پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعرات کی رات ملک کے آرمی ایکٹ میں اہم تبدیلیوں کی منظوری دی ہے جس کے بعد موجودہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ناصرف چیف آف ڈیفینس فورسز کا نیا اور اضافی عہدہ سونپا جائے گا بلکہ ان کی مدت ملازمت سمیت فوج کے مختلف معاملات میں تبدیلیاں ہوں گی۔
27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گاپاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعرات کی رات ملک کے آرمی ایکٹ میں اہم تبدیلیوں کی منظوری دی ہے جس کے بعد موجودہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ناصرف چیف آف ڈیفینس فورسز کا نیا اور اضافی عہدہ سونپا جائے گا بلکہ ان کی مدت ملازمت سمیت فوج کے مختلف معاملات میں تبدیلیاں ہوں گی۔
ان میں سے چند اہم تبدیلیوں میں سے ایک یہ ہے کہ 27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا اور عاصم منیر بری فوج کے ساتھ ساتھ فضائیہ اور بحریہ کے بھی مشترکہ چیف آف ڈیفینس فورسز بن جائیں گے۔
اس کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے بجائے کمانڈر آف نیشنل سٹریٹجک کمانڈ کا ایک نیا عہدہ متعارف کروایا گیا ہے۔
اس سے قبل وفاقی حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے پاکستان آرمی ایکٹ، پاکستان ایئر فورس ایکٹ اور پاکستان نیوی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری اور متعلقہ قوانین میں ترمیم ہم عصر اور جدید جنگی تقاضوں کو سامنے رکھ کر تجویز کی گئی ہیں۔
آرمی ایکٹ میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی مدت ملازمت اب کب تک ہو گی؟
پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی ہےفیلڈ مارشل اور چیف آف ڈیفینس فورسز کی مدت ملازمت
آرمی ایکٹ میں تبدیلی کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کو اب چیف آف آرمی سٹاف اور چیف آف ڈیفینس فورسز پکارا جائے گا اور ترمیم کے مطابق اس نئے عہدے کے نوٹیفیکیشن کے بعد مدت ملازمت نئے سرے سے شروع ہو گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ہی پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی منظوری دی تھی، جس کے بعد موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت 2027 تک رہنی تھی۔ تاہم حالیہ آرمی ایکٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق اب یہ مدت ملازمت بڑھ جائے گی۔
نئے آرمی ایکٹ کے مطابق وفاقی حکومت چیف آف آرمی سٹاف اور چیف آف ڈیفینس فورسز کے عہدے کی ذمہ داریوں کا تعین کرے گی جس میں افواج پاکستان کی تنظیم نو اور ملٹی ڈومین انٹگریشن شامل ہوں گی۔
کمانڈر آف نیشنل سٹریٹجک کمانڈ کا نیا عہدہ
آرمی ایکٹ کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے اور اس کے بجائےکمانڈر آف نیشنل سٹریٹجک کمانڈ کا عہدہ متعارف کروایا گیا ہے۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم کے مطابق اس عہدے پر فیلڈ مارشل کی سفارش پر وزیر اعظم پاکستانی بری فوج کے ایک جنرل کو تین سال کے لیے تعینات کریں گے۔
ترمیم کے تحت قومی مفاد میں وزیر اعظم کمانڈر آف نیشنل سٹریٹجک کمانڈ کی مدت ملازمت آرمی چیف کی سفارش پر مزید تین سال کے لیے بڑھا بھی سکتے ہیں اور اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گا۔
اس کے علاوہ اس عہدے پر تعینات فوجی جنرل پر آرمی ایکٹ کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر اور دیگرضوابط لاگو نہیں ہوں گے۔
وائس یا ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف
آرمی ایکٹ میں ترمیم کے مطابق پاکستان کی بری فوج میں ایک نیا عہدہ متعارف کروایا جا سکتا ہے جو ماضی میں بھی موجود رہ چکا ہے۔
ترمیم کے مطابق آرمی چیف اور چیف آف ڈیفینس فورسز کی تجویز پر وفاقی حکومت کسی افسر کو، جسے بطور وائس یا ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف تعینات کیا گیا ہو، وہ اختیارات سونپ سکتی ہے جو کسی آرمی چیف کو دیے جاتے ہیں۔
ترمیم کے تحت قومی مفاد میں وزیر اعظم کمانڈر آف نیشنل سٹریٹجک کمانڈ کی مدت ملازمت آرمی چیف کی سفارش پر مزید تین سال کے لیے بڑھا بھی سکتے ہیں’ہم فوج کے اندر کسی بھی قسم کی بے چینی کے متحمل نہیں ہو سکتے‘
آرمی ایکٹ میں ترامیم کو ماہرین ایک حساس معاملہ قرار دے رہے ہیں اور اس پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اس ترمیم کے بعد چیف آف ڈیفینس سٹاف کی تقرری کا نیا نوٹیفیکیشن جاری ہوگا اور فوج کے سربراہ کی پانچ سالہ مدت میعاد تاریخِ اجرا سے شروع ہوگی۔
سینئر قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی فوج میں بہت سے اہل اور قابل افسران موجود ہیں، جنھیں اپنی جرآت اور بہادری کی وجہ سے ستارہ جرآت یا ہلال امتیاز جیسے تمغے مل چکے ہیں۔ لہذا ممکن ہے کہ (مدت ملازمت کے معاملے پر) فوج کے اندر سے اس معاملے پر کوئی ردِعمل آئے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان سے ردِعمل آ رہا ہے، اسی طرح فوج کے اندر سے بھی اس نوعیت کے اقدامات سامنے آ سکتے ہیں۔‘
خیال رہے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے خلاف احتجاجاً سپریم کورٹ کے دو جج جسٹس منصور علی اور جسٹس اطہر من اللہ اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ ’فوج ایک اہم ادارہ ہے اور جو اس وقت خطے کے حالات ہیں اور انڈیا کے ساتھ ہماری کشیدگی ہے، اس تناظر میں ہم فوج کے اندر کسی بھی قسم کی بے چینی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘
’یہ فیصلہ بہرحال پاکستان کی پارلیمان نے کیا ہے، لیکن اس سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ یہ ترامیم ملکی مفاد میں نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے لیے ہو رہی ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستانی فوج کے سابق افسر لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی سمجھتے ہیں کہ ’27 ویں ترمیم کی حد تک معاملہ ٹھیک تھا کہ آرمی چیف اب چیف آف ڈیفینس فورسز بھی ہوں گے، اس کے لیے دوبارہ سے نئی تعیناتی یا نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں تھی۔‘
’ آرمی چیف بنیادی تعیناتی ہے اور اسی کیوجہ سے ہی چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ بنایا گیا ہے۔ اس معاملے کو مزید اُلجھانے کی ضرورت نہیں تھی۔
’یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہو گیا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سنہ 2030 تک فیلڈ مارشل عاصم منیر ہی آرمی چیف اور چیف آف ڈیفینس فورسز رہیں گے۔‘