ثانیہ زہرہ قتل کیس: عدالت نے شوہر علی رضا کو سزائے موت سنا دی، دیور اور ساس کو بھی عمر قید کی سزا

ثانیہ زہرہ کے والد کا الزام تھا کہ ان کی بیٹی کے قتل کو خودکشی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ ان کی مدعیت میں 11 جولائی کو ثانیہ کے شوہر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں نوجوان لڑکی ثانیہ زہرہ قتل کیس میں سیشن کورٹ نے گذشتہ روز مرکزی ملزم علی رضا کو موت کی سزا سنائی ہے۔

‏ایڈیشنل سیشن جج محسن علی خان نے مقتولہ کے دیور حیدر رضا اور ساس عذرا پروین کو بھی عمر قید کی سزا سنائی جبکہ ‏بری ہونے والوں میں ثانیہ کے سسر جیون شاہ، نند دعا زہرہ اور علی رضا کی سابقہ اہلیہ شامل ہیں۔

یاد رہے کہ ‏مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش 9 جولائی 2024 کو ان کے سسرالی گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، جس کے بعد ‏ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں 11 جولائی کو ان کے شوہر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

گذشتہ برس گرفتاری سے قبل ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے علی رضا نے کہا تھا کہ ثانیہ ان کے بچوں کی ماں تھیں اور وہ انھیں مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

ثانیہ زہرہ کی لاش ملنے کے بعد انھیں بغیر پوسٹ مارٹم کے دفنا دیا گیا تھا تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حکم پر ثانیہ زہرہ کی قبر کشائی کر کے ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ ہے تاہم ثانیہ زہرہ کے والد کا مؤقف تھا کہ ان کی بیٹی کے قتل کو خودکشی کا رنگ دیا گیا۔

ثانیہ زہرہ کی موت نے ملک میں خواتین کی حالت زار اور گھریلو تشدد کے حوالے سے بحث چھیڑ دی تھی۔

’جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں، کوئی اعضا فریکچر نہیں‘

ڈی آئی جی ملتان صادق علی ڈوگر نے اس کیس پر بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا تھا کہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ہم نے والدین کو اسی وقت پوسٹ مارٹم کرانے کا کہا تو انھوں نے ایف آئی آر درج کرانے اور پوسٹ مارٹم سے انکار کر دیا۔‘

’میں نے ان کے گھر جا کر ان سے کہا کہ آپ ایف آئی آر درج کرائیں لیکن فیملی نے انکار کر دیا اور لاش کو دفنا دیا گیا۔‘

ڈی آئی جی ملتان نے بتایا کہ ’ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں چند چیزیں واضح ہیں: جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں، کسی اعضا میں کوئی فریکچر نہیں جبکہ موت کی وجہ گلا گھٹنا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ ثانیہ کو مار کر لٹکایا گیا لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ موت کی وجہ گلے کا گھٹنا ہے۔

’ہم نے معدے سے نمونے بھی لیے تاکہ پتا چل سکے کہ ثانیہ زہرہ کو مرنے سے پہلے کوئی نشہ آور چیز یا زہر تو نہیں دیا گیا تھا۔ ثانیہ کے ناخنوں کے نمونے لیے گئے ہیں، پھندے کے لیے جو رسی استعمال کی گئی، اس کی بھی جانچ کی جا رہی ہے، اگر کسی اور نے پھندا دیا تو اس کا بھی پتا چل جائے گا۔‘

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’نشہ آور چیز کھلا کر یا زہر دینے سے متعلق رپورٹ ایک ہفتے میں آ جائے گی جبکہ ڈی این اے رپورٹ 20 دن تک آئے گی۔‘

’بیٹی کے سسرال میں تحفظ کا قانون بننا چاہیے‘

ثانیہ زہرہ کے والد سید عباس شاہ نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کو قتل کر کے اسے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’پولیس تحقیقات کر کے مجھے یہ بتائے کہ میری بیٹی کا قتل ہوا یا اس نے خود کشی کی اور اگر اس نے خود کشی بھی کی ہے تو اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔‘

انھوں نے اس بات پر بار بار زور دیتے ہوئے کہ ان کی بیٹی کو قتل کیا گیا، کہا کہ ’پولیس تحقیقات کرے کہ سسرال والوں نے ایسا کیا کیا کہ میری بیٹی خود کشی پر مجبور ہو گئی۔ مجھے اپنی بیٹی کی موت کی صاف اور شفاف تحقیقات چاہیے۔‘

انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سید عباس شاہ نے کہا تھا کہ ’جنوبی پنجاب میں لڑکیوں کو کبھی تیزاب پھینک کر تو کبھی آگ لگا کر مار دیا جاتا ہے، ان تمام واقعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ بیٹی کے سسرال میں تحفظ کے لیے قانون بنایا جائے۔‘

’ثانیہ زہرہ موت کے وقت حاملہ تھیں‘

اگرچہ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد کے نشانات ظاہر نہیں ہوئے تھے تاہم ثانیہ کے والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق جب ثانیہ زہرا کی لاش ان کے سسرال کے گھر سے ملی تو ان زبان کٹی ہوئی اور جبڑا ٹوٹا ہوا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق ثانیہ زہرہ کی ٹانگوں پر رسی سے باندھنے کے نشانات کے علاوہ تشدد کے بھی نشانات پائے گئے۔

درج ایف آئی آر کے مطابق ثانیہ کے دائیں رخسار پر خون کے جمنے کے نشانات کے ساتھ ساتھ دائیں آنکھ اور کہنیاں بھی زخمی تھیں۔

ثانیہ زہرہ کے والد کے مطابق ان کی بیٹی موت کے وقت حاملہ تھیں۔

ایف آئی آر میں ثانیہ کے والد نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی بیٹی کا شوہر اکثر اپنی بیوی پر تشدد کرتا تھا اور مار پیٹ کر کے انھیں میکے بھیج دیتا تھا، اسی دوران ثانیہ نے اپنے شوہر کے خلاف فیملی کورٹ میں نان و نفقہ اور حق مہر کا مقدمہ بھی درج کرایا لیکن لیکن بچوں کی خاطر صلح کر لی۔

ثانیہ زہرہ کے والد سید علی عباس شاہ نے درج ایف آئی آر میں یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ ان کی بیٹی کا شوہر ان پر دباؤ ڈالتا تھا کہ ثانیہ کے حصے کی جائیداد ان کے حوالے کی جائے ورنہ وہ ثانیہ کو جان سے مار دے گا۔

دوسری جانب ثانیہ کے شوہر علی رضا نے گرفتاری سے قبل اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کا ثانیہ کے ساتھ جائیداد کا کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ان کا اپنی بیوی کے ساتھ تعلق بہت اچھا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’یہ ہی حقیقت اور مردوں کا اصلی چہرہ ہے‘

ثانیہ زہرہ کی موت کا یہ واقعہ جب سامنے آیا تو سوشل میڈیا پر ان کے نام کا ہیش ٹیگ ٹریڈ کرنے لگا۔ صارفین نے پاکستان میں گھریلو تشدد اور خواتین کے حق وراثت جیسے مسائل پر بات چیت شروع کر دی۔

عمارہ احمد نے لکھا تھا کہ ’میڈیا اور معروف شخصیات کی جانب سے شور تو مچایا جائے گا لیکن قانونی نظام میں اصلاحات اور نظام میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے بہت سے واقعات میں سے ایک ہے جو روز سامنے آتے ہیں۔‘

شانی نامی ایک صارف نے لکھا تھا کہ ’جب بھی پاکستان میں خواتین کے حق وراثت پر بات کی جاتی ہے تو ہر مرد یہ ہی کہتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی خواتین کو ان کا حق دیتا ہے۔‘

https://twitter.com/ThisisOshaz_/status/1811432857891660176

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اگر خواتین اپنی جائیداد اور قیمتی اثاثے شوہروں یا بھائیوں کو نہیں دیتی تو ان کے ساتھ بھی یہ یہی ہوتا ہے جو ثانیہ کے کیس میں ہوا۔ یہ حقیقت اور مردوں کا اصل چہرہ ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا ’یہ کیس پاکستان میں گھریلو تشدد کے مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ مرد اپنے غیر معقول مطالبات کا پورا ہونا اپنا حق سمجھتے ہیں اور اپنا غصہ اپنی بیویوں پر نکالتے ہیں اور اس قدر خوفناک جرم کرنے کے بعد بھی ان کے خاندان ان کی حفاظت کرتے ہیں۔‘

آمنہ نے لکھا ’گھریلو تشدد کا ہر معاملہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب والدین یہ محسوس کرتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ان کی بیٹی کی شادی ہونا لازمی ہے۔ زندہ یا مردہ۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US