ایڈووکیٹ زبیر اسلم گھمن نے سپریم کورٹ میں بطور وکیل اپنے اندراج کے بعد منگل کے روز اپنے دوستوں کو مٹھائی کھلائی تھی اور یہ ہی ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔
اسلام آباد میں کچہری کے باہر خودکش حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں’یار میرا دل کرتا ہے کوئی ایسا بڑا مقدمہ لڑوں جس کے فیصلے کو ریفرنس کے طور پر پاکستان کی تمام عدالتوں میں پیش کیا جا سکے۔۔۔‘
ایڈووکیٹ زبیر اسلم گھمن نے بطور وکیل سپریم کورٹ میں اندراج کے بعد منگل کے روز یہ بات اپنے دوستوں کو مٹھائی کھلاتے ہوئے کہی تھی اور یہ ہی ان کی زندگی کے آخری الفاظ ثابت ہوئے۔
زبیر اسلم گھمن ان 12 افراد میں شامل تھے جو منگل کے روز اسلام آباد کی جی 11 کچہری کے باہر ایک خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
زبیر اسلم گھمن کے دوست وحید ایڈووکیٹ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ زبیر نے انھیں منگل کو دن گیارہ بجے کے قریب فون کیا اور ان سے دن کی مصروفیت کے بارے میں پوچھا۔
زبیر اسلم گھمن نے کہا کہ وہ دیگر دوستوں کو بھی جمع کریں کیونکہ وہ ان سب سے ملنا چاہتے ہیں۔
’زبیر نے مجھے بتایا کہ ان کا بطور سپریم کورٹ کے وکیل اندراج ہو گیا ہے، جس کی خوشی میں وہ اپنے دوستوں کو مٹھائی کھلانا چاہتے ہیں۔‘
وحید ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’میں نے انھیں مذاق میں کہا کہ مٹھائی کسی اچھی دکان سے اور تازہ لےکر آنا ورنہ کورٹ کمپلیکس میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
بقول وحید کے یہ بات سن کر زبیر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ایسی مٹھائی کھلاؤں گا کہ زندگی بھر یاد رکھو گے۔‘
انھوں نے کہا کہ زبیر گھمن مٹھائی کا بڑا ڈبہ لے کر وہاں آئے۔ ’ہم لوگ کورٹ کمپلیکس کے مرکزی دروازےکے قریب ہی واقع کنٹین پر بیٹھ گئے اور دوستوں کے علاوہ وہاں پر موجود دیگر وکلا کو بھی مٹھائی کھلائی۔‘
خودکش حملہ آور کو شناخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہےوحید احمد کا کہنا تھا کہ وہ کنٹین میں ایک گھنٹہ سے زیادہ دیر تک بیٹھے رہے اور اس کے بعد چونکہ انھوں نے مقدمات کی پیروی کے لیے مختلف ضلعی عدالتوں میں پیش ہونا تھا اس لیے اس ان سے اجازت چاہی۔
کینٹین سے اٹھتے ہوئے زبیر اسلم گھمن ایڈووکیٹ نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا وکیل بننے کے بعد ’یار میرا دل کرتا ہے کہ کوئی ایسا بڑا مقدمہ لڑوں جس کے فیصلے کو ریفرنس کے طور پر پاکستان کی تمام عدالتوں میں پیش کیا جا سکے۔‘
وحید احمد کا کہنا تھا کہ میں نے اسے مذاق میں کہا کہ اب تو ملک میں آئینی عدالت بھی بننے جا رہی ہے اس لیے وقت بہت کم اور مقابلہ سخت ہے اس لیے جاؤ اور جا کر پہلے ایسابڑا مقدمہ ڈھونڈو اور اس کی تیاری کرو۔
وحید کے مطابق یہ بات سن کر زبیر مسکرائے اور واپس جانے کے لیے کورٹ کمپلیکس کے مرکزی گیٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔
وحید احمد کا کہنا تھا کہ ابھی وہ مقدمے کی پیروی کے لیے سول جج کی عدالت میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی، جس کی وجہ سے سول جج کی عدالت کی کھڑکی کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔
انھوں نے کہا کہ دھماکے کی آواز سن کر وہ کمرہ عدالت سے باہر نکل کر کمپلیکس میں موجود دیگر وکلا کے ساتھ باہر نکلے تو بہت سے لوگ کورٹ کمپلیکس کے مرکزی دروازے کے باہر سڑک پر زخمی اور مردہ حالت میں پڑے تھے۔
زبیر اسلم گھمن بھی ان میں سے ایک تھے۔
وحید احمد کے مطابق ’وکلا اور ریسکیو اہلکاروں نے زخمیوں کو پمز ہسپتال پہنچایا لیکن زبیر راستے میں ہی دم توڑ گئے۔‘
’زبیر اسلم انتہائی خوش مزاج اور ملنسار تھا‘
زبیر اسلم گھمن کے دیگر دوست انھیں ایک ’انتہائی خوش مزاج اور ملنسار‘ شخص کے طور پر جانتے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ریاست علی آزاد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ کہ ’اگر کوئی دوست وکیل انھیں برا بھلا بھی کہہ دیتا تو وہ اس بات کا برا نہیں مانتے تھے۔‘
ریاست علی آزاد کا کہنا تھا کہ زبیر اسلم گھمن کو الیکشن میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا اور وہ ہر سال بار کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تمام عہدوں کے لیے اپنے کاغذات جمع کرواتے تھے، تاہم دوستوں کے کہنے پر وہ تمام عہدوں سے اپنے کاعذات نامزدگی واپس بھی لے لیتے تھے۔
واضح رہے کہ زبیر اسلم گھمن کے والد اسلم گھمن بھی سپریم کورٹ کے وکیل رہے ہیں، تاہم وہ اب پریکٹس نہیں کر رہے ہیں۔
اس خود کش حملے کے بعد وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی ہے جبکہ اسلام آباد بار کونسل نے تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کے باہر یہ دوسرا بڑا خودکش حملہ ہے۔ اس سے پہلے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کرنے کے بعد ضلع کچہری میں ایک تقریب کے باہر بھی خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں 10 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
اس وقت ضلعی عدالتیں اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع تھیں لیکن اب یہ عدالتیں سیکٹر جی الیون منتقل ہو گئی ہیں۔
گاڑیاں دھونے والا بچہ بھی ہلاک
پولیس نے مبینہ خودکش حملہ آور کے سر اور جسم کے نمونے پنجاب کی فرانزک لیب بھجوا دیے ہیںمنگل کے روز ہونے والے خود حملے میں جو بارہ افراد ہلاک ہوئے ہیں ان میں ایک نوعمر بچہ تنویر بھی شامل ہے، جو کورٹ کمپلیکس کی پارکنگ میں وکلا کی گاڑیوں کی صفائی کر کے روزی کماتا تھا۔
مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ نوعمر بچہ گولڑہ کے قریب مہر آبادی کا رہائشی تھا۔
مقامی پولیس کے مطابق اس خود کش حملے میں ہلاک ہونے والا بچہ گذشتہ ایک برس سے کورٹ کمپلیکس کی پارکنگ میں لوگوں کی گاڑیاں دھونے کا کام کرتا تھا۔
ایک پولیس افسر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ بچہ اپنے والدین سمیت آٹھ افراد کی کفالت کرتا تھا۔‘
اس خودکش حملے میں زخمی ہونے والے 32 افراد میں سے چار کی حالت تشویش ناک بیان کی جاتی ہے۔
اس واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم آج تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔ پولیس نے مبینہ خودکش حملہ آور کے سر اور جسم کے نمونے پنجاب کی فرانزک لیب بھجوا دیے ہیں۔