اسلام آباد کچہری حملہ: ’خودکش حملہ آور افغان شہری تھا اور حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہوئی‘، پاکستانی وزیر اطلاعات کا دعویٰ

پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ 11 نومبر کو اسلام آباد میں ضلعی کچہری کے باہر خودکش حملہ کرنے والا شخص افغان تھا اور اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود نے اپنے کمانڈر داد اللہ کے ذریعے کی تھی۔
اسلام آباد کچہری حملے کے بعد کا منظر
Getty Images
اسلام آباد میں 11 نومبر کو ہونے والے خودکش حملے میں 12 افراد مارے گئے تھے

پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ 11 نومبر کو اسلام آباد میں ضلعی کچہری کے باہر خودکش حملہ کرنے والا شخص افغان تھا اور اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود نے اپنے کمانڈر داد اللہ کے ذریعے کی تھی۔

منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عطااللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے جی 11 سیکٹر میں کچہری پر خودکش حملہ کرنے والے کی شناخت عثمان شنواری کے نام سے ہوئی ہے جو کہ ننگر ہار، افغانستان کا رہائشی تھا۔

وزیرِ اطلاعات کے مطابق شدت پسندوں کا ہدف راولپنڈی اور اسلام آباد تھے لیکن خودکش حملہ آور کسی بھی ہائی سکیورٹی والی جگہ پر نہیں پہنچ سکا اور اسلام آباد کے مضافات میں جو پہلی جگہ ملی اسے نشانہ بنایا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ حملے کے 48 گھنٹے کے اندر انٹیلی جنس بیورو اور سی ٹی ڈی نے اس میں ملوث چار ملزمان ساجد اللہ عرف شینا، کامران خان، محمد ذالی اور شاہ منیر کو گرفتار کر لیا۔

پریس کانفرنس کے دوران ساجد اللہ عرف شینا کا مبینہ اعترافی بیان بھی دکھایا گیا اور وزیرِ اطلاعات نے ساجد اللہ عرف شینا کو مرکزی ملزم قرار دیا۔

وزیر اطلاعات نے دعویٰ کیا کہ ساجد اللہ اس حملے کا ہینڈلر تھا اور وہی حملہ آور اور خودکش جیکٹ لے کر آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ساجد اللہ نے 2015 میں تحریک طالبان افغانستان میں شمولیت اختیار کی اور اس نے افغانستان کے اندر مختلف ٹریننگ کیمپس میں تربیت حاصل کی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ کچہری خودکش حملے کی منصوبہ بندی ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود نے اپنے کمانڈر داد اللہ کے ذریعے کی جو کہ اس وقت افغانستان میں موجود ہے۔

وزیرِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ ساجد اللہ نے اگست 2025 میں افغانستان جا کر داد اللہ سے ملاقات کی اور وہیں خودکش حملے کی منصوبہ بندی کی گئی۔

اسلام آباد کچہری حملے کے بعد کا منظر
Getty Images
عطا اللہ تارڑ کے مطابق خودکش حملہ آور کسی بھی ہائی سکیورٹی والی جگہ پر نہیں پہنچ سکا اور اسلام آباد کے مضافات میں جو پہلی جگہ ملی اسے نشانہ بنایا

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ساجد اللہ اور داد اللہ ایک ایپ کے ذریعے آپس میں رابطے میں تھے اور اس حملے کے لیے ساجد اللہ نے محمد ذالی اور کامران خان کو بھرتی کیا۔

عطااللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ اگست 2025 میں محمد ذالی بھی ساجد اللہ کے ہمراہ افغانستان گئے تھے جہاں انھوں نے کابل میں داد اللہ سے ملاقات کی۔

انھوں نے بتایا کہ داد اللہ نے انھیں راولپنڈی اور اسلام آباد میں خودکش حملے کے حوالے سے نور ولی محسود کے احکامات پہنچائے تھے۔

وزیرِ اطلاعات نے دعویٰ کیا کہ ساجد اللہ نے پاکستان کے واپس آ کر خودکش حملہ آور عثمان شنواری سے ملاقات کی۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ عثمان شنواری کو خودکش جیکٹ اور تمام مواد فراہم کیا گیا اور اس نے جی الیون میں خودکش حملہ کیا۔

خیال رہے کہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ضلعی عدالتوں کے باہر ہونے والے ایک خودکش حملے کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک جبکہ 27 زخمی ہوئے تھے۔

اس وقت وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بتایا تھا کہ خودکش حملہ آور کچہری کے اندر داخل ہونے کے بعد دھماکہ کرنا چاہتا تھا لیکن اسے اندر جانے نہیں دیا گیا اور حملہ آور نے 15 منٹ تک انتظار کرنے کے بعد کچہری کے باہر کھڑی ایک پولیس موبائل کے پاس دھماکہ کیا۔۔

واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ سال کے دوران شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے تاہم ملک کے دارالحکومت میں تین سال بعد خودکش حملے کا واقعہ ہوا ہے۔

خیال رہے اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلکس میں 70 سے زیادہ عدالتیں ہیں اور جس وقت یہ دھماکے ہوئے اس وقت تمام عدالتوں میں سائلین اور وکلا اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آئے ہوئے تھے۔ وکلا کے نمائندوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں چند وکلا بھی شامل ہیں جو دھماکے کے وقت کچہری کے باہر سائلین کے ساتھ موجود تھے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ’انڈیا کی پشت پناہی میں سرگرم‘ شدت پسند گروہ ان حملوں میں ملوث ہیں۔

ایک بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کی دہشتگرد پراکسیوں کی جانب سے پاکستان کے نہتے شہریوں پر دہشتگردانہ حملے قابلِ مذمت ہیں اور انڈیا کو خطے میں پراکسیوں کے ذریعے دہشتگردی پھیلانے کے مکروہ فعل سے باز رہنا چاہیے۔‘

ادھر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسلام آباد میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان حالتِ جنگ میں ہے۔

سوشل میڈیا ایکس پر اپنے پیغام میں خواجہ آصف نے مزید لکھا کہ ’کوئی یہ سمجھے کہ پاکستانی فوج یہ جنگ افغان پاکستان سرحدی علاقے میں اور بلوچستان کے دور دراز علاقے میں لڑ رہی ہے، آج اسلام آباد کچہری میں خود کش حملہ ویک اپ کال (جاگ اٹھنے کا وقت) ہے کہ یہ سارے پاکستان کی جنگ ہے۔ جس میں پاکستانی فوج روز قربانیاں دے رہی ہے اور عوام کو تحفظ کا احساس دلا رہی ہے۔‘

خواجہ آصف نے مزید لکھا ہے کہ ’اس ماحول میں کابل حکمرانوں سے کامیاب مذاکرات سے زیادہ امید رکھنا عبث ہو گا۔ کابل حکمران پاکستان میں دہشت گردی کو روک سکتے ہیں لیکن اسلام آباد تک اس جنگ کو لانا کابل سے ایک پیغام ہے جس کا پاکستان بھرپور جواب دینے کی قوت رکھتا ہے۔‘

افغانستان میں طالبان حکومت نے اس بیان پر کوئی ردِعمل نہیں دیا تاہم طالبان حکومت کے ترجمان برائے وزارتِ خارجہ عبدالقہار بلخی کی جانب سے ایکس پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اماراتِ اسلامی اسلام آباد ار وانا میں ہلاکتوں پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان خود کش حملوں کی مذمت کرتی ہے۔

bbc
BBC
مقامی صحافی کے مطابق انھوں نے دیکھا کہ ایک موٹرسائیکل کورٹ کمپلیکس کے مرکزی دروازے پر کھڑی ہوئی پولیس وین سے ٹکرائی ہے جس سے دھواں نکل رہا تھا۔

عینی شاہدین نے کیا دیکھا

اس موقع پر موجود ایک وکیل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ وہ کچہری کے باہر اپنی گاڑی پارک کر رہے تھے جب انھوں نے ایک زوردار دھماکہ سنا۔

رستم ملک کے مطابق دھماکے کے بعد وکیل اور لوگ کمپلیکس کے اندر بھاگنے لگے۔ انھوں نے متعدد گاڑیوں کو جلتے ہوئے دیکھا۔

ایک نجی ٹی وی چینل کے مقامی صحافی نے، جو ضلعی عدالتوں میں مقدمات کی کوریج کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلکس جاتے ہیں، بی بی سی کے شہزاد ملک کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ پارکنگ میں موٹر سائیکل کی جانب بڑھ رہے تھے جب انھوں نے ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی۔

ان کے مطابق انھوں نے دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل کورٹ کمپلکس کے مرکزی دروازے پر کھڑی ہوئی پولیس وین سے ٹکرائی ہے جس سے دھواں نکل رہا تھا۔

مقامی صحافی کا کہنا تھا کہ چند منٹوں کے بعد ایک اور زور دار دھماکہ پولیس وین کے آگے کھڑی ہوئی ایک سفید رنگ کی کار میں ہوا تاہم ان کے مطابق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس دوسرے دھماکے کی وجہ کیا تھی۔

مقامی صحافی کا کہنا تھا کہ دھماکے اتنے شدید تھے کہ کورٹ کمپلکس میں متعدد عدالتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ انھوں نے متعدد انسانی اعضا بکھرے ہوئے دیکھے جن میں ان کے مطابق مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی شامل تھا۔

مقامی صحافی کے بقول کورٹ کمپلیکس کے باہر سکیورٹی پر موجود ایک پولیس اہلکار، جو خود بھی اس حملے میں زخمی ہوئے، نے اس سر کو شناخت کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے کورٹ کمپلکس میں جانے کی کوشش کی لیکن جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی عدالت میں جانا چاہتا ہے تو اس نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جس کے بعد اسے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US