پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اور مسلم لیگ ن کا امتحان: یہ ضمنی انتخابات کیوں اہم ہیں؟

پاکستان میں قومی اسمبلی کے چھ اور پنجاب اسمبلی کے سات نشستوں پر ضمنی انتخابات میں پولنگ کا عمل جاری ہے۔ حکمران اتحاد کی سربراہ جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے تمام حلقوں میں اپنے اُمیدوار کھڑے کیے ہیں مگر سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستان الیکشن
Getty Images

پاکستان میں آج قومی اسمبلی کے چھ اور پنجاب اسمبلی کے سات نشستوں پر ضمنی انتخابات میں پولنگ کا عمل جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پولنگ شام پانچ بجے تک جاری رہے گی جس کے ایک گھنٹے بعد ’غیر حتمی و غیر سرکاری‘ نتائج نشر کیے جا سکیں گے۔

حکمران اتحاد کی سربراہ جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے تمام حلقوں میں اپنے اُمیدوار کھڑے کیے ہیں مگر سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کی ترجمان عالیہ حمزہ نے ایکس پر لکھا ہے کہ سوائے حلقہ این اے 129 کے پاکستان تحریکِ انصاف نے تمام حلقوں میں بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، لہذا ووٹرز پولنگ سٹیشنز کا رُخ نہ کریں۔ تاہم ہری پور کے حلقے این اے 18 سے قومی اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی اہلیہ شہرناز اہلیہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ این اے 185 ڈیرہ غازی خان اور پی پی 269 مظفر گڑھ سے ان کی جماعت کے امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔

وفاقی حکومت نے اِن ضمنی انتخابات کے لیے سول آرمڈ فورسز کی تعیناتی کی منظوری دی تھی جس کے تحت فوج اور سول آرمڈ فورسز بطور کوئیک ری ایکشن فورس تعینات ہیں۔ جبکہ صوبہ پنجاب کی پولیس کے مطابق ضمنی انتخابات کے لیے سکیورٹی کے لیے 20 ہزار سے زائد پولیس افسران اور اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

2792 پولنگ سٹیشنز میں سے 408 کو انتہائی حساس اور 1032 کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ سٹیشنز کی مانیٹرنگ کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔

قومی اسمبلی کے جن حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، ان میں این اے 18 ہری پور، این اے 96 فیصل آباد، این اے 104 فیصل آباد، این اے 143 ساہیوال، این اے 185 ڈیرہ غازی خان اور این اے 129 لاہور شامل ہیں۔

جبکہ پنجاب اسمبلی کے سات حلقوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، جن میں پی پی 73 سرگودھا، پی پی 98 فیصل آباد، پی پی 115 فیصل آباد، پی پی 116 فیصل آباد، پی پی 203 ساہیوال، پی پی 269 مظفر گڑھ اور پی پی 87 میانوالی شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف عمران خان
Getty Images

ضمنی انتخابات ہو کیوں رہے ہیں؟

رواں برس اگست میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نو مئی کے کیسز میں انسداد دہشت گردی کی مختلف عدالتوں سے سزائیں پانے والے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے نو اراکین پارلیمان کو نااہل قرار دے دیا تھا۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرز شبلی فراز اور عمر ایوب خان بھی نااہل قرار دیے گئے اراکین پارلیمان میں شامل تھے۔

عمر ایوب کے علاوہ اراکین قومی اسمبلی زرتاج گل، صاحبزادہ حامد رضا، رائے حسن نواز اور رائے حیدر علی خان کو بھی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے اراکین پنجاب اسمبلی محمد انصر اقبال، جنید افضل ساہی اور رائے محمد مرتضیٰ اقبال کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔

فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے دو جبکہ صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔

تحریکِ انصاف نے اعلان کیا تھا کہ جن حلقوں سے اُن کے ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دیا گیا ہے، اُن پر پارٹی اپنے حمایت یافتہ اُمیدوار کھڑے نہیں کرے گی۔

پی ٹی آئی نے صرف لاہور کے حلقہ این اے 129 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نشست سابق گورنر پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر کے والد میاں اظہر کی وفات کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔

آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں میاں اظہر نے مسلم لیگ نواز کے حافظ نعمان کو 30 ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دی تھی۔

منفرد انتخابی نشان اور اُمیدوار

گذشتہ برس ہونے والے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عمران خان کی جماعت سے ان کا انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لے لیا تھا۔

پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ گیا تھا جہاں عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا۔ اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔

گذشتہ برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں نے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا تھا، تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے اُنھیں منفرد انتخابی نشان الاٹ کیے گئے تھے۔

اتوار کے ضمنی انتخابات کے لیے این اے 129 میں حماد اظہر کے بھانجے ارسلان احمد مسلم لیگ نواز کے حافظ نعمان احمد کے مدِمقابل ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے اُمیدوار کو تو شیر کا نشان الاٹ کیا گیا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارسلان احمد کا انتخابی نشان گیزر ہے۔

اسی طرح این اے 18 ہری پور سے عمر ایوب کی اہلیہ شہرناز عمر ایوب کو کیتلی کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے۔

فیصل آباد سے وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کے داماد احمد شہریار جبکہ وزیر مملکت طلال چوہدری کے بھائی بلال چوہدری بھی مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف، عمران خان
Getty Images

’تحریکِ انصاف کو الیکشن میں حصہ لینا چاہیے تھا‘

پاکستان تحریکِ انصاف کا موقف ہے کہ جن حلقوں سے اُن کے ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دیا گیا، وہاں سے وہ الیکشن کا بائیکاٹ کر رہی ہے تاہم این اے 18 ہری پور جہاں سے عمر ایوب خان کو نااہل قرار دیا گیا تھا، وہاں سے اُن کی اہلیہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔

بی بی سی نے اس حوالے سے موقف جاننے کے لیے تحریک انصاف کے رہنماوں سے رابطہ کیا لیکن تاحال اُن کی جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ان ضمنی انتخابات کی اہمیت کا اندازہ اس کے ٹرن آوٹ اور نتائج سے ہو گا۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اتوار کی شب سب سامنے آ جائے گا، جب فارم 45 بھی ہو گا اور فارم 47 بھی ہو گا۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اس میں بھرپور حصہ لینا چاہیے تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ انتخابات سیاسی ماحول کو گرمانے کا ایک موقع ہوتے ہیں جو پی ٹی آئی نے ضائع کر دیا ہے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ہری پور میں پاکستان تحریک انصاف عمر ایوب کی اہلیہ کی بھرپور حمایت کر رہی ہے اور وہاں کے وزیر اعلی سہیل آفریدی نے بھی حویلیاں میں جلسہ کر کے اُن کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان انتخابات کے نتائج کا قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیش میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ حکمران اتحاد کے پاس پہلے ہی دو تہائی اکثریت ہے۔

خیال رہے کہ آٹھ فروری 2024 کے الیکشن میں انتخابی امیدوار یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آئے تھے کہ وہ فارم 45 کے مطابق جیت رہے تھے لیکن جب فارم 47 کے ذریعے ووٹوں کی حتمی گنتی سامنے آئی تو وہ الیکشن ہار چکے تھے۔

فارم 45 میں پولنگ سٹیشن کا نمبر، حلقے کا نام، رجسٹرڈ ووٹرز کی کُل تعداد، ڈالے گئے کُل ووٹوں کی تعداد اور کس امیدوار کے حق میں اس پولنگ سٹیشن میں کتنے ووٹ پڑے ہیں یہ معلومات درج ہوتی ہیں۔

فارم 45 کے ذریعے ہر امیدوار آزادانہ طور پر یہ تصدیق کرسکتا ہے کہ مذکورہ پولنگ سٹیشن میں ان کے حق میں کتنے ووٹ ڈالے گئے ہیں۔

فارم 47 میں ایک پورے حلقے میں کس امیدوار کو کتنے ووٹ ملے ہیں یہ معلومات درج ہوتی ہیں۔

اسی فارم میں یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ ڈالے گئے ووٹوں میں سے کتنے ووٹ تکنیکی طور پر مسترد ہوئے اور یہ مسترد شدہ ووٹ کن کن امیدواروں کے حق میں ڈالے گئے تھے۔

پاکستان الیکشن
Getty Images

این اے 129 پر نظریں

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور کا حلقہ این اے 129 زیادہ توجہ کا مرکز ہو گا کیونکہ مسلم لیگ ن لاہور سے شکست کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں حکمراں جماعت کو ویسے ہی ایک طرح سے برتری حاصل ہوتی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب کے مختلف حلقوں میں بہت سے ایسے اُمیدوار ہیں جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ اُن کا تعلق پاکستان تحریکِِ انصاف سے ہے، جو ووٹ تقسیم کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ لاہور کے حلقہ این اے 129 میں بھی بجاش خان نیازی آزاد اُمیدوار ہیں اور وہ عمران خان کی تصویر کے ساتھ انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ ان کا انتخابی نشان وکٹ ہے۔

سلمان غنی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بینک اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن کوئی مربوط حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہو گا جس کا لامحالہ فائدہ حکمراں جماعت کو ہو گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US