چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ کیوں تخلیق کیا گیا اور برّی فوج کے سربراہ کو ہی یہ اضافی عہدہ دینے کی تجویز کیوں ہے؟

پیر کی شام سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے والی 27ویں آئینی ترمیم کے تحت آرٹیکل 243 میں افواج پاکستان کی کمان میں چند بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔بی بی سی نے دفاعی اُمور کے ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش ہے کہ ان مجوزہ ترامیم سے کیا تینوں مسلح افواج کے درمیان توازن متاثر ہو گا اور یہ بھی کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے کا کیا مطلب ہو گا؟

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے پیر (10 نومبر) کی شام 27ویں آئینی ترمیم کا متنازع بِل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا ہے جسے اب آئین کا حصہ بنانے کے لیے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں آج (منگل) پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

سینیٹ میں اس مجوزہ بِل کی منظوری کے دوران 64 قانون سازوں (سینیٹرز) نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ اِن 64 سینیٹرز میں پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو منحرف سینیٹرز بھی شامل ہیں جنھوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف اس قانون سازی میں حصہ لیا اور بل کے حق میں ووٹ دیا۔

اس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے شدید نعرے بازی کی اور ووٹنگ میں حصہ لیے بغیر ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کیا۔

27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے افواجِ پاکستان کی کمان میں تبدیلیوں، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کا خاتمہ اور چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ متعارف کروانے جیسی مجوزہ ترامیم بدستور عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔

وفاقی حکومت سمیت اِن مجوزہ ترامیم کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے افواج پاکستان میں فیصلہ سازی مزید مربوط ہو گی اور تینوں مسلح افواج کے درمیان ہم آہنگی بڑھے گی۔ لیکن ان ترامیم پر تنقید کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ ان ترامیم کے نتیجے میں طاقت کا توازن بری فوج (آرمی) کے حق میں ہو گا اور اس سے لامحالہ ایئر فورس اور نیوی میں بے چینی بڑھے گی۔

بی بی سی نے دفاعی اُمور کے ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش ہے کہ ان مجوزہ ترامیم سے کیا تینوں مسلح افواج کے درمیان توازن متاثر ہو گا؟ اور کیا اس سے فرد واحد کو لامتناہی طاقت مل جائے گی؟ اور یہ بھی کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے کا کیا مطلب ہو گا؟

لیکن اس سے پہلے تفصیل سے جان لیتے ہیں کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت آرٹیکل 243 میں کیا تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔

چیف آف ڈیفینس فورسز اور نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کی کمان میں تبدیلی کی تجاویز

تصویر
Getty Images

27ویں آئینی ترمیم کے تحت مسلح افواج کے سربراہان سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243 میں ترامیم تجویز کرتے ہوئے چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے اور وزیراعظم پاکستان کی ایڈوائس پر صدر مملکت آرمی چیف اور چیف آف ڈیفینس فورسز کا تقرر کریں گے۔

آرٹیکل 243 میں پیش کی گئی ایک اور ترمیم کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم کر دیا جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف، جو چیف آف ڈیفینس فورسز بھی ہوں گے، وزیر اعظم کی مشاورت سے نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ مقرر کریں گے جن کا تعلق پاکستانی فوج سے ہو گا۔

حکومت مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے افراد کو فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدے پر ترقی دے سکے گی۔ فیلڈ مارشل کا رینک اور مراعات تاحیات ہوں گی یعنی فیلڈ مارشل تاحیات فیلڈ مارشل رہیں گے۔

سینیٹ میں یہ بل پیش کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ موجودہ آرمی چیف کی خدمات اور حالیہ جنگ میں اُن کی کامیابی کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں فیلڈ مارشل کے عہدے سے نوازا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فیلڈ مارشل کا خطاب اور رینک ہے، یہ کوئی تعیناتی نہیں۔ آرمی چیف ایک تعیناتی ہے جس کی مدت پانچ سال ہے۔ مدت ختم ہونے پر وہ عہدہ چھوڑ دیتے ہیں، اگر انھیں توسیع نہ دی جائے۔‘

وزیر قانون نے کہا تھا کہ آئینی ترمیم میں فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا فلیٹ ایڈمرل کا ذکر کیا گیا۔ ’یہ قومی ہیروز ہوں گے، ساری دنیا میں یہ خطاب تاحیات ہوتے ہیں۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس عہدے اور خطاب کو آئینی تحفظ دیا گیا ہے۔ ’اس (عہدے) کا مواخذہ یا واپسی وزیر اعظم کا اختیار نہیں ہو گا بلکہ پارلیمان کا اختیار ہو گا۔۔۔‘

عاصم منیر
Reuters

چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ تخلیق کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟

بعض دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ تخلیق کرنا وقت کی ضرورت تھی کیونکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی صرف ایک علامتی عہدہ تھا۔ تاہم بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اس عہدے سے مسلح افواج میں بری فوج کا کردار مزید طاقتور ہو گا۔

دفاعیتجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ دُنیا کے دیگر ممالک میں چیف آف ڈیفینس فورسز کے عہدے کی مثالیں موجود ہے، لیکن عام طور پر فوج کے سربراہکے پاس یہ اضافی عہدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے الگ تعیناتی کی جاتی ہے۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں کہ یہ نیا عہدہ تخلیق کرنے کی ضرورت اس لیے بھی پڑی کیونکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا ہیڈ کوارٹر تینوں مسلح افواج کے درمیان صرف رابطہ کاری تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔

اُن کے بقول آپریشنز اور فوجی حکمتِ عملی طے کرنے میں عملی طور پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے آفس کا کوئی عملی کردار نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھی وجوہات کی بنیاد پر اور ملک کو درپیش چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ ایک ’یونٹی آف کمانڈ‘ ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ اس نئے عہدے کے ذریعے مسلح افواج کے نظم و نسق میں مداخلت کرنا مقصود نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر کسی معاملے میں وزیر اعظم کو بریف کرنا مقصود ہو تو تینوں مسلح افواج کی طرف سے یونٹی آف کمانڈ کے تحت فیصلے کیے جائیں۔

تاہم لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کی رائے ہے کہ ملک کے آرمی چیف کے پاس ہی چیف آف ڈیفینس کا عہدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے لیے ایک الگ فور سٹار جنرل کی گنجائش نکالنی چاہیے تھی۔

پاکستان میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کی کیا تاریخ رہی ہے؟

پاکستان میں آخری مرتبہ سنہ 1994میں ایئر فورس سے تعلق رکھنے والے ایئر چیف مارشل فاروق فیروز خان کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کیا گیا تھا تاہم اس کے بعد سے اب تک اس عہدے پر تعینات کیے جانے والے افسران کا تعلق پاکستان آرمی ہی سے رہا ہے۔

چند دفاعی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں اس عہدے پر آرمی سے تقرریاں اس لیے کی گئی تاکہ آرمی کے تھری سٹار افسران کی ترقی کا سلسلہ نہ رُکے۔

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی بنیادی ذمہ داریوں میں تینوں افواج میں رابطہ کاری، مسائل کی نشاندہی اور حل، منصوبہ بندی، رسد اور تربیت کے موضوعات پر کام، غیر ملکی افواج سے رابطے اور دفاعی تعاون وغیرہ شامل تھے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ حالیہ ترمیم کے ذریعے ختم کیے جانے والا یہ عہدہ منصوبہ بندی کے لحاظ سے اہم تھا اور مسلح افواج کو ملنے والے بجٹ کی تقسیم کا کام بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے آفس کے ہی ذمے تھا، گو کہ اس معاملے میں اُن کا فیصلہ حتمی نہیں سمجھا جاتا تھا۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں اس عہدے کی اہمیت کچھ کم ہوئی تھی لیکن پھر بھی دفاعی سودوں، جوہری ہتھیاروں کی نگرانی اور نئے جہازوں کی خریداری جیسے اہم معاملات پر بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی رائے شامل ہوتی تھی۔

کرنل (ر) انعام الرحیم پاکستان فوج کی لیگل برانچ، جسے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ یا جیگ برانچ بھی کہا جاتا ہے، سے منسلک رہے ہیں۔ اس معاملے پر وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی سے اتفاق نہیں کرتے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ’علامتی اور قومی خزانے پر بوجھ بن چکا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ سنہ 2011 میں اُنھوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس عہدے کو ختم کرنے کے لیے پٹیشن دائر کی تھی۔

تصویر
Getty Images

کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو اختیارات نہیں دیے گئے تھے۔ ’یہ صرف ایک فور سٹار جنرل تھے جو سرکاری تقریبات میں شریک ہوتے تھے یا کبھی کبھار دیگر مسلح افواج کے سربراہان سے ملاقاتیں کر لیتے تھے۔‘

کرنل (ر) انعام الرحیم نے پاکستان بحریہ کے ایڈمرل افتحار سروہی کا بھی حوالہ دیا جو سنہ 1988 سے سنہ 1991 تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ جب ایڈمرل افتحار سروہی نے یہ عہدہ چھوڑا تھا تو یہ سفارش بھی کی تھی کہ اس عہدے کو ختم کر دیا جائے کیونکہ اس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ماجد نطامی کہتے ہیں کہ سنہ 1971 کی جنگ کے بعد بننے والے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ افواج پاکستان کے درمیان موثر رابطہ کاری کا نظام ہونا چاہیے تاکہ کسی بھی جنگی صورتحال میں فیصلہ سازی میں ہم آہنگی ہو۔

اُن کے بقول اسی کے تحت چیئرمین جوائنت چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ عمل میں لایا گیا تھا۔ ان کے مطابق ابتدا میں اس عہدے پر تعیناتی کے لیے روٹیشن پالیسی تھی جس کے تحت آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے افسران کو یہاں تعینات کیا جاتا تھا لیکن سنہ 1994 کے بعد سے جتنے بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی آئے وہ سب پاکستان آرمی سے ہیں۔

چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ فوج تک ہی محدود کیوں رکھا گیا ہے؟

کرنل (ر) انعام الرحیم کہتے ہیں کہ پاکستان میں زمینی یعنی بری فورس کا ہمیشہ سے ہی اہم کردار رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ صرف آرمی چیف کو ہی چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ دیا جا رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ انڈیا میں بھی اس نوعیت کا عہدہ موجود ہے جسے چیف آف ڈیفینس سٹاف کہا جاتا ہے، لیکن وہاں آرمی چیف کے بجائے بری فوج کے ہی کسی جنرل کو اس عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی محاذوں پر جس نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کے لیے عموماً زمینی آپریشنز ہی ہوتے ہیں، لہذا آرمی چیف کو یہ عہدہ دینے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔

برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہاں نیوی کی اہمیت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں اس نوعیت کا عہدہ نیول چیف کے پاس رہنے کی روایت رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل جب انگریز وائسرئے یہاں آتے تھے، اُن کا تعلق بھی برطانیہ کی بری فوج سے ہوتا تھا اور تقسیم کے بعد انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک میں بری فوج کو ایک طرح سے دیگر افواج کے مقابلے میں برتری رہی ہے۔

لیکن لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی اور صحافی تجزیہ کار ماجد نظامی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ دُنیا میں چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ موجود ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ عہدہ صرف بری فوج کے سربراہ کو ہی دیا جائے، لہذا آئین میں یہ لازم قرار نہیں دیا جانا چاہیے کہ چیف آف ڈیفینس فورسز ہر صورت میں بری فوج سے ہی ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر دنیا بھر میں حالیہ جنگوں کو دیکھا جائے تو ایئر پاور، راکٹ فورس، میزائل ٹیکنالوجیز کی اہمیت بڑھتی نظر آ رہی ہے جبکہ ٹینکس اور توپیں ذرا پیچھے چلی گئی ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کے بقول ’بری فوج کی ایک مخصوص سوچ ہے، دفاعی معاملات میں بعض اوقات نئی سوچ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو ایئر فورس اور نیوی کی طرف سے بھی آ سکتی ہے۔ اس لیے روٹیشن پالیسی زیادہ بہتر رہتی ہے اور سٹریٹجک فیصلہ سازی میں بھی کام آ سکتی ہے۔‘

ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ماڈرن وار فیئر میں ایئر فورس اور بحریہ کی اہمیت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ بھی روٹیشن پالیسی کے تحت ہو تاکہ اس معاملے میں افواج کے اندر کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔

جبکہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کہتے ہیں کہ ’چونکہ پاکستان کی دفاعی پالیسی لینڈ بیسڈ ہے اور اسی لیے شاید یہ ضروری سمجھا گیا کہ یہ عہدہ بری فوج کے پاس ہو۔‘

چیف آف ڈیفینس فورسز کو کیا اختیارات حاصل ہوں گے؟

آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ذریعے چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ تو متعارف کرایا گیا ہے، لیکن اس عہدے کو دستیاب اختیارات کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئی ہیں۔

بعض مبصرین یہ سوال بھی اُٹھا رہے کہ شاید ایئر فورس اور نیوی میں ٹرانسفرز پوسٹنگ کا اختیار بھی چیف آف ڈیفینس فورسز کے پاس ہو گا، تاہم بعض ماہرین اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔

بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں کہ ’بظاہر یہ تاثر درست نہیں ہے کہ ایئر فورس اور نیوی کے اندر ٹرانسفر، پوسٹنگ کا اختیار بھی چیف آف ڈیفینس فورسز کے پاس ہو گا۔‘

اُن کے بقول ایئر فورس اور نیول چیف کے پاس پہلے کی طرح ٹرانسفرز، پوسٹنگز، انتظامی اُمور، لاجسٹک اور دیگر معاملات کی ذمہ داریاں بدستور موجود ہوں گی۔

کرنل (ر) انعام الرحیم بھی بریگیڈیئر (ر) حارث نواز سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُنھیں نہیں لگتا کہ ایئر فورس اور نیول افسران کی ٹرانسفر و پوسٹنگ میں چیف آف ڈیفینس فورسز کا کوئی عمل دخل ہو گا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ چونکہ اس حوالے سے ابھی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں اس لیے اس پر رائے دینا بہتر نہیں تاہم ’یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ تمام مسلح افواج میں تھری سٹار افسران کی ٹرانسفر، پوسٹنگ کے لیے چیف آف ڈیفینس فورسز کی سربراہی میں کوئی کمیٹی بنے جس میں ایئر اور نیول چیفس شامل ہوں۔‘

آرٹیکل 243 میں ترمیم کی جلدی اور یہ تاثر کیوں ہے کہ یہ صرف فرد واحد کے لیے کیا جا رہا ہے؟

پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اس بل کو پارلیمان میں لانے سے قبل متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے ضروری مشاورت کا عمل نہیں کیا گیا اور جلدبازی میں سب کام کیا جا رہا ہے۔

کرنل (ر) انعام الرحیم اس تاثر سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ ترامیم جلد بازی میں کی جا رہی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 10 اے میں کسی بھی آئینی ترمیم سے قبل تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی بات کی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اتنی اہم ترامیم کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو پہلے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے تھا اور اس میں تمام سٹیک ہولڈرز سے بھی رائے لینی چاہیے تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ درحقیقت سنہ 2005 میں بھی چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ تخلیق کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی، لہذا یہ کہنا کہ یہ سب جلد بازی میں ہو رہا ہے، درست نہیں ہے۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کی رائے ہے کہ چونکہ 27 نومبر کو موجودہ موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کی مدت ملازمت ختم ہو رہی تھی، بظاہر اسی لیے اُن کی ریٹائرمنٹ سے قبل یہ اہم ترامیم سامنے آئی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US