سے نام نہاد ’چائنہ جاسوسی کیس‘ مکمل طور پر من گھڑت اور خود ساختہ ہے۔ چین اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ چین کی ترقی دنیا کے لیے ایک موقع ہے اور یہ کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں۔ ہم ’جاسوسی کی سرگرمیوں‘ کے بے بنیاد الزامات لگا کر یا نام نہاد ’چین کی دھمکی‘ گھڑ کر چین کو بدنام کرنے کی کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔
جدید ترین سائبر جاسوسی
اس کے باوجود کچھ بڑے پیمانے پر سائبر آپریشنز سے چین کا تعلق جوڑا گیا ہے۔ اس میں سے کچھ جاسوسی کے جدید تصورات سے متعلق ہے جس کا مقصد راز چوری کرنا ہوتا ہے۔
گذشتہ برس بیجنگ پر ارکان پارلیمنٹ کی ای میلز کو ہیک کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم رشی سونک نے بیجنگ کو باضابطہ طور پر ’خطرہ‘ قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’چین ہماری سلامتی کے لیے ایک معاشی خطرہ اور ایک عہد کا تعین کرنے والا چیلنج ہے‘۔
اس کے بعد اگست میں برطانیہ نے آخر کار انکشاف کیا کہ اسے سالٹ ٹائفون نامی ایک انتہائی جدید جاسوسی مہم کے دوران ہدف بنایا گیا تھا، جس نے دنیا بھر کی ٹیلی کام کمپنیوں کو ہدف بنایا تھا۔
برطانیہ اس بارے میں خاموش رہا کہ کس ہدف کو یا چیز کو نشانہ بنایا گیا۔ برطانیہ نے صرف ایک درجن دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اور رازداری میں مشاورت کے بعد یہ بات کی کہ اسے کیا کہنا چاہیے۔

برطانیہ کے نیشنل سائبر سکیورٹی سنٹر نے ایک بیان میں متنبہ کیا ہے کہ اس سرگرمی کے ذریعے چوری ہونے والا ڈیٹا بالآخر چینی انٹیلیجنس سروسز کو دنیا بھر میں اہداف کے مواصلات اور نقل و حرکت کی شناخت اور ٹریک کرنے کی صلاحیت فراہم کر سکتا ہے۔
امریکہ نے اس معاملے پر کئی ماہ پہلے بات کی تھی، اور وہاں یہ اطلاع ملی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس سمیت سینیئر سیاستدانوں کو 2024 کے انتخابات کے دوران ان کے مواصلات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اعداد و شمار کی ایک ’تشویشناک‘ مسابقت
اب برطانیہ میں لندن میں سابق رائل ٹکسال کی عمارت میں نئے چینی سفارت خانے کے منصوبوں نے ان خدشات کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے کہ یہ زیر زمین ڈیٹا کیبلز کو ٹیپ کر کے جاسوسی کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔
لیکن کچھ سکیورٹی حکام ان خطرات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ ان کیبلز کو جسمانی طور پر محفوظ اور نگرانی کی جاسکتی ہے بلکہ بیجنگ کی بڑے سائبر جاسوسی کی صلاحیت پر وہ سوال اٹھاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ چین نے خود کو ریموٹ سائبر رسائی کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی مکمل صلاحیت ظاہر کی ہے۔
تاہم ، اس طرح کا ہدف بنانا اب بھی روایتی ریاست پر جاسوسی اور مغربی حکومتیں جس طرح کی انجام دیتی ہیں اس کے اندر وسیع پیمانے پر بیٹھتی ہے۔

در حقیقت یہ سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے برطانیہ اور امریکہ کی ڈیجیٹل جاسوسی کے پیمانے کے بارے میں انکشافات تھے جس میں کہا گیا تھا کہ چین کو سائبر سپیس میں زیادہ آگے بڑھنے کی شدید خواہش ہے۔
لیکن سائبر سپیس میں اصل تشویش اس سے کہیں زیادہ ہے۔
آن لائن چینی انٹیلیجنس کی سرگرمی کے بارے میں جو بات قابل ذکر ہے وہ بڑے پیمانے پر اعداد و شمار کی بھوک ہے۔ بیجنگ کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈیٹا سیٹ جس میں مالی، ذاتی، صحت یا دیگر قسم کی معلومات شامل ہو سکتی ہیں، اس کا تعاقب مغربی سکیورٹی حکام کو خوفزدہ کرتا ہے۔
برطانیہ کے نیشنل سائبر سکیورٹی سینٹر کے سابق سربراہ سیارن مارٹن کا کہنا ہے کہ ’چین برطانوی عوام کے بارے میں آبادی کی سطح کے اعداد و شمار جمع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

یہ مصنوعی ذہانت کو تربیت دینے یا ملک کو بہتر طور پر سمجھنے یا رائے پر اثر انداز ہونے یا ممکنہ طور پر انفرادی اور اجتماعی طور پر ہماری کمزوریوں پر کام کرنے کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔
’یہ ہمیشہ مؤثر طریقے سے انجام نہیں دیا جاتا ہے لیکن یہ حکومت اور سیاست کی ’معمول‘ کی جاسوسی سے بہت مختلف ہے جو تقریباً تمام ممالک کرتے ہیں۔
’اس لحاظ سے، چین صرف اس لیے قابل ذکر ہے کہ اس کی جاسوسی کبھی کبھی بہت ہی عجیب نوعیت کی ہوتی ہے۔‘
اس میں سے کچھ ڈیٹا چوری ہو جاتا ہے لیکن بعض اوقات یہ مغربی مارکیٹ تک رسائی رکھنے والی چینی کمپنیوں کے ذریعے کیے جانے کا شبہ ہوتا ہے۔
’ماہرین تعلیم کو راغب کرنے‘ کی کوششوں کا سلسلہ
جب چین کی بات آتی ہے تو قومی سلامتی کے عہدیداروں کے لیے ایک عنصر سب سے مشکل ہے: چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے خطرات اور فوائد کو کس طرح متوازن کیا جائے۔
چینی ریاست اور اس کے جاسوسوں کی ترجیح معاشی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔
مبصرین اکثر ایک قسم کی غیر واضح ’بارگین‘ کی طرف اشارہ کرتے ہیں: چینی عوام اس وقت تک سیاسی آزادی کی کمی کو برداشت کریں گے جب تک ریاست انھیں نسبتاً معاشی فوائد فراہم کرتی رہے گی۔
یہی وجہ ہے کہ چین کئی دہائیوں سے معاشی اور سیاسی اور سفارتی رازوں کو اس طرح تلاش کرنے میں سرگرم ہے جس طرح مغربی ممالک ابھی تک نہیں کر سکے۔
بعض اوقات یہ کمپنیوں کے کاروباری راز ہوتے ہیں، چاہے وہ نئی مصنوعات کے ڈیزائن ہوں یا کچھ اور بات چیت ہو۔
حساس معلومات کی اقسام ہیں اور کچھ ایسی ہوتی ہیں جنھیں ریاستی راز نہیں کہا جا سکتا جیسے کسی یونیورسٹی میں ایک نئے جدید مواد میں ہائی ٹیک تحقیق، جس میں فوجی اور سویلین ایپلیکیشنز ہوتی ہیں۔
ایم آئی 5 کا کہنا ہے کہ وہ ’برطانیہ کے تعلیمی ماہرین کو لالچ دینے کی کوششوں کے ایک مستقل سلسلے‘ سے نبرد آزما ہیں جس کا مقصد اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنا ہے جس پر کام ہو رہا ہے، جیسے ’لنکڈ ان‘ جیسی نیٹ ورکنگ سائٹس ہیں۔‘

امریکہ کے سابقہ انٹیلیجینس اہلکار اینڈریو بیجر کا کہنا ہے کہ ’ایک ایسی دنیا میں جہاں فوجی اور معاشی طاقت کا ’ڈی این اے‘ ڈیجیٹل معلومات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے جب بنیادی دانشورانہ املاک اور اس سے متعلق علم دوسروں تک پہنچتا ہے تو پھر ایسے میں پوری صنعتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور ان کے ساتھ ملازمتوں، سرمائے کے اور جغرافیائی سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘
ان کی کتاب بھی جلد شائع ہونے جا رہی ہے جس کا عنوان ’دی گریٹ ہیسٹ: چائناز اِپک کمیمپین ٹو سٹیل امریکاز سیکرٹس‘ ہے۔
جاسوسوں کے خلاف مقدمہ چلانے، قوانین کو مضبوط بنانے اور تجارت کو سکیورٹی کے ساتھ متوازن کرنے کے بارے میں برطانیہ کی موجودہ بحث اس تاریخی سچائی سے شروع ہونی چاہیے: معاشی طاقت صرف رازوں کو محفوظ بنا کر ہی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔‘
سب سے مشکل خطرہ
جیسے جیسے چین کی معاشی طاقت بڑھ رہی ہے، خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی میں، سب سے مشکل خطرات میں سے ایک برطانیہ اور دیگر مغربی ریاستوں کا اہم شعبوں میں چین پر انحصار ہے، جس میں الیکٹرک گاڑیاں اور مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والی اہم معدنیات شامل ہیں۔
اس نے چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کے بارے میں بحث کو جنم دیا کہ وہ ملک کے نئے 5 جی فون انفراسٹرکچر کا ایک بڑا حصہ بنا رہی ہے۔
چینی سامان سستا تھا اور اکثر حریفوں کے مقابلے میں بہتر سمجھا جاتا تھا لیکن کیا اس میں خطرات تھے؟

یہ جاسوسی کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں کم تھا اور اس سے زیادہ حقیقت یہ تھی کہ ٹیکنالوجی کے لیے کسی دوسرے ملک پر انحصار کا تعلق جس پر روزمرہ کی زندگی کا انحصار ہے پھر آپ پر اثر انداز ہونے کا باعث بنتا ہے اور حتیٰ کہ یہ جبر کا رستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر آپ کچھ کرتے ہیں یا کچھ کہتے ہیں جو بیجنگ کو پسند نہیں ہے تو کیا یہ آپ سے قطع تعلقی کر سکتا ہے۔
آخر میں ہواوے کی ٹیکنالوجی، جس نے ہمیشہ اس سے انکار کیا کہ یہ سکیورٹی رسک ہے کو فائیو جی کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ لیکن یہ صرف پہلی چینی کمپنی تھی جو عالمی سطح پر گئی اور اب دیگر بہت سی کمپنیاں بھی ہیں۔
تو کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ چین نئے جوہری ری ایکٹر بناتا ہے؟ یا گرین ٹیکنالوجی کا اہم سپلائر بن جاتا ہے؟ اور اگر لوگ اپنی خبروں اور معلومات کے لئے چینی نژاد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر انحصار کرتے ہیں تو کیا ہوگا؟
یہاں معاشی ترقی کے ایجنڈے کے ساتھ کشیدگی سب سے زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، ایک اہم برآمدی منڈی اور سرمایہ کاری کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم اس تعلقات کے فوائد کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو پھر چینی کمپنیوں کو برطانیہ کی مارکیٹ سے نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
چینی ٹیکنالوجی یا کمپنیوں پر کسی بھی قسم کی مکمل پابندی مضحکہ خیز ہوگی۔ لیکن ہمیں کتنی وسعت دینی چاہیے؟

برطانیہ کے لیے دوسرا چیلنج یہ ہے کہ ایسے بہت سے پہلو جہاں معاشی اور قومی سلامتی آپس میں مل جاتے ہیں تو پھر کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے امریکہ سخت موقف اختیار کر رہا ہے اور واشنگٹن لندن پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے۔
اس سے لندن بیجنگ اور واشنگٹن کے دباؤ کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے اور اس بات پر کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ان خطرات سے کیسے نمٹا جائے جبکہ پیداواری تعلقات کو بھی برقرار رکھا جائے۔
اس میں سے کوئی بھی آسان نہیں ہے اور اس کا زیادہ تر تعلق روایتی جاسوسی سے نہیں ہے۔ اس نئی دنیا میں خطرات بہت وسیع اور زیادہ پیچیدہ ہیں۔
لیکن چین کی ایک واضح اور مستقل حکمت عملی کے بغیر جس کا اعتماد کے ساتھ اظہار کیا جاتا ہے، پچھلی حکومتوں کی طرح اس حکومت کو بھی یہ جاننا مشکل ہو جائے گا کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔