انڈیا میں ماہواری سے متعلق پرانے خیالات کو تبدیل کرنے کے لیے ریاست کیرالہ میں مردوں میں شعور اُجاگر کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود سنہ 2018 میں ریاست میں حیض والی خواتین کے مندر جانے پر پابندی ہٹانے کے معاملے پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے تھے۔
انڈیا میں اب بھی حیض یا ماہواری پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہےانڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کی حکومت نے مختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کو ماہواری کے دوران ایک چھٹی دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ ان کی تنخواہ میں بھی کوئی کٹوتی نہیں کی جائے گی۔
نئی پالیسی کے تحت سرکاری اور پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کرنے والی 18 سے 52 سال کی خواتین ماہواری کی ایک دن کی چھٹی لے سکتی ہیں جسے آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ چھٹی حاصل کرنے کے لیے کسی میڈیکل سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہو گی۔
حکام کے مطابق اس پالیسی سے مختلف شعبوں میں کام کرنے والی چار لاکھ خواتین استفادہ کر سکیں گی، تاہم اس میں بہت سی ایسی خواتین جو گھریلو ملازمت، یومیہ اُجرت یا مزدوری کرتی ہیں، وہ شامل نہیں ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ریاست میں ایسی خواتین کی تعداد 60 لاکھ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تمام خواتین کو بھی سہولت ملنی چاہیے اور اس کے لیے ریاستی حکومت کو کام کرنا ہو گا۔
کرناٹک میں ماہواری کی چھٹی کو اس لحاظ سے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ اس میں نجی شعبے کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔

’خواتین کو ماہواری کے درد کے دوران کام نہیں کرنا پڑے گا‘
ماہواری کی چھٹی کا تصور نیا نہیں ہے۔ سپین، جاپان، جنوبی کوریا اور انڈونیشیا جیسے ممالک پہلے ہی ماہواری کی چھٹیاں دیتے ہیں۔
بعض انڈین ریاستوں میں ماہواری کی چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ ریاست بہار اور اڑیسہ میں سرکاری ملازمین کو مہینے میں دو ماہواری کی چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ کیرالہ میں یونیورسٹی اور صنعتی تربیتی ادارے کے عملے کو ماہواری کی چھٹی دی جاتی ہے۔
لیکن انڈیا میں خواتین کو ایک اضافی دن چھٹی دینے کے معاملے پر صنعی تعصب اور برابری پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
اس فیصلے کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ضروری حق ہے جس سے خواتین کو تنخواہ میں کٹوتی کے بغیر ماہواری کے درد کے دوران کام نہیں پڑے گا۔
کرناٹک کے وزیر محنت سنتوش لاڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ خواتین کے لیے سب سے ترقی پسند پالیسی فیصلوں میں سے ایک ہے جسے حکومت نافذ کر رہی ہے۔‘
پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے کے خدشات
کرناٹک کا شمار اُن انڈین ریاستوں میں ہوتا ہے، جہاں متعدد آئی فرمز میں بہت سی خواتین کام کرتی ہیں۔
آئی ٹی فرمز کی ایک غیر منافع بخش تنظیم ’ناس کام‘ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ کرناٹک میں بہت سی کمپنیاں پہلے ہی ماہواری کی چھٹی دیتی ہیں، اس لیے حکومتی حکمپر عمل درآمد کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
مقامی گارمنٹس اینڈ ٹیکسٹائل ورکرز یونین کی صدر پرتیبھا آر نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر خواتین گارمنٹس ورکرز کو سال میں بمشکل 11 دن کی چھٹی ملتی ہے۔
تاہم، کچھ خواتین کو لگتا ہے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔
انڈیا کے بہت سے حصوں میں حیض کو ’ناپاکی‘ کی علامت سمجھا جاتا ہے، خواتین کو اکثر مندروں میں جانے سے روک دیا جاتا ہے یا انھیں ماہواری کے دوران گھر میں الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔
ایک سافٹ ویئر کمپنی کی مینیجر انونیتا کنڈو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کوئی کیسے جا کر ماہواری کی چھٹی لے سکتا ہے جب کہ ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی ہچکچاتے ہیں؟ ہمارا معاشرہ ابھی اس سطح تک نہیں پہنچا ہے۔‘
ایک اور آئی ٹی ورکر ارونا پاپیریڈی نے کہا: ’اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو چھٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ خواتین ایم لفظ کا ذکر کیے بغیر بھی اعلیٰ عہدوں پر پہنچ گئی ہیں۔‘
سماجی ماہر پشپیندر کہتے ہیں کہ اصل چیلنج ماہواری سے جڑے گہرے ’بدنما داغ‘ سے لڑنا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی عورت بہار میں دو دن کی چھٹی مانگتی ہے، تو سمجھا جاتا ہے کہ یہ ماہواری کی وجہ سے ہے۔ اس نے خواتین کو سہولت فراہم کی ہے، لیکن اس نے انھیں بااختیار نہیں بنایا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بہار جہاں کئی دہائیوں سے ماہواری کی چھٹی دی جا رہی ہے، دکاندار اب بھی سینیٹری پیڈز پرانے اخبارات میں لپیٹ کر دیتے ہیں۔

انڈیا میں ماہواری سے متعلق پرانے خیالات کو تبدیل کرنے کے لیے ریاست کیرالہ میں مردوں میں شعور اُجاگر کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود سنہ 2018 میں ریاست میں حیض والی خواتین کے مندر جانے پر پابندی ہٹانے کے معاملے پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے تھے۔
کرناٹک میں کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت کی ماہواری چھٹی کی پالیسی لوگوں کو ماہواری کے بارے میں بات کرنے میں زیادہ آرام دہ بنا سکتی ہے۔
بنگلورو شہر میں مقیم ایک ٹیچر شریا شری نے کہا: ’اسے ماہواری کی چھٹی کہنے سے بدنامی سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔‘
سپنا ایس، جو کرائسٹ یونیورسٹی میں ایک ایسوسی ایٹ ڈین ہیں اور کرناٹک کی ماہواری چھٹی کمیٹی کی سربراہ ہیں، نے خواتین پر زور دیا کہ وہ اس پالیسی سے فائدہ اٹھائیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اس حوالے سے سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا میں ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ خواتین کو ماہواری کی چھٹی مانگنے میں شرمندگی نہ ہو۔