بی بی سی کو دنیا کے سب سے طاقتور شخص ٹرمپ کے خلاف قانونی لڑائی کا سامنا: آگے کیا ہو سکتا ہے؟

اگر کسی کو لگتا تھا کہ بی بی سی کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے معافی مانگنے کے بعد معاملہ ختم ہو جائے گا تو وہ خود سے جھوٹ بول رہا تھا۔
ٹرمپ
Reuters

اگر کسی کو لگتا تھا کہ بی بی سی کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے معافی مانگنے کے بعد معاملہ ختم ہو جائے گا تو وہ خود سے جھوٹ بول رہا تھا۔

بی بی سی کے چیئرمین سمیر شاہ نے مجھے دیے گئے ایک انٹرویو میں اسی جانب سے اشارہ کیا تھا۔ اس وقت ڈائریکٹر جنرل اور نیوز کی سی ای او مستعفی ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ صدر قانونی کارروائیوں میں یقین رکھنے والے شخص ہیں۔

یہ بات اس حقیقت سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ٹرمپ نے امریکی میڈیا کمپنیوں کے خلاف کئی بار مقدمات دائر کیے ہیں۔

ٹرمپ کے بیان سے واضح ہے کہ وہ پینوراما پروگرام کے ایڈٹ سے ناراض ہیں اور بظاہر انھوں نے ادارے کے خلاف معاوضے کے دعوے کو بھی بڑھا دیا ہے۔

جمعے کو ایئر فورس پر سفر کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ ادارے کے خلاف 'ایک ارب ڈالر (75 کروڑ 90 لاکھ پاؤنڈ) سے پانچ ارب ڈالر' کے ہرجانے کا مطالبہ کریں گے۔

یاد رہے کہ بی بی سی کو لائسنس فیس کی مد میں گذشتہ برس 3.8 ارب پاؤنڈ کی آمدن حاصل ہوئی تھی۔

جمعے کو ٹرمپ نے کہا کہ 'انھوں نے میرے منھ سے نکلنے والے الفاظ توڑ مروڑ کر پیش کیے۔' وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی تقریر کے دو کلپس کو آپس میں جوڑ کر 'مختلف معنی دینے کی کوشش کیوں کی گئی۔'

وہ بی بی سی کے جواب کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی یہ مانتے ہیں کہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں ہوا۔

یہ بی بی سی کی تاریخ کا ایک سنگین لمحہ ہے۔ اس کی ساکھ غیر جانبداری پر قائم ہے۔ جہاں اداروں پر اعتماد کم ہو رہا ہے وہیں یہ دنیا میں اعتماد کی علامت بننا چاہتا ہے۔

مگر اس کے برعکس اب ادارے پر جانبداری کا الزام لگ رہا ہے اور اسے دنیا کے سب سے طاقتور شخص سے قانونی مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تو اب آگے کیا ہوگا؟

جب سے صدر نے قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے یہ واضح ہے کہ ادارہ معاوضہ دینا نہیں چاہتا۔ اس کا خیال ہے کہ اگر غلطی ہوئی تو اس نے ٹرمپ کو نقصان نہیں پہنچایا۔

بی بی سی کا خیال ہے کہ ٹرمپ کو دوبارہ صدر منتخب کیا گیا اور یہ پروگرام امریکی چینلز پر نشر نہیں ہوا تو انھیں کیسے نقصان پہنچ سکتا ہے؟

میرا خیال ہے کہ ادارے کے اندر اور باہر اتفاق رائے ہے کہ لائسنس فیس کی آمدن کے ذریعے ٹرمپ کو معاوضہ دینا ممکن نہیں ہوگا۔

بی بی سی کے ایک سابق سینیئر عہدیدار نے مجھے بتایا کہ بی بی سی نے معاوضے کی پیشکش کو ٹھکرا کر 'صحیح فیصلہ کیا۔' مگر اس شخص نے یہ بھی کہا کہ اگر ٹرمپ نے کیس کیا تو بی بی سی کو 'فلوریڈا کے بہترین وکلا کے خلاف کیس لڑنا ہوگا۔'

معاوضے پر ماننے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ اس کے اخراجات کو نیچے لایا جاسکے۔ مگر اب یہ لگ رہا ہے کہ بی بی سی ایک مہنگی اور طویل قانونی جنگ میں حصہ لینے جا رہا ہے۔ وہ بھی اس وقت جب اس کے چارٹر کی تجدید سے متعلق بات چیت ہو رہی ہے۔

بی بی سی کے اعلیٰ حکام عام وقتوں میں اس حوالے سے یہ بات کرتے ہیں کہ ادارے کی بنیاد کس چیز پر ہے اور اس کی فنڈنگ کیسے ہو گی۔ 2028 کی شروعات سے قبل اس کی تفصیلات حکومت اور بی بی سی کے درمیان طے کی جاتی ہیں۔

بی بی سی پہلے ہی اس آدمی کو کھو چکا ہے جسے اس گفتگو کی قیادت کرنی چاہیے تھی، یعنی ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی۔

مگر اب بی بی سی کی اعلیٰ قیادت کی توجہ اس کھیل کی طرف ہوگی کیونکہ ٹرمپ کے خلاف کوئی بھی جنگ آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ محض قانونی اخراجات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں۔

اگر بی بی سی اس غلطی کے بارے میں بہت پہلے کھل کر اسے درست کر لیتا تو شاید یہ سب ٹل جاتا۔ اس کے بجائے اسے ایک لمبے سفر کا سامنا ہے۔

لیکن اس سے بچنے کے کچھ راستے ہو سکتے ہیں۔

کیا بی بی سی برطانیہ کی حکومت سے بیک چینلز کے ذریعے قدم اٹھانے کو کہے گا؟ کیا وزیر اعظم کیئر سٹامر کی کال ٹرمپ کو اپنا خیال بدلنے پر آمادہ کرے گی؟ کیا سٹامر یہاں تک کہ امریکی صدر کے ساتھ شامل ہو کر اپنا سیاسی سرمایہ خرچ کرنا چاہیں گے؟

اس ہفتے بی بی سی کے لیے ایک مثبت بات مضبوط نوعیت کی تھی جس میں ثقافت کی سیکریٹری لیزا ننڈی نے کارپوریشن کا دفاع کیا۔

انھوں نے بی بی سی نیوز پر بڑے پیمانے پر اعتماد کے بارے میں بات کی اور کارپوریشن کو 'اندھیرے کے وقت لوگوں کے لیے روشنی' کے طور پر بیان کیا جو ملک کو اکٹھا کرتی ہے۔

دوسری جانب ٹرمپ نے بی بی سی کو 'جعلی خبروں سے بھی بدتر' قرار دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کارپوریشن اور اس کے صحافی بدعنوان ہیں۔

یہ لڑائی اب صحیح معنوں میں جاری ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US