’سرکاری ڈرائیور کے اکاؤنٹ سے چار ارب کا لین دین‘: پاکستانی والدین میڈیکل کالجوں میں داخلے کے مبینہ فراڈ کا شکار کیسے ہوئے؟

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اینٹی کرپشن سرکل نے میڈیکل کالجز میں داخلے کا جھانسہ دے کر کروڑوں کی رقم ہتھیانے والے ایک ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو ان کے مطابق پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں بطور ڈرائیور تعینات تھے۔
میڈیکل
Getty Images
ایف آئی اے کے مطابق ملزم نے فارن کوٹہ پر میڈیکل کالج میں داخلہ کروانے کے عوض پیسے بٹورے

’ایک ڈرائیور کے اکاؤنٹ سے چار ارب روپے کے لین دین کے ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ ملزم عرصہ دراز سے اِن کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔۔۔‘

فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر افضل نیازی بی بی سی اُردو کو ایک ایسے مقدمے کی تفصیلات سے آگاہ کر رہے تھے جو بظاہر تو لین دین کا معمولی تنازع تھا لیکن جب اس معاملے کی تفتیش کی گئی تو ایک بڑی کہانی سامنے آئی۔

یہ کہانی مبینہ طور پر پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں شہریوں کو داخلے کا جھانسہ دے کر ان سے پیسے بٹورنے کی ہے۔

ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل نے حال ہی میں میڈیکل کالجوں میں داخلے کا جھانسہ دے کر کروڑوں روپے کی رقم ہتھیانے والے ایک ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جو اُن کے مطابق پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) میں بطور ڈرائیور تعینات تھا۔

ایف آئی اے کے مطابق اب وہ اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ آیا اس فراڈ میں پی ایم ڈی سی، جو ملک میں میڈیکل کی تعلیم سمیت طبی شعبے کی ریگولیٹری اتھارٹی ہے، کے دیگر اہلکار بھی شامل تھے یا نہیں۔

تاہم پی ایم ڈی سی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’گرفتار ملزم کا تعلق داخلوں یا پالیسی سے متعلق کسی بھی معاملے سے نہیں تھا اور اس کو محکمانہ کارروائی کے بعد بدعنوانی کے الزام میں معطل کر دیا گیا ہے۔‘

ایف آئی اے کے مطابق تین دیگر مشتبہ ملزمان مفرور ہیں جن کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا چکے ہیں۔

کیس کے تفتیشی افسر شہزاد سرورنے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گرفتار ملزم کو رواں ہفتے کے آغاز میں (سوموار کے روز) عدالت میں پیش کر اس کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔

لیکن میڈیکل کالج میں مبینہ طور پر داخلے کا جھانسہ دے کر کروڑوں روپے کیسے ہتھیائے گئے؟ اس حوالے سے بی بی سی نے ایف آئی اے سمیت ایسے متاثرہ افراد، جن کی درخواست پر اس کارروائی کا آغاز ہوا، اور پی ایم ڈی سی سے بات چیت کی ہے۔

داخلے کا لالچ اور معاملے کی ابتدا

ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے افضل نیازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مبینہ ’دھوکہ دہی کے اس معاملے کے خلاف تین درخواست گزاروں نے رواں سال جون میں شکایت درج کروائی تھی اور ابتدائی تفتیش کے بعد پانچ اگست 2025 کو اس ضمن میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔‘

ایف آئی آر کے مطابق پی ایم ڈی سی کے ایک ملازم نے درخواست گزاروں سے ’پی ایم ڈی سی کے صدر کے نام کو استعمال کرتے ہوئے چار کروڑ سے زیادہ رقم اس وعدے پر حاصل کی کہ وہ نو طلبا کا پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں فارن سیٹ کوٹے پر داخلہ کروائے گا۔‘

ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے افضل نیازی نے بتایا کہ ’ملزم پی ایم ڈی سی میں بطور ڈرائیور کام کرتا تھا اور اس نے مختلف لوگوں سے میڈیکل کالجز میں داخلے کےوعدے پر پیسے بٹورے اور یقین دہانی کروائی کہ اُن کا داخلہ اوورسیز (بیرون ملک مقیم افراد) کوٹے کی سیٹوں پر کروا دیا جائے گا۔‘

واضح رہے کہ پی ایم ڈی سی کے مطابق ملک کے تمام میڈیکل کالجوں کو چند مخصوص نشستیں فارن کوٹے، یعنی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں یا غیر ملکی طلبا، کو دینے کی اجازت ہوتی ہے۔

ایف آئی اے کے مطابق لیکن داخلے کا وعدہ پورا نہیں ہو سکا اور یوں یہ معاملہ ایک تنازع کی شکل اختیار کر گیا۔

افضل نیازی کے مطابق تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ ’جب درخواست گزاروں نے وعدہ پورا نہ ہونے پر اپنے پیسوں کی واپسی پر تقاضہ کیا تو ملزم نے متاثرہ افراد کو چیک لکھ کر دیے جو باؤنس ہو گئے۔ اس کے بعد اُس نے بیان حلفی لکھ کر دیا کہ فلاں تاریخ تک پیسوں کی ادائیگی کر دی جائے گی۔‘

درخواست گزاروں نے ایف آئی اے کو دی جانے والی درخواست کے ساتھ مبینہ طور پر ملزم کی جانب سے دیے گئے چیک کی کاپیاں اور بیان حلفی بھی جمع کروائے تھے۔

بی بی سی نے ایک درخواست گزار اور ملزم کے درمیان ہونے والا ایک حلف نامہ بھی دیکھا، جس کے مطابق ملزم نے رقم کی ادائیگی نہ ہونے پر ایک چار مرلہ مکان دینے کا وعدہ بھی کیا۔

’ملزم کے اکاؤنٹ سے چار ارب روپے کے لین دین کا انکشاف‘

ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ جب اس کیس کی تفتیش شروع ہوئی تو انکشافات کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے افضل نیازی کے مطابق ’انکوائری کے بعد جب ہم نے چار کروڑ کی خردبرد کا مقدمہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کیا تو ریمانڈ کے دوران اس کی بینک سٹیٹمینٹس نکلوائی گئیں جس میں مجموعی طور پر چار ارب 73 کروڑ کا لین دین (ٹرانزیکشنز) سامنے آیا، جو مختلف اوقات میں کی گئی تھیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایک ڈرائیور کے اکاؤنٹ سے چار ارب کے لین دین کے یہ شواہد سامنے آنے سے شبہ ہوا کہ ملزم عرصہ دراز سے ان کارروائیوں میں ملوث رہا ہو گا۔ اور امکان ہے کہ ان کارروائیوں میں وہ تنہا نہیں بلکہادارے کے اور لوگ بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔‘

افضل نیازی کے مطابق اس معاملے پر تفتیش جاری ہے اور ’ایف آئی اے ملزم کا مزید فنانشل ریکارڈ دیکھ رہی ہے کہ ایک ڈرائیور کے اکاؤنٹ سے چار ارب کی لین دین کیسے ہوئی۔‘

پی ایم ڈی سی کا موقف

پی ایم ڈی سی نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملزم کا عمل افرادی نوعیت کا ہے اور اس کا پی ایم ڈی سی سے کوئی تعلق نہیں۔‘

پی ایم ڈی سی ترجمان کی جانب سے بی بی سی کو دیے جانے والے تحریری بیان میں بتایا گیا کہ ’پی ایم اینڈ ڈی سی کا کوئی افسر گرفتار نہیں ہوا، ایک ڈرائیور کونسل (پی ایم ڈی سی) کے نام کا غلط استعمال کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔‘

بیان میں مزید واضح کیا گیا کہ ’ملک بھر کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کا عمل پی ایم اینڈ ڈی سی کے دائرہ کار میں نہیں آتا، اور یہ مکمل طور پر یونیورسٹیوں کا اختیار ہوتا ہے۔‘

پی ایم اینڈ ڈی سی کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جس شخص کو حراست میں لیا، وہ کونسل میں جنرل پول ڈیوٹی پر مامور ایک ڈرائیور ہے، جو معاون عملہ ہے اور اسے کسی بھی آپریشنل سیکشن یا فیصلہ سازی کے عمل تک رسائی حاصل نہیں تھی۔‘

بیان کے مطابق ’ملزم کا تعلق داخلہ جات، رجسٹریشن یا پالیسی سے متعلق کسی بھی معاملے سے نہیں تھا۔ اس کی ذمہ داری صرف عمومی ڈرائیونگ ڈیوٹی تک محدود تھی۔‘

کونسل نے اس بات پر زور دیا کہ جب مذکورہ شخص کے مبینہ بدعنوانی سے متعلق شکایات موصول ہوئیں تو فوری طور پر پی ایم ڈی سی نے محکمہ جاتی سطح پر انکوائری شروع کر دی۔ ’متعلقہ ملازم کو بدعنوانی کے الزام میں معطل کر دیا گیا اور قواعد کے مطابق اس کی تنخواہ روک دی گئی۔‘

تاہم کونسل نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں سے مکمل تعاون کرے گی۔

’پتہ نہیں بیٹی کا داخلہ ہو گا یا نہیں‘

بی بی سی نے ایف آئی اے کو درخواست دینے والے افراد سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس مبینہ فراڈ میں کیسے پھنسے اور اس کی شروعات کیسے ہوئی۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق ایک درخواست گزار کو 40 لاکھ کی رقم واپس مل چکی ہے جو انھوں نے مبینہ طور پر داخلہ کروانے کے لیے ملزم کو ادا کی تھی۔ انھوں نے بی بی سی سے کو بتایا کہ چونکہ انھیں رقم وصول ہو چکی ہے اس لیے انھوں نے اپنا ’معاملہ ختم کر دیا ہے۔‘

انھوں نے اس معاملے پر مزید بات کرنے سے انکار کیا۔

ایک درخواست گزار نے اپنے رشتہ دار کے توسط سے ہم سے بات کی جنھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی بیٹی ’لائق ہیں‘ لیکن انھیں اس بات پر پریشانی تھی کہ ’میڈیکل کالجوں میں داخلے میں ٹیسٹ پر ناکامی کی وجہ سے طلبہ کی جانب سے خودکشی کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور پتہ نہیں بیٹی کا داخلہ ہو گا یا نہیں۔‘

واضح رہے کہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال ملک بھر میں تقریبا ایک لاکھ 40 ہزار طلبہ نے مجموعی طور پر 22 ہزار میڈیکل کی سیٹوں پر داخلے کا امتحان دیا تھا۔

درخواست گزار کے رشتہ دار نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کا سمندر پار پاکستانیوں کے کوٹے پر داخلہ کروانے کے لیے فیس کی مد میں 40 لاکھ کی ادائیگی کی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’کیوںکہ ملزم پہلے بھی کچھ لوگوں کے اس طرح فارن کوٹہ کی سیٹ پر داخلے کروانے کا بارہا دعویٰ کر چکا تھا۔‘

درخواستگزار کے مطابق ملزم نے ان سے داخلہ کروانے کےلیے اضافی پانچ لاکھ روپے کا بھی مطالبہ کیا جو انھوں نے ادا کیے۔ ان کے مطابق اس کے بعد ان کے ایک اور دوست نے بھی اپنی بیٹی کا داخلہ کروانے کے لیے پیسے دیے تاہم ان کے مطابق ملزم وعدہ پورا نہیں کر سکا جس کے بعد اس سے پیسے واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور بعد ازاں مقدمہ درج کروایا گیا۔

ایف ائی اے کے مطابق یہ متاثرہ افراد اور ملزم صوبہ سندھ میں ایک ہی علاقے کے رہائشی ہیں اور اسی نسبت سے ان کا آپس میں رابطہ ہوا۔

ایف آئی اے کے مطابق ملزم نے سندھ کی ایک میڈیکل یونیورسٹی میں داخلے کے عوض پیسے حاصل کیے تھے۔

میڈیکل کالجوں میں فارن سیٹ کوٹہ کیا ہوتا ہے؟

بی بی سی نے پی ایم ڈی سی سے سوال کیا کہ میڈیکل کالجوں میں فارن کوٹے کی نشستوں پر داخلے کی شرائط کیا ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ’سیلف فنانس، اوورسیز پاکستانی، دوہری شہریت رکھنے والے اور غیر ملکی کوٹہ نشستوں پر داخلے کے لیے امیدوار کے پاس یا تو مستقل غیر ملکی شہریت ہونی چاہیے یا وہ ایک اوورسیز پاکستانی ہوں (یعنی پاکستانی شہری جو کسی غیر ملکی ملک میں مستقل طور پر مقیم ہوں)، یا گرین کارڈ ہولڈر، اقامہ ہولڈر یا میپل کارڈ ہولڈر ہوں۔‘

پی ایم ڈی سی کے مطابق ’اس کے ساتھ ساتھ امیدوار نے انٹرمیڈیٹ/ ایف ایس سی/ ایچ ایس ایس سی (12ویں جماعت) یا اس کے مساوی امتحان پاکستان کے اندر یا باہر سے پاس کیا ہو۔‘

ساتھ ہی ساتھ داخلے کے لیے امیدوار کو درج ذیل میں سے کسی ایک امتحان کا نتیجہ پیش کرنا ہوگا جن میں ایم ڈی کیٹ (MDCAT) امتحان، یا ایس اے ٹی II (SAT-II) (ہر مضمون میں کم از کم 550 نمبر)، یا فارَن ایم کیٹ (Foreign MCAT)، یا یو کیٹ (UCAT) امتحان (ضروری مضامین میں کم از کم 50 فیصد نمبر)۔

پی ایم ڈی سی کے مطابق نشستوں کی تعداد کے تحت 15 فیصد کوٹہ سیلف فنانس/اوورسیز پاکستانی/ دوہری شہریت رکھنے والے کے لیے مختص ہوتا ہے جو پبلک اور پرائیویٹ دونوں میڈیکل و ڈینٹل کالجز پر لاگو ہوتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US