لندن میں اسرائیلی وفد کے ساتھ ویڈیو پر پاکستانی مشیر کی وضاحت اور دفتر خارجہ کا اظہار لاعلمی

اگرچہ دونوں ملکوں کی طرف سے ایسی کسی ملاقات کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے تاہم یہ مناظر سامنے آنے کے بعدسردار یاسر کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی بھی زیرِ بحث ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاحتی امور سردار یاسر الیاس کی کچھ تصاویر اور ویڈیوز گذشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں وہ بظاہر ایک اسرائیلی اہلکار سے ملتے نظر آتے ہیں۔

اگرچہ دونوں ملکوں کی طرف سے ایسی کسی ملاقات کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے تاہم یہ مناظر سامنے آنے کے بعدسردار یاسر کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی بھی زیرِ بحث ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ’مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل اور فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول حل تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔‘

حتیٰ کے اس معاملے کی گونج گذشتہ روز دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں بھی سنی گئی جب صحافیوں نے ترجمان سے اس بارے میں بار بار وضاحت مانگی۔

دفتر خارجہ کی بریفنگ میں اس بارے میں کیا بات چیت ہوئی، یہ بعد میں لیکن پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ سردار یاسر الیاس اور اسرائیلی اہلکار کی تصاویر اور ویڈیوز میں ایسا کیا ہے کہ ان پر بحث رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔

اس معاملے پر سردار یاسر الیاس نے بی بی سی کے ساتھ اپنا ایک بیان شیئر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لندن میں ایک نمائش کے دوسرے دن ’ایک غیرملکی وفد پاکستانی پویلین پر آیا جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اسرائیل سے تھا۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ان تصاویر کو ’بعض عناصر نے توڑ مروڑ کر پیش کیا اور جھوٹی کہانی گھڑ کر حکومتی بیانیے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔‘

تصاویر اور ویڈیوز میں کیا ہے؟

سوشل میڈیا پر وائرل ان تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے مشیر سردار یاسر الیاس خان لندن میں جاری عالمی سیاحتی نمائش کے دوران اسرائیل کے ڈائریکٹر جنرل برائے سیاحت میکائیل ازحاکوف سے مل رہے ہیں۔

سردار یاسر الیاس پہلے میکائیل ازحاکوف کا بازو پکڑ کر ان سے ہاتھ ملاتے ہیں اور پھر ان سے بات چیت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں بعض حلقے اس حوالے سے قیاس آرائیاں بھی کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ سب قیاس آرائیاں ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب ستمبر کے مہینے میں پاکستان نے امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی یقینی بنانے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ خطے میں دیرپا امن کی خاطر ’دو ریاستی حل‘ کی تجویز پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔

اس سے قبل ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر شروع سے ہی اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں۔

خود شہباز شریف بھی اس حوالے سے ایکس پر پیغام جاری کر چکے ہیں جبکہ نائب وزیر اعظم پاکستان اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ آٹھ اسلامی ممالک مجوزہ منصوبے کے تحت ایک امن فورس تعینات کریں گے اور پاکستان بھی اس سے متعلق فیصلہ کرے گا۔

اس اعلان کے بعد کئی افراد مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے دو ریاستی حل کے اصولی موقف میں تبدیلی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے اس بارے میں کیا کہا؟

جمعے کے روز ترجمان دفتر خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران تین مرتبہ اس بارے میں سوال کیے گئے۔

اس بارے میں سب سے پہلے عرب نیوز کے نمائندے وسیم عباسی نے سوال کیا۔

انھوں نے پوچھا کہ ’کیا پاکستان وزیراعظم کے مشیر یاسر الیاس اور اسرائیل کے ڈائریکٹر جنرل برائے سیاحت میکائیل ازحاکوف کے درمیان ہونے والی ملاقات کی توثیق کرتا ہے؟ کیا اس کا مطلب اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی ہے؟ کیا پاکستان ابراہم معاہدے میں شامل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔‘

اس کے جواب میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک لائن میں مختصر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اس ملاقات کی کوئی خبر نہیں۔ آپ نے جس عوامی شخصیت کا ذکر کیا، میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ ان سے اس ملاقات کے بارے میں سوال کریں۔ مجھے اس ملاقات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔‘

اس جواب کے باوجود تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور صحافی نے بھی اسی حوالے سے سوال کیا۔

انڈپینڈنٹ نیوز کی نامہ نگار قرات العین شیرازی نے پوچھا کہ ’آپ نے کہا کہ مشیر ایک عوامی شخصیت ہیں اور اس حوالے سے ان ہی سے پوچھنا چاہیے لیکن ماضی میں وزارت خارجہ نے اس طرح کے رابطوں اور صحافیوں کے دورہ اسرائیل پر تبصرہ کیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’تو میں اپنے ساتھی کا سوال دہراتی ہوں کہ کیسے وزیراعظم کی نمائندگی کرنے والے ایک پاکستانی اہلکار نے اسرائیلی اہلکار سے ملاقات کی؟ کیا حکومت نے اس ملاقات کی توثیق کی؟ اگر نہیں تو کیا اس اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی ہو گی؟ کیا پاکستان، جیسا کہ میرے ساتھی نے پہلے پوچھا، ابراہم معاہدے میں شامل ہونے کی تیاری کر رہا ہے؟‘

اس سوال کے جواب میں ترجمان نے جواب دیا کہ ’میں نے وزیر اعظم کے مشیر یا کسی بھی عوامی شخصیت کی اسرائیلی نمائندے سے ملاقات کی رپورٹ یا کوئی معلومات نہیں دیکھی ہیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ایسی کوئی ملاقات یا بات چیت ہوئی ہے تو یہ یقینی طور پر حکومت کی اجازت کے بغیر تھی۔ تاہم میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہمیں سب سے پہلے اس بات کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا واقعی ایسا کوئی رابطہ ہوا۔‘

ترجمان نے مزید کہا کہ میرے خیال میں اس معاملے کا تعلق ابراہیم معاہدے یا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے وسیع مسئلے سے جوڑنا بھی مناسب نہیں اور صحافیوں کو بھی اس بارے میں قیاس آرائی نہیں کرنی چاہیے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے اس جواب کے بعد ایک اور صحافی نے پھر اس بارے میں سوال کر دیا۔

چینل 24 نیوز کے محمد انور عباس نے پوچھا کہ تین پاکستانی وفود نے (ماضی میں) اسرائیل کا دورہ کیا جن میں معروف اینکر احمد قریشی، ظفر کلاسرا اور دیگر شامل تھے۔ اگر ہمارا پاسپورٹ اسرائیل کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو حکام کی اجازت کے بغیر اسرائیل کا دورہ کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

ترجمان نے جواب دیا کہ میں آپ کو یقین دہانی کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ وہ دورے وزارت خارجہ کی معلومات یا اجازت کے ساتھ نہیں تھے۔ اگر ان افراد نے کسی ایسے ملک میں سفر کرنے سے متعلق پاسپورٹ کے ضوابط کی خلاف ورزی کی، جس کی پاکستانی پاسپورٹ پر اجازت نہیں تو ہمارے حکام کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ میرے پاس کوئی معلومات نہیں اور میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اسرائیل کے ساتھ ان دوروں یا رابطوں کی اجازت نہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافی احمد قریشی اور سماجی کارکن انیلہ علی جو پاکستانی نژاد امریکی شہری ہیں، نے سنہ 2022 میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔

اس وفد کے شرکا نے اسرائیلی پارلیمنٹ ہاؤس سمیت اہم مقامات کے دورے کیے تھے اور اسرائیلی صدر سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

اس وقت بھی اس دورے پر خاصی تنقید اور سوال جواب ہوئے تھے۔

سردار یاسر الیاس کا موقف

بی بی سی کے ساتھ شیئر کیے گئے اپنے بیان میں سردار یاسر الیاس کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات باقاعدہ یا طے شدہ نہیں تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس اسرائیلی وفد نے کوئی بیج نہیں پہنا ہوا تھا اور وہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے پاکستانی پویلین پر آیا تھا۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر موجود بعض اطلاعات کو ’بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔

’فلسطین کے حامی وزرا اب کہاں ہیں‘

سوشل میڈیا پر یہ تصاویر بار بار شیئر کی جا رہی ہیں حتیٰ کہ ماضی میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پاکستانی صحافی فیصل قریشی نے بھی پاکستان اور اسرائیل کے جھنڈے کی ایموجی کے ساتھی یہ تصاویر شیئر کی ہیں۔

ڈاکٹر شمع جنیجو نے یہ تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’کسی پاکستانی نیوز چینل اور اینکرز نے شہباز شریف کے مشیر کی لندن میں اسرائیلیوں سے اس دوستانہ ’ملاقات‘ کی کہانی کو کیوں نہیں اٹھایا؟‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’فلسطین کے حامی وزرا اب کہاں ہیں۔‘

صحافی ارسلان ملک نے لکھا کہ یا تو یاسر الیاس سفارتی آداب سے ناواقف ہیں یا پھر ریاست کی طرف سے نارملائزیشن کی نئی پالیسی کی وجہ سے ایسا ہوا۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ’دونوں صورتوں میں یہ تباہ کن اور قابل مذمت ہے۔‘

جیو نیوز کے نامہ نگار مرتضی علی شاہ نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اس تقریب کے بارے میں کچھ تفصیلات دیں۔

انھوں نے لکھا کہ ’سردار یاسر الیاس خان نے ورلڈ ٹریول مارکیٹ میں شرکت کے لیے پاکستان کے 31 سیاحتی نمائندوں کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے لندن کا دورہ کیا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’تقریب کے دوران اسرائیل سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایک گروپ نے غیر اعلانیہ طور پر پاکستان پویلین کا دورہ کیا اور اپنا تعارف کروائے بغیر پاکستانی وفد سے ملاقات کی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US