اس سے قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت نے ہی آئین میں 26ویں ترمیم متعارف کروائی تھی جس کے تحت سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ایک آئینی بین تشکیل دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹپاکستان میں حکومتی اتحاد نے 27ویں آئینی ترمیم کا بِل دو تہائی اکثریت سے سینیٹ سے منظور کروا لیا ہے، تاہم اس ترمیم کو ابھی قومی اسمبلی سے منظور ہونا باقی ہے۔
اس آئینی ترمیم میں جہاں افواجِ پاکستان میں ایک نئے عہدے کی تشکیل کی تجویز دی گئی ہے وہیں اس آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت ملک میں ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام بھی چاہتی ہے۔
اس سے قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت نے ہی آئین میں 26ویں ترمیم متعارف کروائی تھی جس کے تحت سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ایک آئینی بین تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کے پانچوں ہائی کورٹس میں سے صرف سندھ ہائی کورٹ میں ایک آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔
حزبِ اختلاف کی جماعتیں جہاں 27ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں وہیں پاکستان میں آئینی مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات آئینی عدالت کو دینا چاہتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ کا کردار صرف ایک فوجداری اور دیوانی عدالت تک محدود ہو جائے گا۔
تاہم پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں عدلیہ میں کن تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے۔
آئینی ترمیم میں ججز اور عدلیہ کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟
حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی 27 ویں مجوزہ آئینی ترمیم میں جہاں ایک علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، وہیں اس ترمیم میں اس مجوزہ عدالت میں کام کرنے والے ججز کے بارے میں بھی طریقہ کار وضح کیا گیا ہے۔
اس آئینی عدالت کا سربراہ کون ہوگا، اس حوالے سے حکومت نے تاحال کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔ تاہم وزارت قانون کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے موجودہ سربراہ جسٹس امین الدین ہی آئینی عدالت کے سربراہ ہوں گے، جبکہ ان کے مطابق جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس باقر نجفی کے نام بھی اس عہدے کے لیے زیر غور ہیں۔

وزارتِ قانون کے اہلکار کے مطابق بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک سنیئر جج کو بھی اس آئینی عدالت میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔
اس مجوزہ ترمیم کے مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئینی عدالت میں ٹرانسفر یا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں ٹرانسفر سے انکار کرنے والے ججز کو ریٹائر تصور کیا جائے گا۔
اس آئینی ترمیم کے تحت ججز کی ٹرانسفر کا اختیار صدر مملکت سے لے کر سپریم جوڈیشل کمیشن کو دے دیا جائے ہے۔
اس کے علاوہ 27 آئینی ترمیم میں واضح کیا گیا ہے کہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا اور ہائی کورٹ کے کسی جج کے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے کی صورت میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے گا کہ جس ہائی کورٹ میں وہ جا رہے ہیں وہاں کے چیف جسٹس کی سنیارٹی کمپرومائز نہ ہو۔
آئینی عدالت کو اختیارات کی منتقلی
پاکستانی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ آئینی عدالت کی تشکیل اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں موجودہ آئینی بینچ کی وجہ سے نہ صرف زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ عام عوام کے مقدمات کی سماعت نہیں ہو رہی، جس کی وجہ سے ان میں مایوسی پھیل رہی ہے۔
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اور سنئیر وکیل عابد ساقی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت جو اختیارات ہائی کورٹ کے پاس ہوتے تھے وہ بھی ان سے واپس لے کر آئینی عدالت کو دیے جائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مفاد عامہ کا نام لے کر آئینی عدالت تشکیل دی جا رہی ہے اور اس آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ سے مفاد عامہ میں از خود نوٹس لینے کا اختیار لے کر اسے آئینی عدالت کو سونپا جا رہا ہے۔
’اس مجوزہ ترمیم میں از خود نوٹس سے متعلق آئین کے آرٹیکل 184 کے سب سیکشن تین کو ختم کرکے آئین کے سکیشن 175 ای میں تبدیل کردیا گیا ہے، جس کے مطابق اب از خود نوٹس لینے کا اختیار صرف آئینی عدالت کو ہوگا۔‘
دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ آئینی عدالت کے قیام کے بعدحکومت کے خلاف فیصلے آنا بند ہو جائیں گے۔
سپریم کورٹ کے وکیل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ آئینی ترمیم کے بعد ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت جو اپلیں سپریم کورٹ میں دائر ہوتی ہیں وہ اب تمام اپلیں آئینی عدالت کو بھیجی جائیں گی۔
ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ ’آئین کے اس آرٹیکل کے تحت لوگ وفاقی حکومت یا صوبائی حکومتوں کے اقدامات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ اس آئینی عدالت کے قیام کے بعد سرکار کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آئے گا۔‘

ذوالفقار بھٹہ کے مطابق بادی النظر میں بات صرف یہیں تک محدود ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت کسی مقدمے میں ’اگر کوئی آئینی نقطہ سامنے آ گیا تو اس بارے میں کوئی بھی وکیل یہ کہہ سکتا ہے کہ اس مقدمے کو ائینی عدالت میں بھیج دیا جائے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ اس مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت عدلیہ کو مکمل طور پر مفلوج کردیا گیا ہے۔
’سپریم کورٹ کو ساکھ بہتر کرنا ہو گی‘
پاکستان کے سیاسی و عدالتی نظام پر گہری نظر رکھنے والے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام کی جانے والی تبدیلیوں کا اثر نظامِ انصاف سے باہر بھی نظر آئے گا۔
بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کی بدولت آئینی عدالت کی تشکیل سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کا اعتماد متزلزل ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بین الاقومی کمپنیوں کے ذمہ داران پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلےقانونی ماہرین سے پوچھیں گے کہ وہ پاکستانی حکومت کے کسی بھی اقدام کو کس عدالت میں چیلنج کرسکیں گے؟‘
احمر بلال صوفی سمجھتے ہیں کہ آئینی عدالت کے پیچھے سیاسی محرکات بھی ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں جتنے بھی سیاست دانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلوں سے نقصان پہنچا ہے ان سب نے اپنا سکور سیٹل کرنے کے لیے اس آئینی ترمیم میں اپنی تجاویز دی ہیں۔‘
احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ موجودہ سپریم کورٹ کو بھی ’لوگوں کی نظر میں اپنی ساکھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔‘
فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل افتخار شیروانی سمجھتے ہیں کہ اگر آئینی عدالت کے قیام کی وجہ عام عوام کو ریلیف دینے کے علاوہ کچھ اور ہوئی تو یہ اقدام سودمند ثابت نہیں ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اعلیٰ عدالیہ کے ججز کا ٹراسنفر ایک حساس معاملہ ہے، جس میں اس بات کا امکانموجود ہے کہ اس قانون کے تحت ججز کو دباؤ میں لایا جاسکتا ہے۔‘
دیگر ماہرین سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا حق حاصل ہے اور اسے اپنا حق استعمال کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آئین نے پارلیمان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کر سکتے ہیں تو وہ اپنے اس حق کو استعمال کر رہے ہیں۔‘
حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ ’وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا فیصلہ وکلا کا نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کا ہے۔ سنہ 2006 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کے درمیان میثاق جمہوریت کی جن دستاویز پر دستخط ہوئے تھے اس میں ایک مطالبہ آئینی عدالت کے قیام کا بھی تھا، جس پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی دستخط کیے تھے۔‘

ازخود نوٹس کے اختیارات پر بھی حسن رضا پاشا ایک الگ مؤقف رکھتے ہیں: ’آئین کے ارٹیکل 184 کے سب سیکشن تھری کے تحت سپریم کورٹ کے پاس جو از خود نوٹس لینے کا اختیار تھا اس کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ اس کو بہتر بناتے ہوئے از خود نوٹس میں اگر کسی فریق کے خلاف کوئی فیصلہ آ جائے تو اس کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’وکلا برادری عرصہ دراز سے یہ مطالبہ کر ہی تھی کہ ازخود نوٹس کے فیصلے کے خلاف فریقین کو اپیل کرنے کا حق دیا جائے۔‘
27ویں آئینی ترمیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے احتجاج کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن ابھی تک کسی وکلا تنظیم کی طرف سے احتجاج کی کال نہیں دی گئی ہے۔
حیدر آباد بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار نے اس ترمیم سے متعلق کنونشن کیے ہیں لیکن کسی بڑی تنظیم کی طرف سے اب تک کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا ہے۔
اس نقطے پر بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا خیر مقدم کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی وکلا تنظیموں کے انتخابات ہوتے ہیں تو اس میں ایسے امیدواروں کو شکست ہوتی ہے جنھیں حکومت وقت کی حمایت حاصل ہو، لیکن اب نتائج بالکل اس سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔‘