ایپسٹین فائلز میں ٹرمپ اور عمران خان سمیت کن معروف شخصیات کا ذکر ہے؟

امریکی قانون سازوں نے بدنام زمانہ فنانسر اور سزا یافتہ جنسی مجرم جیفری ایپسٹین کے اثاثوں سے حاصل کردہ 20,000 سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویزات جاری کی ہیں۔ جیفری ایپسٹین اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی دستاویزات نے پوری دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے۔
عمران خان اور ٹرمپ
Getty Images
عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ اِن شخصیات میں سے ہیں جن کا ذکر ایپسٹین فائلز میں ہے

امریکی قانون سازوں نے بدنام زمانہ فنانسر اور سزا یافتہ جنسی مجرم جیفری ایپسٹین کے اثاثوں سے حاصل کردہ 20,000 سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویزات جاری کی ہیں۔

جیفری ایپسٹین اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی دستاویزات نے پوری دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے۔

ان دستاویزات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سابق پاکستانی وزیر اعظم اور کرکٹر عمران خان، ٹرمپ کے سابق مشیر سٹیو بینن، سابق شہزادہ اور بادشاہ چارلس کے بھائی اینڈریو ماؤنٹبیٹن ونڈسر، اور میڈیا، سیاست اور تفریح کی دنیا سے تعلق رکھنے والی دیگر اہم شخصیات کے نام شامل ہیں جو ایپسٹین کے وسیع روابط کی جھلک پیش کرتے ہیں۔

جہاں ٹرمپ کئی برسوں تک ایپسٹین کے دوست رہے۔ مگر صدر کا کہنا ہے کہ دونوں میں تقریباً 2004 میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے، یعنی ایپسٹین کی پہلی گرفتاری سے کئی سال پہلے۔ ٹرمپ نے ایپسٹین کے حوالے سے کسی بھی بدعملی میں شمولیت سے مستقل طور پر انکار کیا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل کے ایک جائزے سے پتا چلا ہے کہ 2,324 ای میل تھریڈز میں سے 1,600 سے زیادہ میں ٹرمپ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے کہا کہ ای میلز کو ہاؤس آف ڈیموکریٹس نے 'صدر ٹرمپ کو بدنام کرنے کے لیے ایک جعلی بیانیہ تیار کرنے کے لیے لبرل میڈیا کو' چن چن کر ای میلز لیک کیے ہیں۔

’حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے کئی دہائیوں پہلے جیفری ایپسٹین کو اپنے کلب سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ گویفری سمیت ان کی خواتین ملازمین کے لیے بدتمیز تھے۔‘

پاکستان سے اگر کسی شخصیات کا ذکر ایپسٹین فائلز میں ہے تو وہ صرف عمران خان ہیں جنھیں ایک ’خطرے‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مگر تحریک انصاف کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر عمران خان کے دفاع میں کہا ہے کہ یہ سابق وزیر اعظم کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ انھیں ایپسٹین جیسے شخص کی ای میلز میں ایک خطرہ قرار دیا گیا تھا۔

عمران خان کا ذکر

یہ ذکر ایک ای میل پر ہونے والی بات چیت کے دوران آیا ہے۔ جس پر 31 جولائی سنہ 2018 کی تاریخ درج ہے۔ اور ایک ای میل کا پتہ [email protected] ہے لیکن اس کے بارے میں ابھی کوئی معلومات نہیں ہے۔

اس جاری کردہ گفتگو میں کسی ’ڈیوڈ‘ کی صحت کے بارے میں بات کی جا رہی ہے۔ پھر بات امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں ہوتی ہے۔ فارس اور ایران کا ذکر ہوتا ہے۔ ترکی کی کرنسی لیرا اور روسی کرنسی روبل کی بات ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ انھوں نے جو کہا تھا اس کے مطابق اس کی قدر میں کمی آئی ہے۔

اور پھر کہا جاتا ہے ’فارس ایک تہذیب یافتہ جگہ تھی۔ انتہائی ہوشیار۔ یہ اٹلانٹس شہر کی طرح مر گیا۔ یہ ایران ہے۔‘

ایک پیغام میں کہا جاتا ہے کہ ’روسی روبل میں کوئی تبدیلی نہیں۔۔۔ ٹرمپ ان دونوں کی شراکت داری کرانے میں حق بہ جانب ہیں۔‘ اس کا جواب ’بالکل‘ سے دیا جاتا ہے۔

پھر یہ لکھا دیکھا جا سکتا ہے کہ ’پوتن اب تک مہربان رہے ہیں، یہ نہیں بتایا ہے کہ ہم دوسروں کے انتخابات میں خود کو کس طرح شامل کرتے ہیں۔‘ جواب میں ایل او ایل یعنی لاف آوٹ لاؤڈ لکھا جاتا ہے۔

پھر جو پیغام ہے اس میں عمران خان کا ذکر آتا ہے کہ (پوتن نے) ’حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے قتل کی بات نہیں کی ہے۔ بغاوت کی فنڈنگ (نہیں کی)۔۔۔ پاکستان میں عمران خان، اردوغان سے کہیں زیادہ امن کے لیے خطرہ ہیں۔ خامنہ ای یا پوتن (سے بھی کہیں زیادہ)۔‘

پھر پوچھا جاتا ہے ’وہی جو پاکستان میں پوپولسٹ ہے؟‘

جس کا ایپسٹین جواب دیتے ہیں کہ ’یقینا یہ بری خبر ہے۔‘ وہ بظاہر عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

'کرکٹ کا کھلاڑی؟ (ہونے کے باوجود)۔۔۔ وہ اسلام پسند سے بدتر کیسے ہو سکتا ہے؟'

پھر یہ ذکر ہوتا ہے: ’ڈونلڈ کو آئن سٹائن کی طرح دکھاتا ہے۔ سچائی سے عاجز۔ دیندار اسلام پسند، بہت سے ایٹمی ہتھیار (اردوغان یا خمینی نہیں) (کا حامل)۔ اس کی شادی میرے دو دوستوں سے ہوئی، ایک جمی گولڈ سمتھ کی بیٹی تھی۔ انتہائی امیر آدمی کو قبضا لیا، اسے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ بے وقوف۔‘

پھر کہا جاتا ہے کہ 'یہ شخصیت پرستی کے بارے میں آپ کی پیش گوئی کو ثابت کرتا ہے۔ وہ کرکٹ کپتان ہے، شطرنج کا کھلاڑی نہیں، لیکن وہ بھیڑ (عوام) کو جگانے میں اچھا ہے۔'

اس کے تقریبا 45 منٹ بعد پھر گفتگو شروع ہوتی ہے لیکن پھر بات چیت دوسری طرف ٹام اور چین کی طرف چلی جاتی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان کی ایک سابق اہلیہ جمائمہ خان کا ذکر تو کیا گیا ہے لیکن دوسری شادی کے بارے میں وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

ادھر عمران خان کی دوسری سابق اہلیہ ریحام خان نے اس انکشاف کے بعد سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس پر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے اور وضاحت پیش کی ہے۔

انھوں نے ٹویٹ میں لکھا: ’میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے جیفری ایپسٹین کے بارے میں کوئی علم یا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں کبھی بھی پی ٹی آئی چیئرمین کے سوشل سرکل کا حصہ نہیں رہی نہ پاکستان میں اور نہ انگلینڈ میں۔‘

ان دستاویزات میں جو چند اور نام درج ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں لیکن ان کا ذکر کسی بھی فرد کی غلط کاری کی نشاندہی نہیں کرتا۔

مسٹر وولف نے کہا کہ وہ اس بارے میں بہت دنوں سے بات کرنا چاہ رہے تھے
Reuters
مسٹر وولف نے کہا کہ وہ اس بارے میں بہت دنوں سے بات کرنا چاہ رہے تھے

مائیکل وولف

72 سالہ مائیکل وولف امریکی صحافی، کالم نگار ہیں۔ انھوں نے دولت مند اور مشہور شخصیات پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔

ان کی کتاب 'فائر اینڈ فیوری' ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت سے متعلق سلسلے کی پہلی جلد تھی۔ یہ کتاب سنہ 2018 میں شائع ہوئی۔ اس میں وائٹ ہاؤس کی بدنظمی اور صدر کے ذاتی معاملات سے متعلق سنسنی خیز تفصیلات شامل تھیں۔ ٹرمپ نے اسے 'جھوٹ کا پلندہ' قرار دیا تھا۔

ایپسٹین سے متعلق نئی دستاویزات ایک ایسے تعلق کی نشاندہی کرتی ہیں جو مسٹر وولف اور اس سزا یافتہ مجرم کے درمیان رابطے کا پتہ دیتے ہیں۔

خصوصی توجہ ایک ایسی ای میل پر مرکوز ہے جس میں وولف، پہلی بار صدارتی مہم چلانے والے ٹرمپ سے متعلق ایپسٹین کو مشورہ دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

وولف نے سنہ 2015 میں ایپسٹین کو لکھا کہ سی این این ٹرمپ سے ان کے ایپسٹین سے تعلق کے بارے میں سوال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ایپسٹین نے جواب دیا: 'اگر ہم اس کے لیے کوئی جواب تیار کر سکیں، تو آپ کے خیال میں وہ کیا ہونا چاہیے؟'

دونوں نے ایک حکمتِ عملی پر تبادلۂ خیال کیا، جس میں وولف نے لکھا: 'میرا خیال ہے کہ تم اسے خود ہی پھنسنے دو۔'

اکتوبر 2016 کی ایک علیحدہ ای میل میں، یعنی امریکی صدارتی انتخابات سے چند روز قبل، وولف نے ایپسٹین کو ایک انٹرویو کی پیشکش کی جو ٹرمپ کے لیے 'تباہ کن' ہو سکتا تھا۔

انسٹاگرام پر جاری ایک ویڈیو میں وولف نے کہا: 'ان میں سے کچھ ای میلز واقعی میرے اور ایپسٹین کے درمیان ہیں، جن میں وہ ٹرمپ سے اپنے تعلقات پر بات کر رہے ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا: 'میں بہت عرصے سے اس کہانی کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔'

وولف اس سے قبل بھی انکشاف کر چکے ہیں کہ انھوں نے 'فائر اینڈ فیوری' کے لیے وقفے وقفے سے ایپسٹین کے انٹرویوز کیے تھے اور وہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ جاری بھی کر چکے ہیں۔

لیری سمرز
EPA
لیری سمرز

لیری سمرز

دستاویزات میں ایپسٹین اور سابق امریکی وزیرِ خزانہ لیری سمرز کے درمیان ای میلز بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے۔

ای میلز کے مطابق دونوں اکثر رات کے کھانے پر ملتے تھے اور ایپسٹین سمرز کو نمایاں عالمی شخصیات سے ملانے کی کوشش کرتے تھے۔ جولائی سنہ 2018 کی ایک ای میل میں ایپسٹین نے انھیں 'اقوام متحدہ کے صدر' سے ملاقات کی تجویز دی اور انھیں 'آپ کے لیے دلچسپ شخصیت' قرار دیا۔

نومبر 2016 میں، ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد سمرز نے ایپسٹین سے کہا کہ وہ 'میرے ساتھ ٹرمپ سے متعلق کسی بھی چیز میں ایک لمحہ بھی صرف نہ کریں۔'

ٹرمپ کے 'مفادات کے ٹکراؤ سے متعلق رویے، (روسی صدر ولادیمیر) پوتن سے قربت' اور کیوبا کے رہنما فیڈل کاسترو کی موت پر 'بے سوچے سمجھے ردِعمل' کے باعث، سمرز نے لکھا کہ 'سب سے بہتر یہی ہے کہ (وہ) لاکھوں میل دور رہیں۔'

سمرز کے ترجمان نے تبصرے سے انکار کیا، لیکن بی بی سی کو اُن کے سابق بیانات کی طرف رجوع کرنے کو کہا۔ سنہ 2023 میں انھوں نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا تھا کہ وہ 'جرم ثابت ہونے کے بعد ایپسٹین سے رابطے میں رہنے پر گہری ندامت' محسوس کرتے ہیں۔

کیتھرین رُوملر

ایوانِ نمائندگان کی اوور سائٹ کمیٹی نے ایپسٹین اور کیتھرین رُوملر کے درمیان متعدد ای میلز جاری کی ہیں۔ روملر وہ وکیل ہیں جو سابق صدر باراک اوباما کے دور میں وائٹ ہاؤس کی جنرل کونسل رہ چکی ہیں۔

اگست سنہ 2018 میں رُوملر اور ایپسٹین نے ٹرمپ کے اس خفیہ رقم کے معاملے پر گفتگو کی جو انھوں نے 2016 کے انتخابات سے قبل ایڈلٹ فلم سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو ادا کی تھی۔ یہ وہی معاملہ ہے جس پر بعد میں ٹرمپ کو کاروباری ریکارڈز میں جعل سازی کا مجرم قرار دیا گیا۔ ٹرمپ اس تعلق کے الزامات کو رد کرتے ہیں۔

یہ گفتگو اس ای میل پر ختم ہوئی جس میں ایپسٹین نے لکھا: 'دیکھا؟ مجھے معلوم ہے ڈونلڈ کتنا گندہ ہے۔'

گولڈمین ساکس، جو اس وقت رُوملرکے چیف لیگل آفیسر اور جنرل کونسل ہیں، نے سی این بی سی کو بتایا کہ وہ روملر کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ترجمان ٹونی فرٹو نے کہا: 'یہ ای میلز اس وقت کی ہیں جب کیتھی رُوملر گولڈمین ساکس میں شامل بھی نہیں ہوئی تھیں۔ وہ ایک غیر معمولی جنرل کونسل ہیں اور ہم ہر روز ان کی بہترین صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔'

سنہ 2023 میں رُوملر نے وال سٹریٹ جرنل سے کہا تھا کہ 'مجھے افسوس ہے کہ میں کبھی ایپسٹین کو جانتی تھی۔'

بی بی سی نے رُوملر اور گولڈمین ساکس سے مزید مؤقف کے لیے رابطہ کیا ہے لیکن ان کی جانب سے ہنوز جواب نہیں آیا ہے۔

پیٹر تھیئل

وقفے وقفے سے ٹرمپ کے حامی رہنے والے ارب پتی پیٹر تھیئل کا نام ایپسٹین کی تازہ ترین دستاویزات میں دوبارہ سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل بھی ان کا ذکر ستمبر میں جاری کردہ دستاویزات میں سامنے آیا تھا۔

نئی جاری کردہ فائلوں کے مطابق، ایپسٹین نے نومبر سنہ 2018 میں تھیئل کو اپنے کیریبین جزیرے پر آنے کی دعوت دی تھی، جہاں ایپسٹین کے بعض جرائم کے سرزد ہونے کا شبہ ہے۔

بی بی سی نے تھیئل فاؤنڈیشن اور ان کے سرمایہ کاری ادارے فاؤنڈرز فنڈ سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔ تھیئل کے ایک نمائندے نے پولیٹیکو کو بتایا کہ تھیئل کبھی اس جزیرے پر نہیں گئے۔

اگست 2024 میں 'دی جو روگن ایکسپیریئنس' پوڈکاسٹ کے ایک پروگرام میں تھیئل نے ایپسٹین پر سخت تنقید کی تھی۔

تھیئل نے کہا تھا کہ 'آپ جانتے ہیں، میں بھی ایپسٹین سے چند بار ملا ہوں۔'

انھوں نے بتایا کہ ان کی ملاقات ایپسٹین سے سنہ 2014 میں سلیلکون ویلی کے ایک اور ایگزیکٹو کے ذریعے ہوئی تھی۔

تھیئل نے کہا: 'میں نے پوچھا ہی نہیں، نہ ہی ان کے بارے میں کافی سوالات کیے۔' ان کے خیال میں 'ایپسٹین کو ٹیکس سے متعلق بہت کچھ معلوم تھا۔'

نوم چومسکی

تازہ دستاویزات میں مشہور 96 سالہ ماہرِ لسانیات نوم چومسکی اور ایپسٹین کے درمیان مزید مراسلت بھی شامل ہے۔ ان کی بیشتر گفتگو علمی یا ذاتی نوعیت کی تھی۔

کبھی کبھار بات چیت کا موضوع ٹرمپ بھی بن جاتے تھے، جیسا کہ دسمبر 2016 میں ہونے والی گفتگو کے دوران ہوا تھا۔

اپنی ای میل میں چومسکی نے ایپسٹین کو لکھا: 'میں نے نوٹ کیا کہ آپ کی یہ پیش گوئی درست نکلی کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے دور رہیں گے کیونکہ وہ اسے بہت حقیر سمجھتے ہیں۔'

بی بی سی نے چومسکی کے نمائندوں سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل کی قبل ازیں رپورٹنگ کے جواب میں چومسکی نے کہا تھا کہ ایپسٹین نے ان کے مختلف کھاتوں کے درمیان رقوم منتقل کرنے میں مدد کی تھی اور اس لکے لیے 'ایپسٹین نے ایک پائی بھی نہیں لی تھی۔' انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ 'میں اسے جانتا تھا اور کبھی کبھار ہم ملاقات کرتے تھے۔'

پیگی سیگل

ایپسٹین نے اپنے خلاف اور اپنے ساتھیوں سے متعلق بڑھتے ہوئے سکینڈل کے دوران پبلسِسٹ پیگی سیگل سے مشاورت کی تھی۔

سنہ 2011 کی ایک ای میل میں ایپسٹین نے سیگل سے کہا کہ وہ ہفنگٹن پوسٹ کی بانی ایریانا ہفنگٹن سے رابطہ کریں تاکہ ورجینیا جوفری کی کہانی کو ناقابل اعتبار بنایا جا سکے۔ جوفری، ایپسٹین اور اینڈریو کے خلاف نمایاں الزامات لگانے والی تھیں۔ لیکن انھوں نے اس سال کے اوائل میں ہی خودکشی کر لی۔

ایپسٹین نے سیگل سے کہا کہ ہفنگٹن کو 'جھوٹے الزامات کے خطرات پر روشنی ڈالنی چاہیے۔۔۔'

ای میل کے تبادلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیگل نے ایپسٹین کو جواب دیا: 'اگر آپ اپنی پچھلی ای میل کو بہتر گرامر میں دوبارہ لکھیں (تاکہ مجھے بہتر سمجھ آ سکے)، تو میں اسے کٹ پیسٹ کر کے اپنی جانب سے ایرِیانا ہفنگٹن کو بھیج سکتی ہوں۔'

فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سیگل نے کہا کہ انھوں نے ایپسٹین کی درخواست کبھی ہفنگٹن تک نہیں پہنچائی۔ انھوں نے کہا: 'میں نے ایریانا کو فون نہیں کیا۔'

سیگل نے مزید کہا کہ ہفنگٹن 'میری تحریریں شائع کرتی تھیں، اور ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ میں اس تعلق کو خطرے میں ڈالتی۔'

لیکن انھوں نے کہا کہ ایپسٹین کا ایسی درخواست کرنا 'غیر معمولی نہیں تھا۔ یہ ایک احمقانہ درخواست تھی۔'

انھوں نے مزید کہا: 'جیفری کی عادت تھی کہ وہ لوگوں کو اپنے وہم و خیال کی دنیا میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا تھا۔'

اسی دوران ہفنگٹن نے پولیٹیکو کو بتایا کہ انھیں 'کبھی رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کبھی کوئی رپورٹ بھیجی گئی۔'


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US