سوڈان میں خانہ جنگی ڈھائی سال سے زائد عرصے سے جاری ہے جس کا جلد خاتمہ نظر نہیں آتا اور اس کی ایک وجہ اس جنگ میں غیر ملکی اداکاروں کی شمولیت ہے جو جنگ میں شامل فریقین کو سیاسی اور عسکری مدد فراہم کرتے ہیں۔
سوڈان میں خانہ جنگی ڈھائی سال سے زائد عرصے سے جاری ہے جس کا جلد خاتمہ نظر نہیں آتاسوڈان میں خانہ جنگی ڈھائی سال سے زائد عرصے سے جاری ہے جس کا جلد خاتمہ نظر نہیں آتا اور اس کی ایک وجہ اس جنگ میں غیر ملکی اداکاروں کی شمولیت ہے جو جنگ میں شامل فریقین کو سیاسی اور عسکری مدد فراہم کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سوڈان کی خانہ جنگی کے دوران 150,000 سے زائد افراد ہلاک اور ایک کروڑ سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔
اسلحہ کی فراہمی پر بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سوڈان کی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز ملیشیا کو بغیر کسی رکاوٹ کے فوجی ساز و سامان مل رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق خطے کے اہم ممالک جو اس تنازع میں دونوں فریقین کی مدد کر رہے ہیں اسے پیچیدہ بنا رہے ہیں جس کے باعث سوڈان سے باہر بھی عدم استحکام پھیل سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ الفاشر میں آر ایس ایف فورسز کی جانب سے متعدد افراد کو ہلاک کیے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ سوڈانی فورسز اور آر ایس ایف کے درمیان دو برسوں سے جھڑپیں جاری ہیں اور اس دوران سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ آر ایس ایف پر الفاشر پر قبضے کے بعد بڑے پیمانے پر قتل عام کا الزام لگایا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں ان غیر ملکی اداکاروں کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے جو سوڈان میں دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک میں اہمیت رکھتے ہیں۔
کون سے ممالک سوڈانی فوج کی حمایت کرتے ہیں؟
خیال کیا جاتا ہے کہ سوڈان کی فوج کو متعدد غیر ملکی اداکاروں کی حمایت حاصل ہے، جن میں مصر، ترکی، ایران، روس اور اریٹیریا شامل ہیں، جن پر براہ راست فوجی مدد فراہم کرنے کا الزام ہے۔
اپریل 2023 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سوڈانی فوج کے کمانڈر جنرل عبدالفتاح البرہان نے پہلا غیر ملکی دورہ مصر کا کیا تھا۔ اس کے بعد سے قاہرہ کی طرف سے سوڈانی فوج کی حمایت کی متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
ریپڈ سپورٹ فورسز اور ان کے رہنما، جنرل حمدان دگولو (جنھیں حمیدتی کے نام سے جانا جاتا ہے) نے بارہا مصر پر ’فوج کو جنگی طیاروں سمیت ہتھیار فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔
قاہرہ میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی اورسوڈانی فوج کے کمانڈر عبدالفتاح البرہان۔ مصر، ایران اور ترکی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سوڈانی فوج کے اہم حامی ہیںقاہرہ کے خلاف تازہ ترین الزام 5 نومبر 2025 کو اس وقت لگایا گیا جب ریپڈ سپورٹ فورسز نے دعویٰ کیا کہ ’غیر ملکی اڈوں‘ سے اڑنے والے ڈرونز نے دارفور کے علاقوں کو نشانہ بنایا تھا۔ آر ایس ایف کے حمایتی میڈیا پیجز نے دعویٰ کیا کہ یہ ڈرون مصر سے لانچ کیے گئے تھے۔
مصر نے اس سے قبل جنگ میں براہ راست ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
ترکی نے باضابطہ طور پر غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ اس نے بھی سوڈانی فوج کو ڈرون فراہم کیے ہیں، جنھوں نے خرطوم سمیت مرکزی علاقوں میں ریپڈ سپورٹ فورسز کی شکست میں کلیدی کردار ادا کیا۔
مارچ 2025 میں، ترک میڈیا نے رپورٹ کیا کہ انقرہ نے سوڈانی فوج کو جنگی ڈرون فراہم کیے تھے، جنھوں نے خرطوم پر قبضے میں مدد دی۔ کچھ ترک ذرائع ابلاغ نے سوڈانی فوج کے لیے مزید حکومتی مدد کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے مارچ 2025 میں رپورٹ کیا تھا کہ ترکی کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی Baykar نے سوڈانی فوج کو ڈرونز اور سینکڑوں وار ہیڈز سمیت ہتھیار فراہم کیے ہیں۔
مڈل ایسٹ آئی نے 6 نومبر کو رپورٹ کیا تھا کہ ترکی اور مصر نے الفشار شہر پر آر ایس ایف کے قبضے کے بعد فوج کے لیے اپنی حمایت میں اضافہ کر دیا ہے۔
مختلف میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ سوڈانی فوج کو روس اور ایران دونوں سے لڑاکا طیارے اور ڈرون ملے ہیں۔
اکتوبر 2024 میں، ریپڈ سپورٹ فورسز کے رہنما حمیدتی نے ایران پر بھی سوڈانی فوج کو مدد فراہم کرنے کا الزام لگایا۔ ایران، جس نے سات سال کے وقفے کے بعد اکتوبر 2023 میں سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کیے تھے، کی جانب سے اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
امریکی بلومبرگ نے اکتوبر 2024 میں دعوی کیا تھا کہ ایران اور روس نے بحیرہ احمر کے ساحل پر فوجی اڈوں کی تعمیر کے حوالے سے سوڈانی فوج کے کمانڈروں سے بات چیت کی ہے۔
ایران نے اس رپورٹ کی تردید کی لیکن روس نے فروری 2025 میں سوڈان کی فوجی حکومت کے ساتھ ایک بحری اڈہ قائم کرنے کا معاہدہ کیا۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس پر ماسکو 2017 سے عمل کر رہا تھا۔
سوڈان کے پڑوسی اریٹیریا نے بھی کھل کر سوڈانی فوج کی حمایت کی ہے۔ جنوری 2025 میں، سوڈانی حامی ملیشیا گروپ نے کہا کہ اس کی افواج کو اریٹیریا میں تربیت دی گئی اور مسلح کیا گیا ہے۔
سعودی عرب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سوڈانی فوج کی حمایت پر زیادہ مائل ہے، حالانکہ اس کا سرکاری موقف غیر جانبدار ہے۔
کون سے ممالک ریپڈ سپورٹ فورسز کی حمایت کرتے ہیں؟
اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات نے جنگ کے آغاز سے اب تک ریپڈ سپورٹ فورسز کو ہتھیار، طبی آلات اور دیگر اقسام کی امداد اور مدد فراہم کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کی طرف سے تصدیق شدہ متعدد رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے چاڈ، جنوبی سوڈان، لیبیا، وسطی افریقی جمہوریہ اور صومالیہ کے راستے ریپڈ سپورٹ فورسز کو جنگی گاڑیاں، ڈرون اور دیگر بھاری ہتھیار فراہم کیے ہیں۔
کینیا نے ریپڈ سپورٹ فورس کے کئی رہنماؤں اور سیاسی ملاقاتوں کی بھی میزبانی کی ہے۔
فروری 2025 میں، کینیا نے ایک اعلیٰ سطحی سیاسی تقریب کی میزبانی کی جس کے دوران ریپڈ سپورٹ فورسز نے اپنی حکومت تشکیل دی۔ اس اقدام نے سوڈانی فوجی حکومت کو نیروبی سے اپنے سفیر کو واپس بلانے پر مجبور کیا۔
سوڈان کی فوجی حکومت نے متحدہ عرب امارات، کینیا اور چاڈ پر ریپڈ سپورٹ فورسز کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے ان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ اس نے لیبیا کی نیشنل آرمی پر بھی اس گروپ کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔
سوڈانی فوج نے جنوبی سوڈان پر کرائے کے جنگجو بھیجنے کا الزام بھی لگایا ہے تاکہ وہ تیزی سے امدادی فورسز فراہم کر سکیں اور ان فورسز کے زخمیوں کے علاج میں مدد کریں۔
متحدہ عرب امارات، کینیا، چاڈ، جنوبی سوڈان اور لیبیا کی نیشنل آرمی نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
ہتھیاروں کی فروخت اور کرائے کے فوجیوں کی موجودگی
کچھ ممالک براہ راست جنگ میں شامل نہیں ہیں لیکن کرائے کے فوجیوں کا ذریعہ اور متحارب فریقوں کے لیے ہتھیاروں کی منڈی بن چکے ہیں۔
اکتوبر 2025 میں، پاکستان اور سوڈانی فوج نے 230 ملین ڈالر کے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جس میں پائلٹ کی تربیت، ڈرونز، بکتر بند گاڑیوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فوجی سازوسامان کی مشترکہ مرمت اور پیداوار شامل تھی۔
حکومت پاکستان نے بارہا سوڈان میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور فریقین کو مزاکرات اور سفارت کاری کی مدد سے حل تلاش کرنے کی تجویز دی ہے۔
کئی سوڈانی ذرائع ابلاغ نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ سوڈانی فوج نے قازقستان اور ازبکستان سے جدید روسی سخوئی لڑاکا طیارے خریدنے کی کوشش کی ہے۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ ریپڈ سپورٹ فورسز نے چینی ساختہ ہتھیاروں اور ڈرونز کا وسیع استعمال کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے یہ سامان چین سے خرید کر ان افواج کو منتقل کیا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ریپڈ سپورٹ فورسز نے بعض افریقی ممالک، یوکرین اور کولمبیا کے کرائے کے فوجیوں، تکنیکی ماہرین اور پائلٹوں کو استعمال کیا ہے۔
صومالیہ کے وزیر دفاع نے 5 نومبر کو اعلان کیا کہ ایک نامعلوم طیارے نے ملک کے شمال مشرق میں بوساسو کی بندرگاہ سے ’کارگو کو سوڈان کے دارفور کے علاقے میں لے جانے‘ کے لیے اڑان بھری تھی۔
انھوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں، لیکن متحدہ عرب امارات مبینہ طور پر بوساسو ہوائی اڈے کو ہتھیاروں کی ترسیل اور تیز رفتار سپورٹ فورسز کے لیے کرائے کے فوجی بھیجنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
مخالفت سے قبل آر ایس ایف حکومتی فوج کی حمایتی تھیحالیہ مہینوں میں، امریکہ نے سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات سمیت چار فریقی میکانزم کی شکل میں اپنی سفارتی کوششوں میں اضافہ کیا ہے، تاکہ پہلے تین ماہ کی جنگ بندی کی جا سکے اور پھر مستقل جنگ بندی کے لیے معاہدہ کیا جا سکے۔
لیکن کہا جاتا ہے کہ مذاکرات میں شامل ’عرب ممالک کے درمیان اختلافات‘ نے جنگ بندی تک پہنچنے کے عمل کو نقصان پہنچایا ہے۔ 6 نومبر کو، ریپڈ سپورٹ فورسز نے مجوزہ جنگ بندی پر اتفاق کیا، لیکن سوڈانی فوج نے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
فوج نے مذاکرات میں متحدہ عرب امارات کی شرکت کی مخالفت کی ہے اور مبینہ طور پر ترکی اور قطر کی شرکت کا مطالبہ کیا ہے۔
دونوں فریقوں کی سخت پوزیشن اور بالواسطہ اور بالواسطہ اتحادوں کی تشکیل کے پیش نظر جنگ کے جلد خاتمے کی امید کم ہے۔