سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کے استعفوں کے بعد عدلیہ کی آزادی پر بحث: 27 ویں آئینی ترمیم اور وفاقی آئینی عدالت کا قیام اعلیٰ عدلیہ کو کیسے متاثر کرے گا؟

ان ججز نے نئی آئینی ترمیم پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خطوط لکھے تھے اور اس حوالے سے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کیا تھا۔

خود کو یقین دلانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لوں لیکن حقیقت یہی ہے آئین کی روح پر حملہ ہو چکا ہے اور نئے ڈھانچے جن بنیادوں پر تعمیر ہو رہے ہیں وہ آئین کے مزار پر کھڑے ہیں اورہم جوعدالتی چُوغے پہنتے ہیں وہ محض رسمی لباس نہیں ہے اورتاریخ گواہ ہے کہ اکثر اوقات یہ لباس خاموشی اور بے عملی کی علامت بن گیا"۔

یہ الفاظ سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے جج جسٹس اطہر من اللہ کے اس استعفے کی تحریر کے ہیں جو انھوں نے 27ویں آئینی ترمیم آئین کا حصہ بننے کے بعد صدر مملکت کو لکھا تھا۔ ان کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی استعفی دیا ہے جنھوں نے لکھا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت عدلیہ کو حکومت کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اس ترمیم کے بعد ملک میں پہلی وفاقی آئینی عدالت قائم کر دی گئی ہے اور جسٹس امین الدین خان وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس بن گئے ہیں۔ تاہم جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان ججز پر افسوس رہے گا جو اس آئینی عدالت کا حصہ بنیں گے۔

ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا مستعفی ہونے والے سپریم کورٹ کے ججوں کی تنقید درست ہے یا وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ دعوی کہمستعفی ہونے والے ججوں کی سپریم کورٹ پر اجارہ داری پر قدغن لگائی گئی ہے اور پارلیمان نے آئین کی بالادستی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟

اس تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ نئی ترامیم اعلی عدلیہ کی آزادی کو کیسے متاثر کرے گی اور کیا سپریم کورٹ اب حکومت کی تابع ہو کر رہ جائے گی؟

تاہم اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس بننے والے جسٹس امین الدین خان کون ہیں اور وفاقی آئینی عدالت کیسے کام کرے گی؟

جسٹس امین الدین خان کون ہیں؟

جسٹس امین الدین خان وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس بننے سے پہلے سپریم کورٹ میں 6 سال تک بطور جج کام کرتے رہے اورگزشتہ برس 26ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والے آئینی بینچ کے سربراہ تھے۔

سپریم کورٹ میں آنے سے پہلے جسٹس امین الدین سنہ 2011 سے سنہ 2019 تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں۔ جسٹس امین الدین سپریم کورٹ کے اس چھ رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے 9 مئی کے واقعات میں سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کی تھی۔

جسٹس امین الدین کا تعلق پنجاب کے جنوبی شہر ملتان سے ہے۔ وہ پہلے 1987 میں ہائی کورٹ اور 2001 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے اور بطور وکیل پریکٹس کے دوران دیوانی یعنی سول نوعیت کے مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔

جسٹس امین الدین کے علاوہ 6 ججز کا بطور جج وفاقی آئینی عدالت کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے ۔ ان ججز میں سپریم کورٹ کے تین جج شامل ہیں جن میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقی نجفی شامل ہیں جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس روزی خانسندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کریم خان آغا اور پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ارشد حسین شاہ شامل ہیں۔

وفاقی آئینی عدالت کیسے کام کرے گی؟

وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد اس عدالت کے پاس وہی مقدمات بھیجے جائیں گے جس میں آئینی نقطے اٹھائے گئے ہوںیعنی ایسے مقدمات جس میں ریاست کو فریق بنایا گیا ہو۔

ملک کی مختلف ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف، جن میں انکم ٹیکس اور ریونیو کے مقدمات شامل ہوں گے، مقدمات کی سماعت وفاقی آئینی عدالت میں ہی ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر سپریم کورٹ میں زیرسماعت کسی مقدمے میں آئینی نقطہ اٹھایا گیا ہو تو اسے بھی آئینی عدالت میں منتقل کیا جا سکے گا۔

اس کے علاوہ اس عدالت کے پاس از خود نوٹس لینے کا اختیار بھی ہوگا۔

آئینی عدالت کی ضرورت کیوں تھی؟

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت کے قیام کا مطابہ صرف دو بڑی سیاسی جماعتوں کا نہیں تھا بلکہ وکلا برادری بھی یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ ملک میں ایک الگ سے ایسی عدالت ہو جو صرف آئینی نوعیت کے مقدمات سنیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میںگزشتہ 18 سالوں کے دوران ایسے مقدمات کو ترجیح دی جاتی رہی جو کہ سیاسی نوعیت کے تھے اور سیاسی نوعیت کے مقمدات کی سماعت کئی کئی ہفتے سپریم کورٹ میں چلتی رہتی جبکہ عام سائلین کے مقدمات عرصہ دارز سے زیر التوا رہنے کے بعد پینڈنگ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

انھوں نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کے بعد اس بات کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں کہ کم از کم لوگوں کو انصاف کی فراہمی جلد ممکن ہوگی۔

ہارون الرشید نے سپریم کورٹ کے ججز کا نام لیے بغیر کہا کہ بدقسمتی سے کچھ ججز سیاسی ایجنڈے کو آگے لیکر چل رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ججز میں تقسیم پیدا ہوئی بلکہ ججز کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے۔

انھوں نے کہا کہ ججز کو عام کو مقدمات میں ریلیف دینے کی بات کرنی چاہیے نہ کہ کسی سیاسی جماعت کے ایجنڈے کو پروان چڑھانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی اعلی عدلیہ کا ماضی اتنا تابناک نہیں رہا جس پر فخر کیا جاسکے۔

انھوں نے کہا کہماضی میں اعلی عدالتوں میں جن ججز کو تعینات کیا گیا اس کا معیار صرف یہ تھا کہ یا تو وہ کسی جج کا قریبی ہو اور یا پھرملک کے کسی بڑے وکیل کے چیمبرمیں کام کرتا ہو۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ وکلا کا ایک دھڑا اس ائینی ترمیم اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی عدالت کی مخالفت کر رہا ہے لیکن ان کے بقول وکلا کا یہ دھڑا اقلیت میں ہے۔

سپریم کورٹ
Getty Images

سپریم کورٹ کے اختیارات آئینی عدالت کے پاس؟

دوسری جانب ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کم کر دیے گئے ہیں۔

آئنیی نوعیت کے مقدمات کی پیروی کرنےوالے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا کہ اس آئینی ترمیم سے پہلے اعلی عدلیہ کے ججز کے ساتھ بھی مشاورت کر لی جاتی تاکہ اگر ان ججز کے آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی خدشات ہیں تو ان کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جاتی۔

انھوں نے کہا کہایسا محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام اختیارت وفاقی آئینی عدالت کو تفویض کر دیے گئے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وکلا کا ایک دھڑا اس آئینی ترمیم اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی آئینی عدالت کے خلاف احتجاج کر رہا ہے لیکن اس احتجاج میں اس وقت تک شدت نہیں آسکتی جب تک سول سوسائٹی بھی ساتھ نہ دے۔

بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے تمام اختیارت تو لے لیے گئے ہیں اور اب تو یہ صرف نام کی ہی سپریم کورٹ رہ گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حیدر آباد بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشنسمیت ملک کی مختلف بار کے نمائندے احتجاج کر رہے ہیں۔

یہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نہیں رہی

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا ہے کہ 27 ویں ائینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے کچھ ججز کو یہ لگتا ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل کر دیا گیا ہے اس لیے انھیں اس عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہویے انھوں نے کہا کہ اس آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو اس حد تک کم کر دیا گیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نہیں رہی بلکہ ایک عام عدالتی بنکر رہ گئی ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو سپریم کورٹ ایسے اقدامات کرنے سے روکتی ہے اور انڈیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس آئینی ترمیم کے بعد کچھ ججز کا خیال ہے کہ انھیں مستعفی ہو جانا چاہیے تاہم جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کے بقول ان کے مستعفی ہونے سے فی الوقت کوئی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن یہ بات ضرور ہوگی کہلوگوں کی نظر میں ان مستعفی ہونے والے ججز کا مقام بڑھ جائے گا کہ انھوں نے بھی اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا۔

آئینی عدالت کے قیام کے بعد کیا سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات میں کمی واقع ہوگی؟ اس بارے میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ریلیف ان مقدمات میں دیے گئے فیصلوں کے نتیجے میں ملے گا نہ کہ زیر التوا مقدمات کو نمٹانے سے۔

انھوں نے کہا کہ وہآنے والے کچھ سالوں میں ملک میں اس آئینی ترمیم کے خلاف کوئی بڑی تحریک شروع ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے۔

انھوں نے کہا کہ اس آئینی ترمیم کے خلاف اگر کوئی درخواست دائر کی جائے گی تو اس کی سماعت وفاقی ائینی عدالت ہی کرے گی۔

جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا تھا کہ کونسے ایسے جج ہوں گے جو کہ اپنے ہی عدالت کے قیام کےخلاف آئی ہوئی درخواست کی سماعت کریں گے۔

آئین پاکستان پر سنگین حملے کا الزام اور استعفے

یاد رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں، جسٹس منصور علی خان اور جسٹس اطہر من اللہ، نے اس ترمیم پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ’آئین پاکستان پر سنگین حملہ‘ قرار دیا اور اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔

اس سے قبل ان دونوں ججوں نے اس آئینی ترمیم پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خطوط لکھے تھے اور اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کیا تھا۔

یاد رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ موجود چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بعد سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج ہیں۔

اپنے استعفوں میں ان ججوں نے موقف اختیار کیا کہ اس آئینی ترمیم کے ذریعے ’عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا گیا ہے‘ اور یہ کہ ’یہ ترمیم ہماری آئینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب ہے۔‘

اس شدید تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ نے الزام عائد کیاکہ ’یہ ججز سیاسی اور ذاتی ایجنڈا پر تھے اور اُن کو یہ استحقاق حاصل نہیں کہ وہ سیاسی معاملات یا پارلیمان کی کارکردگی پر تنقید کریں۔‘

انھوں نے جسٹس منصور کے استعفے کے چند جملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اسے ’سیاسی تقریر اور سیاسی تحریر‘ قرار دیا ہے۔

دوسری جانب سینیئر قانون دان مخدوم علی خان نے لا اینڈ جسٹس کمیشن کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔

کمیشن چیئرمین کو لکھے گئے اپنے استعفے میں مخدوم علی خان نے کہا کہ ’مشاورت، حکمت عملی اور دلیل کے ذریعے بہتری ممکن ہے لیکن اب عدلیہ کی آزادی کے بغیر قانون کی اصلاح ممکن نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’26 ویں آئینی ترمیم سے نوجوان وکیل مایوس ہوئے ہیں۔‘

واضح رہے کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کرتے ہیں جبکہ چاروں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، اٹارنی جنرل اور چیف جسٹس شریعہ کورٹ سمیت مختلف صوبوں سے ممتاز قانون دانوں اس کمیشن کے رکن ہوتے ہیں۔ لا اینڈ جسٹس کمیشنوفاقی سطح پر بنایا گیا کمیشن ہے، جس کا مقصد مختلف شعبوں میں اصلاحات اور قوانین سازی کے لیے حکومت کی مشاورت کرنا اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے۔

’یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا‘: جسٹس منصور علی شاہ نے مستعفی ہونے کی کیا وجوہات بیان کیں؟

سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے اُردو اور انگریزی زبانوں میں تحریر کردہ اپنا طویل استعفی صدر مملکت کو بھجوایا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’27ویں ترمیم آئین پاکستان پر سنگین حملہ ہے جس نے سپریم کورٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ’27ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ کو حکومت کے ماتحت بنا دیا اور ہماری آئینی جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی ہے۔‘

جسٹس منصور نے اپنے استعفے میں یہ بھی کہا کہ اعلیٰ عدالت کو منقسم کر کے عدلیہ کی آزادی پامال کی گئی ہے جبکہ انصاف عام آدمی سے دور جبکہ کمزور اور طاقت کے سامنے بے بس ہو گیا ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’حکومت اور متنازع عدالتی قیادت نے ترمیم کو قبول کیا جبکہ چیف جسٹس نے ادارے کے دفاع کی بجائے اپنے عہدے کو ترجیح دی۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے دعویٰ کیا کہ سنہ 2024 میں ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے کی جانب پہلا قدم تھی اور اُمید تھی کہ سپریم کورٹ بطورِ فل کورٹ اس ترمیم کا جائزہ لے گی، لیکن اب یہ امید بھی ختم ہو گئی ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئین کی بالادستی، بنیادی حقوق کا تحفظ اور قانون کی حکمرانی میری زندگی کا مقصد تھا لیکن میں ایک ایسی عدالت میں بیٹھوں جس کے پاس اپنا آئینی اختیار ہی نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ وہ عدالتی زندگی نہیں جس کا میں نے انتخاب کیا تھا، اس لیے میں بطور جج سپریم کورٹ آف پاکستان سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔‘

اپنے طویل استعفے کے اختتام پر جسٹس منصور علی شاہ نے شاعر احمد فراز کے کچھ اشعار تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اشعار ’میرے یقین کا سہارا ہیں۔‘

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

مرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے

اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا

جبھی تو لوچ کماں کا زباں تیر کی طرح

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقین ہے مجھے

کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم

مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مشیر وزیر اعظم رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ جج کا کام انصاف سے فیصلے کرنا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ججز نہیں بلکہ اُن کے فیصلہ بولتے ہیں لیکن ہمارے ججز فیصلے کم کرتے ہیں، ان کے فیصلے بولتے نہیں مگر ججز خود بولے جاتے ہیں اور جن جج صاحبان نے آج استعفی دیا ان کے استعفے کا ایک ایک لفظ سیاسی ہے۔ ایک ایک لفظ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ سیاسی اور ذاتی ایجنڈے پر تھے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ: ’جس آئین کے تحفظ کا حلف لیا تھا وہ اب نہیں رہا‘

سپریم کوٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اپنا استعفیٰ صدر کو بھجوایا جو صرف ایک صفحے پر مشتمل ہے اور انگریزی زبان میں ہے۔

اپنے استعفے میں انھوں نے لکھا کہ 11 سال قبل انھوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، چار سال بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف لیا اور مزید چار سال بعد سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا۔

انھوں نے لکھا کہ ’تمام ادوار میں حلف کا بنیادی وعدہ ایک ہی تھا۔ یہ حلف کسی آئین نہیں بلکہ آئینِ پاکستان سے وفاداری کا حلف تھا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید لکھا کہ 27ویں آئینی ترمیم سے قبل انھوں نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا تھا اور مجوزہ ترمیم پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا تاہم خط کے مندرجات یہاں (استعفے میں) دہرانے کی ضرورت نہیں۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ’خاموشی اور بے عملی کے پس منظر میں یہ خدشات درست ثابت ہوئے۔‘

خط میں جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان کے عوام کی خدمت میرے لیے سب سے بڑا اعزاز رہا۔ میں نے اپنے حلف کے مطابق بہترین صلاحیت سے فرائض انجام دیے، آج وہی حلف مجھے باقاعدہ استعفیٰ دینے پر مجبور کر رہا ہے، جس آئین کے تحفظ کا حلف لیا تھا وہ اب باقی نہیں رہا۔‘

’خود کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر ممکن نہ ہو سکا، نئے ڈھانچے جن بنیادوں پر تعمیر ہو رہے ہیں، وہ آئین کے مزار پر کھڑے ہیں، جو باقی رہ گیا ہے وہ صرف ایک سایہ ہے، آئینی روح سے خالی ہے۔‘

’جو عدالتی چُوغے ہم پہنتے ہیں، وہ محض رسمی لباس نہیں، یہ اُس مقدس اعتماد کی علامت ہے جو قوم نے عدلیہ پر کیا، تاریخ گواہ ہے اکثر اوقات یہ لباس خاموشی کی وجہ سے دھوکے کی علامت بن گیا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’آنے والی نسلوں نے ان کو مختلف طور پر نہ دیکھا، تو ہمارا مستقبل بھی ہمارے ماضی جیسا ہی ہو گا۔ اسی امید کے ساتھ میں آج یہ چُوغہ آخری بار اُتار رہا ہوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدے سے اپنا استعفیٰ فوری طور پر پیش کرتا ہوں۔‘

استعفے کا اختتام انھوں نے اس جملے پر کیا کہ ’خدا کرے کہ جو انصاف کریں، وہ سچائی کے ساتھ کریں۔‘

’یہ پاکستانی عدلیہ کا بہت بڑا نقصان ہے‘

سپریم کورٹ
BBC

یہ استعفے سامنے آنے کے بعد وکلا کمیونٹی کی جانب سے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

وکیل اور سماجی کارکن ایمان مزاری نے لکھا کہ ’جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفوں میں اس ملک کے لیے امید ہے۔ کوئی بھی اس نظام کے اندر اس کے خلاف نہیں لڑ سکتا۔ 26ویں ترمیم کے بعد اسے آزمایا گیا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’پاکستان کے لوگ اپنے آئین پر اس حملے کو خاموشی سے قبول نہیں کریں گے۔ ہم مزاحمت کریں گے، ہمیں مزاحمت کرنی ہو گی۔‘

پلڈاٹ کے صدر احمد محبوب بلال نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے اقدام کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ’ان کے لیے نئے حالات میں اپنے ضمیر اور وژن کے مطابق کام کرنا ناممکن ہوتا۔ دونوں جج صاحبان انتہائی ذہین اور آزاد خیال تھے۔ یہ پاکستانی عدلیہ کا بہت بڑا نقصان ہے۔‘

صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ ’جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔۔۔‘

سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے لکھا کہ ’جب سالمیت کی آوازوں کو ایک طرف دھکیل دیا جاتا ہے تو ادارے کمزور ہو جاتے ہیں اور عوام کا انصاف پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے لمحات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں آئینی اقدار، عدالتی آزادی، اور دباؤ کے باوجود سچ بولنے کی ہمت کی کتنی اشد ضرورت ہے۔‘

شہزاد غیاص شیخ نے لکھا کہ ’27ویں ترمیم پہلی بار ہے جب ایگزیکٹو نے عدلیہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی جبکہ عدلیہ نے ماضی میں کئی بار ایگزیکٹیو کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کی عدلیہ نے ماضی میں تقریباً ہمیشہ ہی فوج کا ساتھ دیا۔‘

جس کے جواب میں وکیل صلاح الدین نے اس تاثر کی تردید کی کہ عدلیہ پر ’پہلی بار حملہ‘ کیا گیا۔

انھوں نے یاد کرواتے ہوئے لکھا کہ بھٹو کی پانچویں اور چھٹی ترمیم؟ سنہ 1994 سے 1996 میں بے نظیر کا دور حکومت، سنہ 1997 میں نواز شریف کے حامیوں کا سپریم کورٹ پر حملہ اور قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف عمران خان کا ریفرنس۔

انھوں نے لکھا کہ ’ماضی میں ہم عدلیہ کے جی ایچ کیو کی جانب جھکاؤ سے نفرت کرتے تھے اور اب جی ایچ کیو کے سامنے مزاحمت کرنے والے ججز سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔‘

صارف احسن خان نے لکھا کہ ’منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ وہی دو جج ہیں جنہوں نے 90 دن میں الیکشن والے فیصلے کو 3/4 سے الجھایا۔ اور آج وقت کی ستم ظریفی میں خود الجھ گئے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’عدلیہ وہی کاٹ رہی ہے جو اس نے بویا تھا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US