ضمنی انتخابات کے نتائج مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں؟

فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ قومی و صوبائی اسمبلی کی درجن بھر سیٹوں پر انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں مسلم لیگ ن فاتح قرار پائی۔ مگر ان انتخابات کا بائیکاٹ پی ٹی آئی کی سیاست پر کیا اثرات پڑے گا اور کیا حکمراں جماعت مزید مضبوط بن کر اُبھری گی۔
الیکشن
Getty Images

پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 13 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتیجے میں وفاق اور پنجاب میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن فاتح بن کر اُبھری ہے۔ ن لیگ نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی چھ، چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست جیت پائی۔

اگرچہ پاکستان تحریکِ انصاف نے بطور جماعت ان ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا مگر لاہور اور ہری پور میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار میدان میں تھے۔اِسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست (این اے 185 ڈیرہ غازی خان) پر اپنے امیدوار کا اعلان کیا تھا۔

اس صورتحال کے باعث یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ ان ضمنی انتخابات کی ضمن میں ن لیگ کے لیے میدان لگ بھگ خالی تھا۔

پاکستان میں ضمنی انتخابات میں ویسے ہی ہنگامہ خیزی اور دلچسپی زیادہ نہیں ہوتی جس کا اظہار ان انتخابات میں سامنے آنے والے ووٹر ٹرن آؤٹ سے بھی واضح ہے۔ تاہم سوال یہ ضرور ہے کہ اس سب کے باوجود پاکستان کے روایتی میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یہ اتنا زیرِ بحث کیوں ہے؟

فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ درجن بھر سیٹوں پر انتخابات کا انعقاد ہوا۔ یوں بعض پہلو توجہ طلب ہیں کہ مذکورہ ضمنی الیکشن کے نتائج میں سیاسی جماعتوں کے لیے کیا کچھ ہے؟ ان انتخابات کا بائیکاٹ پی ٹی کی سیاست پر کیا اثرات مُرتب کرے گا؟ سب سے بڑھ کر حکمراں جماعت کے لیے ان نتائج کا کیا مطلب ہے؟

مگر پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے چھ حلقوں، جہاں ضمنی انتخابات ہوئے، میں سیاسی جماعتوں کی دلچسپی اور سیاست کا محور کیا رہا؟

کیا ن لیگ کے لیے میدان واقعی خالی تھا؟

الیکشن
Getty Images

تحریک انصاف کے بائیکاٹ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار کھڑا نہ کرنے کے باعث چند مبصرین کا خیال ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے میدان لگ بھگ خالی تھا، لہٰذا حکمراں جماعت کی جیت یقینی تھی۔

یاد رہے کہ رواں ماہ نومبر ہی میں وزیرِ آباد کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 66 سے ن لیگ کے اُمیدوار بلال فاروق تارڑ بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔

تاہم جن چھ قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہوئے اُن میں سے چار حلقے ایسے تھے جہاں ن لیگ کو کسی حد تک مقابلے کا سامنا تھا۔ جیسا کہ ہری پور کے حلقہ این اے 18 میں ن لیگ کے امیدوار بابر نواز خان کے مدِمقابل پاکستان تحریکِ انصا ف کے رہنما عمر ایوب کی اہلیہ تھیں اور یہاں سخت مقابلہ بھی دیکھنے میں آیا۔

این اے 96 (فیصل آباد) میں ن لیگ کے بلال بدر کے مقابلے میں نواب شیر وسیر تھے، جن کا اس حلقے میں اپنا ذاتی ووٹ بینک ہے۔ نواب شیر وسیر نے 8 فروری کا الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑا تھا جبکہ وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اسی حلقہ سے ایم این اے بھی رہ چکے ہیں۔

لاہور کے حلقہ این اے 129 ایک ایسا حلقہ تھا جس کا پی ٹی آئی نے بائیکاٹ نہیں کیا تھا۔ یہاں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار محمد نعمان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارسلان احمد تھے۔ اسی طرح ڈی جی خان کے حلقہ این اے 185 میں ن لیگ کے محمود قادر خان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کھوسہ خاندان کے دوست محمد خان کھوسہ تھے۔

دوست محمد کھوسہ اپنے ذاتی ووٹ بینک اور پارٹی ووٹرز کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بھی مخاطب کر رہے تھے۔

اس حلقے سے تعلق رکھنے والے مقامی سیاسی ورکر اور مبصر امجد سردار کہتے ہیں کہ اس حلقے میں ووٹرز کے رجحاناور نتائج سے یہ اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دوست محمد کھوسہ کو پی ٹی آئی کے ووٹرز نے بھی ووٹ ڈالا۔

پارلیمنٹ میں ن لیگ کی عددی برتری کے بعد پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی چھ نشستیں جیتنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کاپیپلزپارٹی پر انحصار کم ہو گا لیکن یہ معاملہ شاید اتنا سادہ نہیں۔

پیپلزپارٹی کے بعض حلقے، ان چھ نشستوں پر ن لیگ کی کامیابی کو پیپلزپارٹی کی مزاحمتی سیاست کے احیا سے بھی جوڑ کر دیکھ رہے ہیں لیکن کیا واقعی یہ امکان موجود ہے کہ پارلیمان میں ن لیگ کا انحصار پیپلزپارٹی پر نہ رہے؟

فری اینڈ فیئر نیٹ ورک (فافن) سے وابستہ صلاح الدین صفدر کہتے ہیں کہ ’عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی نمائندگی 108 نشستوں سے شروع ہوئی تھی جو مخصوص نشستوں کی نئی تقسیم کے نتیجے میں 126 ہو چکی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ضمنی انتخابات کے بعد اس میں چھ نشستوں کا اضافہ ہونے سے یہ تعداد 132 تک جا پہنچے گی۔ سادہ اکثریت یعنی 169 ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ن لیگ کو مزید 37 ارکان کی ضرورت ہے۔ یہ ہدف ایم کیو ایم (22 ارکان)، پاکستان مسلم لیگ ق (پانچ ارکان)، پاکستان مسلملیگ ضیاالحق (ایک رکن)، نیشنل پارٹی (ایک رکن)، استحکام پاکستان پارٹی (چار ارکان)، بلوچستان عوامی پارٹی (ایک رکن) اور چار آزاد ارکان کی حمایت سے حاصل ہو سکتا ہے۔‘

مذکورہ اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ن لیگ کو پیپلزپارٹی کے بغیر سادہ اکثریت کے لیے چھوٹی جماعتوں پر انحصار کرنا پڑے گا لیکن ملکی سطح پر پیچیدہ اور مفادات پر مبنی سیاسی نظام میں چھوٹی جماعتوں پر انحصار اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔

صلاح الدین صفدر کہتے ہیں کہ ’اگرچہ حکومتی اتحاد پیپلز پارٹی کے بغیر سادہ اکثریتحاصل کرسکتا ہے تاہم آئینی ترمیم جس کے لیے حکومت کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، اس کے لیے حکومتی اتحاد کو پیپلز پارٹی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی 26 ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔ وہاں پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر حکومتی آئینی بل کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو سکتی۔‘

اس حوالے پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما چودھری منظور کہتے ہیں کہ ’سینیٹ میں ن لیگ کے پاس سادہ اکثریت نہیں، سینیٹ میں بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہے۔ کوئی بھی ترمیم پیپلز پارٹی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔‘

کیا اس کا امکان ہے کہ پیپلزپارٹی آنے والے وقت میں اپوزیشن کا کردار نبھائے؟ اس پر چودھری منظور کا خیال ہے کہ ’اپوزیشن میں بیٹھنے کا مسئلہ نہیں، دیکھنا یہ ہو گا کہ آپشن کیا ہیں؟ تاہم یہ تو آنے والے دِنوں میں طے ہو گا۔‘

اس ضمن میں صلاح الدین صفدر کہتے ہیں کہ ’حکومتی اتحادیوں میں سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی جس کے موجودہ ارکان کی تعداد 74 ہے اپوزیشن بینچوں پر جا بیٹھے مگر باقی اتحادی حکومتکے ساتھ رہیں تو بھی وزیراعظم پر عدم اعتماد کی نوبت آنے کا امکان نہیں ہے۔ ایسی صورت میں قائد حزب اختلاف یعنی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پیپلز پارٹی کو ملنے کا امکان بھی پیدا ہو سکتا ہے۔‘

’فی الوقت تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کی تعداد 76 ہے۔ مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک ایک رکن کی حمایت سے یہ تعداد 78 ہو جاتی ہے۔ سو اگر پیپلز پارٹی کی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کی نوبت آئی تو جمیعت علمائے اسلامکے ارکان یہ حتمی تعین کریں گے کہ اپوزیشن لیڈر کی کرسی کس جماعت کے پاس جائے گی۔‘

پی ٹی آئی کا بائیکاٹ اور ضمنی الیکشن پر پارٹی کی مبہم پالیسی

الیکشن
Getty Images

مبصرین کے مطابق موجودہ دور سیاسی لحاظ سے پاکستان تحریکِ انصافکے لیے کڑا ہے، عمران خان جیل میں ہیں اور حالیہ عرصہ میں خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کو بھی تبدیل کیا جا چکا ہے۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنی حکمت عملی بہت واضح اور مربوط رکھنی چاہیے، تاہم اس پس منظر میں جہاں پی ٹی آئی نے لاہور اور ہری پور کی سیٹوں پر اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کو کھڑا کیا مگر دیگر حلقوں کا بائیکاٹ کیا۔

واضح رہے کہ نومبر میں وزیرِ آباد کے حلقہ سے پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کی بدولت ن لیگ کے اُمیدوار بلامقابلہ منتخب ہو گئے تھے۔

سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینا چاہیے تھا، اس سے کچھ شور و غوغا ہوتا اور اُس کے اپنے بیانیے کو فائدہ پہنچتا۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ پی ٹی آئی کے بائیکاٹ سے اس جماعت کی سیاست پر چھایا جمود تبدیل ہو جائے گا۔‘

ان کے مطابق پی ٹی آئی اگر یہ سمجھ رہی تھی کہ جن حلقوں میں ان کی پوزیشن مضبوط ہے، وہاں بائیکاٹ نہ کیا جائے، جیسا کہ ہری پور کا حلقہ ہے، لیکن پھر انھیں وزیر آباد میں بھی بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہاں پی ٹی آئی کے پاس مضبوط خاندان تھا۔

جس طرح کے حالات سے پی ٹی آئی اِس وقت گزر رہی ہے ،اس کا تقاضا یہ ہے کہ پارٹی کی لیڈر شپ کو متفقہ فیصلہ کرنا چاہیے اور پالیسی ایک ہی رکھنی چاہیے۔

چھ نشستوں پر کامیابی اور ن لیگ کا جشن

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ضمنی انتخابات میں کامیابی پر جہاں اُمیدواروں کو مبارکباد دی، وہاں پارٹی کارکردگی کو میاں نوازشریف کی قیادت سے منسوب کیا۔

سابق وزِیراعظم میاں نواز شریف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس کامیابی کو میاں شہبازشریف اور پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نوازشریف کی ’محنت اور بے لوث خدمت‘ قراردیا جبکہ مریم نوازشریف نے خیبرپختونخوا کے شہر ہری پور میں اپنی جماعت کے اُمیدوار کی کامیابی کو پنجاب حکومت کی اپنی کارکردگی سے جوڑا۔

اُن کے مطابق ’خیبرپختونخوا کے عوام کس خدمت سے محروم ہیں، اُن کو سمجھ آ گئی ہے۔‘

مگر مسلم لیگ ن اتنی خوش کیوں ہے اور اس کو اپنی بڑی کامیابی کیوں قرار دے رہی ہے؟

سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ نواز کی بنیادی خوشی ہری پور کی سیٹ پرکامیابی ہے۔ جہاں مقابلے کی صورت میں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار نے سیٹ جیتی اور اس حلقے میں کوئی دھاندلی کی بات بھی زیادہ نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہاں پر انتظامیہ پی ٹی آئی کی اپنی تھی۔‘

مبصرین کے مطابق فروری 2024 کے الیکشن کے بعد یہ ضمنی انتخابات ن لیگ کے لیے اس لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کے نتائج نے پارٹی قیادت کو اعتماد کا جواز دیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US