دونوں ممالک کے درمیان اب تک 157 ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے جا چکے ہیں جس میں سے پاکستان نے 93 اور سری لنکا نے 59 جیتے ہیں۔ 1996 میں جب سری لنکا نے آسٹریلیا کو شکست دے کر ورلڈ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، تو اس وقت میدان بھی پاکستانی تھا اور شائقین بھی۔

پاکستان اور سری لنکا کی ٹیمیں منگل کو راولپنڈی میں پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیل کر نہ صرف ون ڈے سیریز کا آغاز کریں گی بلکہ اس رشتے کو بھی مضبوط کریں گی جس کی بنیاد پچاس سال قبل پہلے کرکٹ ورلڈ کپ کے وقت رکھی گئی تھی۔
یہ پانچ دہائی قبل اُس وقت کی بات ہے جب سری لنکا کی ٹیم انٹرنیشنل کرکٹ میں نئی تھی جبکہ پاکستان کا شمار دنیائے کرٹ کی بہتر ٹیموں میں ہوتا تھا۔ 80 اور90 کی دہائی میں سری لنکا کی ٹیم نے جن بڑی ٹیموں کے خلاف اچھا کھیل کر اپنا معیار بہتر کیا، اس میں پاکستان کا نام قابلِ ذکر ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان اب تک 157 ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے جا چکے ہیں جس میں سے پاکستان نے 93 اور سری لنکا نے 59 جیتے ہیں۔
سنہ 1996 میں جب سری لنکا نے آسٹریلیا کو شکست دے کر ورلڈ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا تو اُس وقت میدان بھی پاکستانی تھا اور بیشتر شائقین بھی۔
دونوں ممالک کی کرکٹ تاریخ بھی ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے، جب سنہ 1996 کے ورلڈ کپ میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے مغربی ٹیموں نے سری لنکا جانے سے معذرت کی تھی تو جن ممالک نے اپنے کھلاڑیوں کو کولمبو بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا اس میں پاکستان شامل تھا۔
اسی طرح ایک اہم واقعہ تین مارچ 2009 کا ہے جبو سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے شہر لاہور میں موجود تھی۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کا تیسرا دن شروع ہونا تھا جب مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے 12 شدت پسندوں نے مہمان کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا۔
اس واقعے میں سری لنکن ٹیم کی حفاظت پر مامور چھ پولیس اہلکار اور ایک ڈرائیور ہلاک ہوئے تھے۔ سری لنکا کے کرکٹ حکام کے مطابق زخمی ہونے والے اُن کے کھلاڑیوں میں سمرا وِیرا، اجنتا مینڈس، کمارا سنگاکارا اورتھرنگا پرانا وتھانا شامل تھے۔

اگر گیم کی بات کی جائے تو پاکستان کا پلڑا ہمیشہ ہی سری لنکا کے خلاف بھاری رہا ہے لیکن کچھ میچز میں سری لنکن کھلاڑیوں نے حیران کن کارکردگی دکھا کر بازی اپنے نام کی۔
آئیے ان یاد گار پرفارمنسز پر ایک نظر ڈالنے کے لیے تاریخ کا سہارا لیتے ہیں۔
سعید انور کی پہلی انٹرنیشنل سنچری، پاکستانی اوپنرز کا ڈبل سنچری سٹینڈ
سنہ 1990 میں جہاں پاکستان کی ٹیم تجربات سے گزر رہی تھی وہیں سری لنکن ٹیم بھی ارجنا راناٹنگا کی قیادت میں نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دے رہیتھی، اسی لیے جب اسی سال فروری میں ایڈیلیڈ کے مقام پر ورلڈ سیریز میں دونوںٹیمیں آمنے سامنے آئیں تو ایک یادگار میچ دیکھنے کو ملا۔
اس میچ میں پاکستان کی جانب سے اب تک سب سے زیادہ 20 سنچریاں بنانے والے سعید انور پہلی مرتبہ بھرپور فارم میں نظر آئے۔
سری لنکا کے خلاف ان کی پہلی سنچری ان کی ون ڈے انٹرنیشنل کرئیر کی بھی پہلی ہی سنچری تھی۔ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے بلے باز کی اننگز میں چھ چھکوں کے ساتھ ساتھ آٹھ چوکے بھی شامل تھے جو آسٹریلیا کی باؤنسی وکٹوں پر کسی بھی بلے باز کے لیے بڑی بات تھی۔
تجربہ کار رمیز راجہ کے ساتھ سعید انور نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 202 رنز جوڑے، جس کی بدولت پاکستان نے 50 اوورز کے اختتام پر 3 وکٹوں کے نقصان پر 315 رنز بنائے۔ رمیز راجہ بھی اس اننگز میں ناقابل شکست 107 رنز بنا کر نمایاں رہے۔
316 رنز کے تعاقب میں سری لنکن ٹیم نے مقابلہ تو خوب کیا لیکن 8 وکٹوں کے نقصان پر صرف 288 رنز ہی بنا سکی، کپتان ارجنا راناٹنگا اور روشن ماہنامہ نے اس کاوش میں نصف سنچریاں سکور کیں جبکہ وقار یونس اور عاقب جاوید نے دو دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
وقار یونس کی کریئر بہترین بولنگ

ابھی سری لنکن ٹیم سعید انور کے جادو سے باہر نہیں پائی تھی کہ آسٹرل ایشیا کپ کے میچ میں اسے وقار یونس کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ شارجہ میں اپریل 1990 میں کھیلے گئے اس میچ میں پہلے اعجاز احمد کے 64 گیندوں پر 89 رنز نے سری لنکن بالرز کو بے بس کیا تو بعد میں وقار یونس کی برق رفتار گیندوں نے بلے بازوں کو پریشان کیا۔
312 رنز کے تعاقب میں سری لنکا کی ٹیم صرف221 رنز پر ڈھیر ہوگئی، 18 سالہ وقار یونس نے صرف 26 رنز کے عوض چھ کھلاڑیوں کو پویلین بھیجا، جس میں ارویندا ڈی سلوا کا گولڈن ڈک قابل ذکر تھا۔
انھوں نے چار کھلاڑیوں کو بولڈ اور دو کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کرکے انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنی آمد کا اعلان کیا اور فیلڈرز کی مدد کے بغیر وکٹ لینے کی اس روایت کی جھلک دکھلائی جس نے 90 کی دہائی میں پاکستان کو کئی میچز میں فتوحات سے ہمکنار کیا۔
ون ڈے انٹرنیشنل ڈیبیو میں سلیم الہی نے ریکارڈ بکس میں جگہ بنائی
اٹھارہ سال کی عمر میں بغیر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے کسی بھی نوجوان کا انٹرنیشنل کرکٹ میں رنز سکور کرنا تو دور کی بات، قدم رکھنا بھی مشکل سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان کے سلیم الہی نے اپنے انٹرنیشنل ڈیبیو پر اس بات کو غلطثابت کر دیا۔
ستمبر 1995 میں گوجرانوالہ کے مقام پر نہ صرف انھوں نے پر اعتماد انداز میں ون ڈے انٹرنیشنل ڈیبیو کیا بلکہ وکرماسنگھے، پشپاکمارا، دھرماسینا اور جے سوریا پر مشتمل بالنگ اٹیک کے خلاف ناقابل شکست 102 رنز کی اننگز کھیلی۔
ان کی اننگز میں سات چوکوں کے ساتھ ساتھ ایک چھکا بھی شامل تھا، پہلی وکٹ کی شراکت میں انھوں نے عامر سہیل کے ساتھ 156 رنز کی شراکت قائم کرکے 234 رنز کے تعاقب کی شاندار بنیاد رکھی۔
پاکستان نے یہ میچ تو نو وکٹ سے جیت لیا تھا لیکن سیریز دو، ایک سے سری لنکا کے نام رہی تھی جس نے چھ ماہ بعد ورلڈ کپ جیت کر سب کو حیران کر دیا تھا۔
سنتھ جے سوریا کی تیز ترین نصف سنچری کے بعد پاکستان کا کم بیک

سنہ 1996 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی پاکستان، انڈیا اور سری لنکا نے مشترکہ طور پر کی، جسے جیت کر سری لنکن ٹیم ورلڈ چیمپیئن بنی تھی۔
میگا ایونٹ کے بعد سنگاپور میں ہونے والے سنگر کپ کے فائنل میں بھی سری لنکن ٹیم کی کارکردگی شاندار تھی، جس پر سنتھ جے سوریا کے ریکارڈ نے تقریبا مہر بھی لگا دی تھی۔
اپریل 1996 میں کھیلے جانے والے فائنل میں پاکستان کے 216 رنز کے تعاقب میں ارجنتا راناٹنگا الیون کا آغاز ویسا ہی دھواں دار تھا جیسا کہ ورلڈ کپ کے دوران تھا۔
سنتھ جے سوریا نے پاکستانی بولرز کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے گراؤنڈ کے چاروں جانب سٹروکس کھیلے اور صرف 28 گیندوں پر 76 رنز کی اننگز کھیلی۔
اسی اننگز کے دوران انھوں نے صرف 17 گیندوں پر نصف سنچری سکور کر کے نہ صرف ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کیا بلکہ مخالف ٹیم کا مورال بھی ڈاؤن کیا۔
ان کی اننگز میں پانچ چھکوں کے ساتھ ساتھ آٹھ چھکے بھی شامل تھے، سکور بورڈ پر وہ اس قدر حاوی تھے کہ جب ان کے ساتھی اوپنر رومیش کالووتھرنا بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے تو ٹیم کا سکور 70 رنز تھا۔
اس ریکارڈ کے باوجود سری لنکن ٹیم یہ فائنل جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی اور پوری ٹیم 33ویں اوور میں 172 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔
آف سپنر ثقلین مشتاق اور فاسٹ بالر عطا الرحمان کی تین تین وکٹوں نے شکست کے منہ سے کامیابی چھیننے میں اہم کردار ادا کیا۔
16 سال کے شاہد آفریدی نے چھکے چھڑا دیے

میدان تھا کینیا کا شہر نیروبی اور پاکستان کے سامنے تھی ورلڈ چیمپیئن سری لنکا۔۔۔ اکتوبر 1996 میں کھیلے گئے اس چار ملکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں جگہ بنانے کے لیے جہاں پاکستان کو اچھے رن ریٹ سے میچ جیتنا تھا تو سری لنکا کو صرف رن ریٹ بہتر کرنا تھا، شاید اسی وجہ سے نیٹس میں چھکے مارنے والے لیگ سپنر شاہد آفریدی کو کپتان سعید انور اور وقار یونس نے اوپر بھیجنے کا ایسا فیصلہ کیا، جس نے کرکٹ کی تاریخ ہی بدل دی۔
سولہ سال کی عمر میں جب شاہد آفریدی ون ڈاؤن پوزیشن پر بیٹنگ کے لیے آئے تو پاکستان کا سکور ایک وکٹ کے نقصان پر ساٹھ رنز تھا لیکن شاید ان کو پروموٹ کرنے والے بھی اس بات کے لیے تیار نہیں تھے کہ اگلے 126 رنز میں سے 102 رنز وہ ہی بنائیں گے، وہ بھی صرف 40 گیندوں پر۔
صرف 37 گیندوں پر اپنی پہلی انٹرنیشنل سنچری سکور کر کے شاہد آفریدی نے نہ صرف سنتھ جے سوریا کو ان ہی کے ریکارڈ سے محروم کیا بلکہ زیادہ تر رنز بھی ان ہی کی بولنگ پر سکور کیے۔
اگلی کئی دہائیوں تک یہ میچ شاہد آفریدی کی سنچری کی وجہ سے یاد رہا حالانکہ اس میں سعید انور نے بھی 115 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔
شاہد آفریدی کے بلندوبالا 11 چھکوں اور چھ چوکوں کی مدد سے پاکستان کا نہ صرف رن ریٹ بہتر ہوا بلکہ گرین شرٹس 371 رنز کا پہاڑ جیسا سکور بنانے میں کامیاب ہوئیں۔
جواب میں سری لنکا کو فائنل میں جگہ بنانے کے لیے 290 رنز بنانے تھے لیکن وقار یونس کی 52 رنز کے بدلے 5 وکٹوں کی بدولت پوری ٹیم 289 رنز ہی بنا سکی۔
جے سوریا اور ارویندا ڈی سلوا کی ڈبل سنچری شراکت
سنہ 1997 میں پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں چار ملکی ٹورنامنٹ کھیلا گیا جس میں میزبان پاکستان کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کی ٹیموں نے شرکت کی۔
سیریز کے تمام میچ لاہور میں کھیلے گیے جہاں ایک سال قبل ہی سری لنکا نے آسٹریلیا کو شکست سے دوچار کر کے ورلڈ کپ کی ٹرافی اپنے نام کی تھی۔
جب اسی گراؤنڈ میں اس کا سامنا پاکستان سے ہوا تو سلسلہ وہی سے جڑا جہاں فائنل کے دن ختم ہوا تھا۔
اعجاز احمد کے 94 رنز کی اننگز کی بدولت پاکستان نے جو 280 رنز بنائے تھے، اس کا تعاقب ورلڈ کپ کے ہیروز سنتھ جے سوریا اور ارویندا ڈی سلوا نے صرف 40 اوورز میں کر لیا۔
تیسری وکٹ کی شراکت میں دونوں نے 213 رنز کی جو اننگز کھیلی اس نے پاکستان کے فائنل میں پہنچنے کے چانسز کو ختم کر دیا۔
ڈی سلوا نے صرف 90 گیندوں پر بارہ چوکوں کی مدد سے 102 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جبکہ جے سوریا کی 114 گیندوں پر 134 ناٹ آؤٹ کی اننگزز میں 13 چوکے اور 3 چھکے شامل تھے۔
تلکرتنے دلشان کی سنچری، پاکستان کو اپنی سر زمین پر شکست

سنہ 1995 کے بعد سے سری لنکن ٹیم نے پاکستان کا دورہ تو کئی مرتبہ کیا لیکن دوطرفہ ون ڈے سیریز میں اسے کامیابی کے لیے اتنظار کرنا پڑا۔
یہ انتظار 14 سال بعد اس وقت ختم ہوا جب تلکرتنے دلشان نے سیریز کے آخری میچ میں سنچری بنا کر اپنی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
جنوری 2009 کو لاہور میں کھیلے جانے والے اس میچ میں دلشان نے 139 گیندوںپر 137 رنز کی اننگز کھیل کر ٹیم کا سکور 5 وکٹوں کے نقصان پر 309 رنز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی اننگز میں دس چوکے شامل تھے۔
جواب میں سٹارز سے بھری میزبان ٹیم 23ویں اوور میں صرف 75 رنز پر ڈھیر ہو گئی، کپتان شعیب ملک اور عمر گل کے سوا کوئی بھی بلے باز ڈبل فگرز میں جگہ نہ بنا سکا۔
تھیلان تھشارا اور نوان کولاسیکارا نے تین تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے ٹیم کو یادگار کامیابی دلائی۔
تھیسارا پریرا کی ہیٹ ٹرک
گذشتہ دہائی کی بات کریں تو سری لنکا کی ٹیم نے کئی مرتبہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف حیران کن کارکردگی دکھائی ہے۔
ایسا ہی ایک میچ جون 2012 میں کولمبو کے مقام پر کھیلا گیا، جب تھیسارا پریرا کی بولنگ نے ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
اس میچ میں پاکستان کو جیتنے کے لیے 244 رنز کا ہدف ملا تھا جسے حاصل کرنے کے لیے کپتان مصباح الحق ور اظہر علی نے تیسری وکٹ کی شراکت میں 113 رنز جوڑے تاہم یونس خان، شاہد آفریدی اور سرفراز احمد کے یکے بعد دیگرے آؤٹ ہونے کی وجہ سے پوری ٹیم صرف 199 رنز ہی بنا سکی۔
ان تینوں مستند بلے بازوں کی وکٹیں آل راؤنڈر تھیسارا پریرا نے حاصل کیں جنھوں نے اننگز کے 41ویں اوور کی دوسری، تیسری اور چوتھی گیند پر وکٹیں لے کر ہیٹ ٹرک کا کارنامہ سرانجام دیا۔
مجموعی طور پر وہ میچ میں چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی وجہ سے سری لنکا نے یہ ہوم سیریز تین ایک سے اپنے نام کر لی۔