یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا پر 50 فیصد محصولات عائد کیے جانے کے بعد تناؤ میں کمی کی کوششیں ہوئی ہیں۔ ادھر پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انڈیا اور امریکہ کے درمیان نئے دفاعی فریم ورک کے پاکستان پر اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔
فروری میں ٹرمپ اور پی ایم مودی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران دفاع بھی بحث کا ایک اہم موضوع تھا۔انڈیا اور امریکہ نے اگلے 10 برسوں میں دفاعی تعاون بڑھانے کے لیے ایک فریم ورک پر اتفاق کیا ہے۔
اس معاہدے کا اعلان امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ اور انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے درمیان کوالالمپور میں ہونے والی ملاقات کے بعد کیا گیا۔
ہیگسیتھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ یہ معاہدہ ’ہم آہنگی، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی تعاون‘ اور علاقائی استحکام میں اضافہ کرے گا اور تنازعات کو بڑھنے سے روکے گا۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا پر 50 فیصد محصولات عائد کیے جانے کے بعد تناؤ میں کمی کی کوشش ہو رہی ہے۔
ٹرمپ کے محصولات میں روسی تیل اور ہتھیاروں کی خریداری پر عائد 25 فیصد جرمانہ بھی شامل ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس معاہدے کے بارے میں لکھا ’یہ ہماری پہلے سے مضبوط دفاعی شراکت داری میں ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ دفاع ہمارے دو طرفہ تعلقات کا ایک اہم ستون رہے گا۔ ہماری شراکت داری ایک آزاد، کھلے اور قواعد پر مبنی ہند بحرالکاہل خطے کو یقینی بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔‘
راجناتھ سنگھ نے کہا کہ یہ دفاعی فریم ورک ہندوستان-امریکہ دفاعی تعلقات کے تمام پہلوؤں کو پالیسی سمت فراہم کرے گا۔ انھوں نے اس شراکت داری کو دونوں ممالک کے درمیان ایک نیا آغاز قرار دیا۔
اس معاہدے کے حوالے سے پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اور انڈیا کے درمیان دفاعی معاہدہ ایک تازہ پیش رفت ہے۔ ’جنوبی ایشیا میں امن، سلامتی اور استحکام پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے ہم معاہدے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔‘
انڈیا اور امریکہ نے دس سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی تنازع
بی بی سی نیوز کی نامہ نگار شرلین مولان نے اس بارے میں یوریشیا گروپ کے تھنک ٹینک کے پرمیت پال چوہدری سے سوال کیا۔
ان کا کہنا تھا ’یہ معاہدہ رواں برس جولائی اگست میں مکمل ہونا تھا لیکن پاکستان کے ساتھ تنازع ختم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کے بیانات پر انڈیا کی ناراضی کے باعث اس میں تاخیر ہوئی۔‘
چوہدری نے کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی سیریز میں تازہ ترین ہے۔
وہ کہتے ہیں ’اس سے دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان رابطہ بڑھے گا، انڈیا کی ٹیکنالوجی تک رسائی ہو گی اور دونوں فوجوں کے لیے دفاعی شعبے میں مل کر کام کرنا آسان ہو جائے گا۔‘
اس کا مطلب ہے کہ اس سے ان تینوں شعبوں میں مزید امکانات پیدا ہوں گے۔
انڈیا اور امریکہ حالیہ دنوں میں مسلسل اپنے دفاعی تعلقات کو بڑھا رہے ہیں۔
اس سال فروری میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران ٹرمپ کے ساتھ ان کی بات چیت میں دفاع کا مسئلہ نمایاں طور پر زیر بحث آیا۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ انڈیا کو فوجی سازوسامان کی فروخت میں کئی بلین ڈالر کا اضافہ کرے گا، جس سے انڈیا کے لیے ایف-35 سٹیلتھ لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
لیکن اس کے بعد سے انڈیا کی طرف سے سستے روسی تیل کی خریداری اور روس کے ساتھ اس کے دیرینہ دفاعی تعلقات ٹرمپ انتظامیہ کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
’ٹرمپ کچھ بھی کہیں، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات بڑھتے رہیں گے‘
اس معاہدے کی تفصیلات جاننے کے لیے بی بی سی ہندی کے ایڈیٹر نتن سریواستو نے تائیوان-ایشیا ایکسچینج فاؤنڈیشن کی ریسرچ فیلو ثنا ہاشمی سے بات کی اور ان سے پوچھا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ کتنا اہم ہے؟
ثنا ہاشمی نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ہم ٹرمپ کی ٹویٹس یا ان کی سوشل میڈیا سرگرمی کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ اس بنیاد پر ہم انڈیا امریکہ تعلقات کا اندازہ لگا رہے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑ ہے۔‘
ثنا ہاشمی کا خیال ہے کہ کسی ایک لیڈر کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر نہیں ہوتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ٹرمپ کی مدت ختم ہونے کے بعد صورتحال بدل جائے گی۔
ثنا ہاشمی کہتی ہیں کہ ’ٹرمپ چار سال بعد چلے جائیں گے‘ اور اس تناظر میں انڈیا امریکہ معاہدہ جس پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جو معاہدے ہو چکے ہیں، وہ ’بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے لیے خاص طور پر دفاعی معاملات میں انڈیا اہم ہے۔‘
دریں اثنا جمعرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ نے جنوبی کوریا میں ملاقات کی۔
چین اور امریکہ کے درمیان ٹیرف کا تنازع حالیہ دنوں میں سرخیوں میں رہا ہے اور ٹرمپ کے ٹیرف کے جواب میں چین نے بھی امریکی اشیا پر ٹیرف بڑھا دیا ہے۔
یہی نہیں، چین نے نایاب معدنیات کی برآمد پر بھی سختی کی جس کی پروسیسنگ پر اس کی تقریباً اجارہ داری ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد کہا کہ امریکہ ان تمام چیزوں پر عائد ٹیرف کو کم کرے گا جو پہلے فینٹینائل بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کی سپلائی کے بدلے میں عائد کیے گئے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ نے جنوبی کوریا میں ملاقات کی۔ثنا ہاشمی کہتی ہیں ’اگرچہ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی حال ہی میں ملاقات ہوئی ہے، لیکن ہم اب بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے تعلقات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ چین کے ساتھ مقابلے میں امریکہ کے لیے انڈیا کی اہمیت اب بھی برقرار ہے۔‘
’یہ معاہدہ، ٹیرف تنازعہ اور روس کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کے باوجود یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اب بھی انڈیا کو بہت مثبت انداز میں دیکھتا ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ٹرمپ کچھ بھی کہیں، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات بڑھتے رہیں گے۔‘
’میرے خیال میں یہ معاہدہ انڈیا سے زیادہ خود امریکہ کے لیے اہم ہے، کیونکہ چاہے بات تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین کی ہو یا خطے میں چین کی فوجی سرگرمیوں کو روکنے کی، ایسے علاقائی اتحادی امریکہ کے لیے نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘
پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اس معاہدے کے حوالے سے ایکس پر لکھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ امریکہ بار بار انڈیا کے ساتھ ایک ’بڑا دفاعی شراکت داری‘ کا معاہدہ کر رہا ہے تاکہ صرف ایک اچھا تاثر دینے والی تصویری خبریں بنائی جا سکیں۔‘
انھوں نے ایک اور پوسٹ میں کہا ’یہ کوئی نیا معاہدہ نہیں۔ 2005 میں دس سالہ معاہدہ ہوا۔ پھر 2015 میں مزید دس سال کی توسیع ہوئی۔ اور اب 2025 میں پھر دس سال کے لیے معاہدہ کیا گیا ہے لہذا پاکستانیوں کو ڈرانا بند کریں۔‘
’امریکہ اور انڈیا کے درمیان دفاعی شراکت داری کی ازسرِنو تصدیق پاکستان کی سول و عسکری قیادت میں یقیناً بے چینی پیدا کرے گی‘
موجودہ علاقائی صورتحال کے تناظر میں امریکہ اور انڈیا کے مابین 10 سالہ دفاعی فریم ورک پاکستان کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے؟
اس حوالے سے بی بی سی کی نامہ نگار منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ ’اس معاہدے کا پاکستان پر کوئی براہِ راست اثر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ صرف ایک فریم ورک معاہدہ ہے جس کے فریقین پابند نہیں ہیں اور یہ وہی سمجھوتہ ہے جس پر دونوں ممالک نے فروری میں ٹرمپ-مودی سربراہی ملاقات کے دوران عمل درآمد پر اتفاق کیا تھا۔‘
تاہم مائیکل کوگلمین کے مطابق ’اس معاہدے کے کچھ نمایاں مگر پاکستان کے لیے زیادہ مثبت نہ ہونے والے جغرافیائی و سیاسی اثرات ضرور ہیں۔‘
ان کے بقول، ’یہ حقیقت کہ یہ معاہدہ دوطرفہ کشیدگی کے باوجود طے پایا، اس بات کو واضح کرتی ہے کہ دفاعی تعاون جو کہ امریکہ-انڈیا تعلقات کا وہ پہلو ہے جو پاکستان کو سب سے زیادہ تشویش میں ڈالتا ہے، بدستور جاری ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت پاکستان کے انڈیا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں اور سرحدی صورتِ حال بھی غیر مستحکم ہے۔ ایسے میں امریکہ اور انڈیا کے درمیان دفاعی شراکت داری کی ازسرِنو تصدیق، چاہے وہ صرف ایک فریم ورک معاہدے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو، پاکستان کی سول اور عسکری قیادت میں یقیناً بے چینی پیدا کرے گی۔‘
انڈیا اور روس کے تعلقات بہت مضبوط ہیں روس انڈیا کو اسلحہ فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، پھر بھی انڈیا کی دفاعی خریداری میں اس کا حصہ مسلسل کم ہو رہا ہے کیونکہ انڈیا تنوع اور ملکی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں انڈیا نے اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکہ سے تیل اور دفاعی خریداری بڑھانے کے لیے تیار ہے۔
انڈیا اور امریکہ اس وقت ایک اہم تجارتی معاہدے پر بات چیت میں مصروف ہیں جس کا مقصد نومبر میں ایک معاہدہ کرنا ہے۔
اس سال اگست میں امریکہ نے انڈین اشیا کی درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا اور اسے روس سے تیل خریدنے کی ’سزا‘ قرار دیا تھا۔
تاہم انڈیا نے اس معاملے پر محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے گھریلو صارفین کے بہترین مفاد میں تیل خریدتا ہے۔
حالیہ دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سے کہا ہے کہ انڈیا ’بہت جلد‘ روس سے تیل کی خریداری میں نمایاں کمی کرے گا۔
انڈیا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے۔ پچھلے سال اس نے روس سے 52.7 بلین ڈالر مالیت کا خام تیل خریدا، جو انڈیا کی تیل کی کل درآمدات کا 37 فیصد ہے۔