مصر کے وزیرِاعظم مصطفیٰ مدبولی کے مطابق یہ عجائب گھر مصر کا ’دنیا کے لیے تحفہ‘ ہے۔ اس کا مقصد مصری ثقافت کی عظمت اور اثر و رسوخ کو اجاگر کرنا اور ملک کی کمزور معیشت کو سہارا دینا ہے۔
مصر کے گرینڈ میوزیم کا فضا سے منظر قدیم دنیا کے جھلک دکھاتے آخری باقی ماندہ عجوبے مصر میں اہرامِ جیزہ کے سائے میں تعمیر ہونے والا ’گریٹ ایجیپشن میوزیم‘ بالآخر دنیا کے لیے اپنے دروازے کھولنے جا رہا ہے۔
یہ مقام 120 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جو فرانس کے مشہور لوور میوزیم سے دو گنا بڑا ہے۔ یہاں تقریباً 70 ہزار سے لے کر ایک لاکھ نوادرات کی نمائش کی جائے گی۔ ان نوادرات میں کئی وہ خزانے بھی شامل ہیں جو نوعمر بادشاہ طوطن خامن (Tutankhamun) کے مقبرے سے ملے تھے اور انھیں پہلے بھی کبھی عوام کے سامنے نمائش کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔
اس منصوبے کا اعلان 2002 میں کیا گیا تھا اور 2012 میں اس کا افتتاح متوقع تھا مگر لاگت، سیاسی عدم استحکام، کووِڈ-19 کی وبا اور خطے کے تنازعات کے باعث بار بار تاخیر کا شکار ہوتا رہا۔
اس عظیم منصوبے پر تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر لاگت آئی ہے جس کا بڑا حصہ جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (JICA) کے قرضوں سے پورا کیا گیا۔
سربستہ رازوں اور علم سے بھرپور سرزمین
قاہرہ یونیورسٹی کی پروفیسر سلیمہ اکراممصر کے وزیرِاعظم مصطفیٰ مدبولی کے مطابق یہ عجائب گھر مصر کا ’دنیا کے لیے تحفہ‘ ہے۔ اس کا مقصد مصری ثقافت کی عظمت اور اثر و رسوخ کو اجاگر کرنا اور ملک کی کمزور معیشت کو سہارا دینا ہے۔
قاہرہ یونیورسٹی کی پروفیسر سلیمہ اکرام کہتی ہیں کہ ’قدیم مصر ہر ایک پر جادو کر دیتا ہے۔ حتیٰ کہ یونانی، رومی اور فیونیشی (Phoenicians) کی قدیم تہذیبیں بھی مصر کو راز اور علم کی سرزمین سمجھتی تھیں۔‘
عجائب گھر کا ایک اور مقصد آج کے دور کے مصریوں کو اپنی قدیم وراثت سے دوبارہ جوڑنا ہے۔
پروفیسر سلیمہ اکرام کے مطابق ’یہ منصوبہ قومی فخر کے ایک عظیم احساس کو جنم دے گا، جو قدیم مصر کو روزمرہ زندگی اور انفرادی مصریوں کے قومی بیانیے کا حصہ بنا دے گا۔‘
اس میوزیم کی افتتاحی تقریب آج یکم نومبر 2025 کو منعقد ہوگی۔ تقریب میں دنیا بھر سے تقریباً 60 عالمی رہنما شرکت کریں گے جن میں جرمن صدر فرینک والٹر اور بیلجئم کے بادشاہ فلپ شامل ہیں۔
اس دن کی اہمیت کے پیش نظٌر مصر میں عام تعھیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ یہ تاریخی لمحہ ٹک ٹاک پر براہِ راست نشر کیا جائے گا جبکہ گورنریٹ کےنمایاں عوامی مقامات پر بڑی سکرینوں پر بھی دکھایا جائے گا۔
طوطن خامن کے نادر نودارات

برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ ہاورڈ کارٹر نے جب 1922 میں طوطن خامن کی گمشدہ قبر دریافت کی تو اس کم عمر بادشاہ نے پوری دنیا کے دل موہ لیے۔
اور اب کئی دہائیوں تک دنیا کے مختلف شہروں میں نمائش کے بعد ان کا سنہری نقاب، تخت اور 5,000 سے زائد ان کے ساتھ دفن ہو جانے والے ان خزانوں کو پہلی بار مکمل طور پر ایک ہی جگہ پر پیش کیا جا رہا ہے جو اس سے قبل دنیا کی نظروں سے اوجھل تھے۔
پروفیسر سلیمہ اکرام کہتی ہیں کہ ’طوطن خامن کی قبر کی تمام اشیا کو ایک جگہ دیکھنا ایک شاندار تجربہ ہوگا۔‘
مانچسٹر میوزیم کے مصر اور سوڈان کے کیوریٹر ڈاکٹر کیمبل پرائس نے پہلے ہی گرینڈ مصری میوزیم کا دورہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ آئندہ زیادہ تر سیاح طوطن خامن کی گیلریوں پر توجہ مرکوز کریں گے اور باقی عجائب گھر آرٹ کے دلدادہ مداحوں کے لیے رہ جائے گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مرکزی گیلریاں بھی نہایت دلکش ہیں جہاں ہر شے بہترین آرائش کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرتی دکھائی دے رہی ہے۔‘
’میرا دل مطمئن اور خوشی سے بھر گیا، یہ واقعی روح کو تسکین دینے والا تجربہ تھا۔‘
رامسس دی گریٹ کا 3,200 سال سے زیادہ پرانا مجسمہ یہاں لانے سے قبل 51 سال تک قاہرہ کے مرکزی ٹرین سٹیشن کے سامنے کھڑا رہا بادشاہ طوطم خامن کے قیمتی نوادرات کے ساتھ ساتھ دیگر اہم تاریخی اشیا بھی نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں جن میں سب سے نمایاں رامسیس دی گریٹ (Ramesses the Great) کا 3200 سال پرانا دیوقامت مجسمہ ہے جو مرکزی ہال میں یہاں آنے والے مہمانوں کا استقبال کرتا ہے۔
یہ مجسمہ اور اس جیسے دیگر کئی نوادرات، جن کی تاریخ 7000 قبل مسیح تک جاتی ہے، اپنے اندر ایک رنگا رنگ اور طویل سفر کی داستان سمیٹے ہوئے ہیں۔
یہ مجسمہ قاہرہ کے مرکزی ریلوے سٹیشن کے سامنے 51 برس تک نصب رہا، اس کے بعد اس مجسمے کو گرانڈ ایجپشین میوزیم میں منتقل کیا گیا مگر منتقلی کے دوران شہر کی سڑکوں پر جلوس کی شکل میں اس کا استقبال کیا گیا۔
عجائب گھر میں ایک خصوصی حصہ کنگ خوفو کی شمسی کشتی کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے۔ 4600 سال پرانے اس جہاز کا شمار دنیا کے قدیم ترین اور بہترین محفوظ شدہ بحری جہازوں میں شمار ہوتا ہے۔
مصر کے وراثت کو دوبارہ زندہ کرنا
مصر کے ماہر زاہی حواس نے گرینڈ مصری میوزیم کے لیے ابتدا سے ہی فنڈ اکٹھا کرنے اور اسے فروغ دینے میں مدد کی مصر کے انڈیانا جونز کے نام سے پہچان رکھنے والے معروف ماہرِ آثارِ قدیمہ زاہی حواس کے نزدیک اس عجائب گھر کا افتتاح صرف خزانوں کی نمائش نہیں بلکہ طاقت کے لطیف مظہر اور مصر کی وراثت کو واپس لینے کا اعلان ہے۔
زاہی حواس کہتے ہیں کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ہی آثار کے ماہرین بنیں۔ شاہوں کی وادی میں 64 شاہی قبریں دریافت ہوئیں لیکن ان میں سے ایک بھی قبر مصریوں نے خود نہیں کھودی۔‘
زاہی حواس واضح کرتے ہیں کہ طوطن خامن کے مقبرے سمیت مصر کی زیادہ تر بڑی دریافتیں تقریباً تمام کی تمام غیر ملکی ماہرینِ آثار قدیمہ نے کیں۔
وہ طویل عرصے سے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مصریوں کو اپنی وراثت کے مطالعے اور تحفظ میں خود قیادت کرنی چاہیے اور انھوں نے خود اپنی زندگی اسی مقصد کے لیے وقف کر دی ہے۔
لکسور کے آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عبدالغفار وجدی بھی اس بات سے متفق ہیں کہ یہ عجائب گھر اسی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’2002 کے بعد سے مصر میں آثارِ قدیمہ کے علم نے ایک نیا اور متحرک دور اختیار کیا ہے۔ اب مصری ماہرین اور محافظین نہ صرف اپنی تاریخ کا احساسِ ملکیت رکھتے ہیں بلکہ بڑی بڑی کھدائیوں اور ورثے کے منصوبوں کی قیادت بھی خود کر رہے ہیں۔‘
اگرچہ یہ عجائب گھر تمام مصریوں کے لیے بنایا گیا ہے،لیکن کچھ لوگوں کے لیے داخلے کی قیمت رکاوٹ بن سکتی ہے۔
مصریوں کے لیے ایک بالغ شخص کا ٹکٹ 200 مصری پاؤنڈ (تقریباً 4 ڈالر) ہے جو غیر ملکیوں سے وصول کیے جانے والے 1200 پاؤنڈ (تقریباً 25 ڈالر) کے مقابلے میں تو بہت کم ہے مگر مقامی لوگوں کے لیے پھر بھی مہنگا سمجھا جاتا ہے۔
پروفیسر سلیمہ اکرام کہتی ہیں کہ ’آپ صرف مُردوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے، زندوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ عجائب گھر سب کے لیے ہے، اگرچہ بعض مصریوں کے لیے ٹکٹ کی قیمت کچھ زیادہ ہے۔‘
آثارِ قدیمہ کے ایک نئے دور کا آغاز

زاہی حواس کے گرینڈ مصری میوزیم کے افتتاح کو صرف ماضی کے تحفظ ہی قرار نہیں دیتے بلکہ وہ اسے مصر کے مستقبل کو دریافتوں کے مرکز کے طور پر مستحکم کرنے کا بھی ایک فیصلہ کن لمحہ سمجھتے ہیں۔
عجائب گھر کی شاندار گیلریوں کے علاوہ،اس کے احاطے میں علاقے کی جدید ترین تحقیقاتی لیبارٹریاں بھی قائم کی گئی ہیں جہاں مصری اور بین الاقوامی ماہرین آنے والے کئی عشروں تک نئی دریافتوں، بحالی اور تحقیق کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
زاہی حواس کہتے ہیں کہ ’میں اس وقت لکسور کی شاہوں کی وادی اور سقّارہ میں کھدائی کر رہا ہوں۔ ہم نے اب تک اپنے آثار کا صرف 30 فیصد دریافت کیا ہے اور ابھی بھی 70 فیصد خزانے ریت کے نیچے چھپے ہوئے ہیں۔‘
اب جبکہ ایک جانب آثارِ قدیمہ کے اس نئے دور کے آغاز میں جہاں وسیع و عریض ہالوں پر مبنی گرینڈ عجائب گھر عوام کے لیے اپنے دروازے کھول رہا ہے وہیں مصر کے کئی عظیم ترین خزانے ابھی بھی اس کے صحراؤں کے نیچے دفن ہیں۔