محققین کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہونٹوں پر بوسہ 21 ملین سال (دو کروڑ برس) پہلے شروع ہوا تھا اور یہ ایسی چیز ہے جو انسانوں اور بندروں کے آباؤاجداد میں مشترک ہے۔
محققین کے مطابق ہونٹوں پر بوسہ دینے کا سلسلہ دو کروڑ برس پہلے شروع ہوا تھاانسان بوسہ دیتے ہیں، بندر بوسہ دیتے ہیں حتیٰ کے برفانی ریچھ بھی ایسا کرتے ہیں اور اب محققین نے پتا لگا لیا ہے کہ دنیا میں بوسہ دینے کا آغاز کب ہوا تھا۔
محققین کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ہونٹوں پر بوسہ دینے کا سلسلہ 21 ملین سال (دو کروڑ برس) پہلے شروع ہوا تھا اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسانوں اور بندروں کے آباؤاجداد میں مشترک ہے۔
اسی تحقیق سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ نینڈرتھل بھی بوسہ دیتے تھے اور یہ کہ نینڈرتھل اور انسانوں نے بھی ایک دوسرے کو بوسہ دیا ہو گا۔
سائنس دانوں نے بوسے کی تاریخ کا مطالعہ کیا کیونکہ یہ ایک ارتقائی پہیلی ہے۔ اس کے بقا یا تولیدی فوائد تو نہیں لیکن پھر بھی یہ ایسی چیز ہے جو نہ صرف بہت سے انسانی معاشروں بلکہ جانوروں میں بھی دیکھی جاتی ہے۔
سائنسدانوں نے بوسے کو منہ سے منہ کے رابطے کے طور پر بیان کیا ہے جس میں ہونٹوں یا منہ کے کچھ حصوں میں حرکت شامل ہوتی ہےدوسرے جانوروں میں بوسے کے شواہد تلاش کرنے سے سائنس دان ایک ’ارتقائی خاندانی درخت‘ بنانے میں کامیاب ہوئے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ اس ارتقائی عمل کا آغاز کب ہوا۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ مختلف انواع میں ایک ہی رویے کا موازنہ کر رہے ہیں، محققین کو ’بوسے‘ کی غیر رومانوی اور بالکل درست تعریف واضح کرنی پڑی۔
ارتقا اور انسانی رویوں کے جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین نے بوسہ لینے کو غیر جارحانہ اور زبانی رابطے کے طور پر بیان کیا، جس میں ہونٹوں یا منہ کے کچھ حصوں کا حرکت کرنا شامل ہوتا ہے اور اس عمل کے دوران خوراک کی منتقلی نہیں ہوتی۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی ماہر حیاتیات ڈاکٹر مٹیلڈا برنڈل وضاحت کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ انسان، بندر اور بن مانس سب ہی بوسہ لیتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے خیال میں بوسے کا ارتقا 21.5 ملین (دو کروڑ 15 لاکھ) برس پہلے ہوا۔‘
اس تحقیق میں سائنسدانوں کو ایسے رویے کا پتہ چلا جو بھیڑیوں، قطبی ریچھوں اور مرموٹ یہاں تک کہ الباٹروس میں بوسہ لینے کی سائنسی تعریف سے مماثلت رکھتا ہے۔
سائنسدانوں نے جانوروں اور خاص طور پر بندروں پر توجہ مرکوز کی تاکہ انسانوں میں بوسہ لینے کی ابتدا کی ایک ارتقائی تصویر بنائی جا سکے۔
اس مطالعے میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا کہ نینڈرتھل (انسانوں کے سب سے قدیم اور قریبی رشتہ دار جو 40 ہزار برس قبل ختم ہو گئے) بھی بوسہ لیتے تھے۔
نینڈرتھل کے ڈی این اے پر اس سے قبل ہونے والے والی ایک تحقحق میں پتا چلا تھا کہ دورِ جدید کے انسان اور نینڈرتھل میں پایا جانے والا ایک بیکٹریا مشترک ہوتا ہے جو کہ ہمارے تھوک میں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر برنڈل مزید وضاحت کرتی ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں اور نینڈرتھل کی انواع الگ ہونے کے سینکڑوں برس بعد بھی تھوک کا یہ تبادلہ ہوتا رہا ہے۔‘
بوسہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے غیر انسانی رشتہ داروں اور ہم میں مشترک ہےاس مطالعے میں جہاں یہ بتایا گیا کہ بوسے کا ارتقا کب ہوا وہیں تحقیق یہ نہیں بتا سکی کہ ایسا کیوں ہوا۔
تاہم اس بارے میں بہت سے نظریات پہلے سے موجود ہیں۔ جیسے کہ یہ ہمارے ایپ آباؤ اجداد کے گرومنگ رویے سے پیدا ہوا یا یہ ہمارے ساتھی کی صحت اور یہاں تک کہ ان کے ساتھ ہم آہنگی جاننے کا ایک طریقہ فراہم کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر برنڈل کو امید ہے کہ اس سے اس سوال کے جواب کا دروازہ کھل جائے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے غیر انسانی رشتہ داروں اور ہم میں مشترک ہے۔‘
’ہمیں اس رویے کا مطالعہ کرنا چاہیے اور پاگل پن کہہ کر اسے اس لیے رد نہیں کر دینا چاہیے کیونکہ انسانوں میں اس کے رومانوی معنی ہیں۔‘