کچلاک میں نوجوان کے قتل میں اہلیہ کی گرفتاری: ’بیانات میں تضاد بیوی کو شامل تفتیش کرنے کی وجہ بنا‘

حماد خان کے قتل کا مقدمہ ان کے بڑے بھائی زرک خان کی مدعیت میں کچلاک پولیس سٹیشن میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا۔

زرک خان کاکڑ کو جب رات کو چھوٹے بھائی کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی تو یہ ان کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس اطلاع ملنے کے بعد زبان پر بھائی کی زندگی کے لیے دعاؤں کے ساتھ جب میں جلدی سے سِول ہسپتال کوئٹہ پہنچا تو زخموں کے باعث وہ پہلے ہی دم توڑ چکے تھے اور ان کی لاش خون میں لت پت تھی۔‘

یہ کہانی ہے بلوچستان کے دارالحکومت کو ئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں ایک نوجوان حماد خان کاکڑ کی، جنھیں 10 اور 11 نومبر کی درمیانی شب قتل کیا گیا تھا۔

جس گاڑی میں ان کو نشانہ بنایا گیا اس میں ان کی بیوی کے علاوہ کمسن بھانجی بھی موجود تھی لیکن ان دونوں کو اس فائرنگ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

ان کے قتل کی تفتیش سے جُڑے ایک پولیس افسر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ کرائم سین کو دیکھنے پر بظاہر یہ ڈکیتی اور راہزنی کا واقعہ لگ رہا تھا لیکن یہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ بندی کار فرما تھی۔

سیریس کرائمز انویسٹی گیشن ونگ (ایس سی آئی ڈبلیو) کے ایس ایس پی عمران قریشی کا کہنا ہے کہ قتل کے الزام میں مقتول کی بیوی سمیت تین افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے اوراس سلسلے میں تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔

پولیس نے یہ کیسے معلوم کرلیا کہ یہ ڈکیتی یا رہزنی کا کوئی سادہ واقعہ نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کا ایک واقعہ تھا اس کی تفصیل بعد میں لیکن پہلے ذکر خود حماد خان کاکڑ کا۔

حماد خان کاکڑ کون تھے؟

حماد خان کاکڑ کا تعلق کوئٹہ شہر کے نواحی علاقے کچلاک سے تھا۔ تاہم ان کے والدین طویل عرصے سے کوئٹہ شہر میں رہائش پزیر تھے۔

ان کے بھائی زرک خان کاکڑ نے بتایا کہ ’ہم دو بھائی تھے اور حماد خان مجھ سے چھوٹا تھا جس کے باعث وہ ہمارے خاندان کا لاڈلا تھا۔‘

حماد خان نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی تھی اور وہ کوئٹہ میں ایک نجی بینک میں ملازم تھے۔ ان کی عمر 24 برس تھی۔ ایک سال پہلے ان کی شادی عطیہ رحمان نامی ایک نوجوان خاتون سے ہوئی تھی۔

سیریس کرائمز انویسٹی گیشن ونگ کے ڈی ایس پی شیراحمد بلوچ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ مقتول کی بیوی بھی تعلیم یافتہ ہیں اور انھوں نے بی ایس کیا ہوا ہے۔

زرک خان کاکڑ نے گفتگو کے دوران دکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ ’ہمیں ان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے وہم و گمان میں یہ بات نہیں تھی کہ ہمارے ساتھ ایسا سانحہ پیش آسکتا ہے لیکن یہ پیش آیا جو ہمارے خاندان کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔‘

’قتل سے پہلے حماد خان اپنی بیوی کے ساتھ شادی کی تقریب میں گئے تھے‘

زرک خان کاکڑ کہتے ہیں کہ ’میرا بھائی حماد خان اپنی ذاتی گاڑی میں اپنی بیوی اور میری تین سے چار سالہ بھانجی اسما کے ساتھ ایک شادی میں گئے تھے۔ جب وہ رات کو تقریباً ایک بج کر پچاس منٹ پر کوئٹہ چمن روڈ پر کچلاک میں واقع جمیل آباد پہنچے تو نامعلوم افراد نے گاڑی کو روک کر بھائی پر فائرنگ کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب مجھے بھائی پر فائرنگ کی اطلاع ملی تو اس وقت میں جبل نورالقرآن پر واقع اپنے رشتہ دار کےگھر پر تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ محلہ دار بھائی کو طبی امداد کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ پہنچا رہے ہیں اس لیے میں فوری طور پر وہاں پہنچنے کی کوشش کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں سول ہسپتال کے شعبہ حادثات پہنچا تو ان کے جسم پر گولیوں کے بہت سارے زخم ہونے کے باعث ان کی لاش خون میں لت پت تھی۔‘

واقعے کا مقدمہ کچلاک پولیس تھانے میں درج کیا گیا

حماد خان کے قتل کا مقدمہ ان کے بڑے بھائی زرک خان کی مدعیت میں کچلاک پولیس سٹیشن میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق فائرنگ سے حماد خان شدید زخمی ہوئے لیکن ان کی بیوی اور بھانجی محفوظ رہیں۔

زرک خان نے پولیس کو بتایا کہ ’ان کے بھائی کو نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر قتل کیا گیا اور فائرنگ سے ان کے گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ان کے دائیں کہنی، بائیں ران اور سینے پر گولیوں کے دو زخموں کے علاوہ جسم کے دیگر حصوں پر بھی زخم تھے۔

قتل کا مقدمہ قصاص و دیت آرڈیننس کے دفعہ 302 کے علاوہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 427 اور 34 کے تحت درج کیا گیا ہے۔

مقدمے کے اندراج کے بعد اس کی تفتیش سیریس کرائمز انویسٹی گیشن ونگ کے سپرد کی گئی۔

ایس سی آئی ڈبلیو کے ڈی ایس پی شیر احمد بلوچ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ان کے محکمے نے اس کیس کے لیے تفتیشی آفیسر مقرر کیا، جس نے مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا آغاز کیا۔

پولیس کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ ڈکیتی کا عام واقعہ نہیں ہے؟

شیر احمد بلوچ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ کرائم سین کا معائنہ کرنے کے بعد تفتیشی اہلکاروں نے وہاں سے دستیاب شواہد جمع کیے اور دیگر تیکنیکی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

ان کا کہنا تھا چونکہ واقعے کے عینی شاہدین گاڑی میں مقتول کے ساتھ تھے اس لیے ان کی بیوی سے معلومات حاصل کی گئیں جو کہ ملزمان تک پہنچنے اور ان کی گرفتاری میں مددگار ثابت ہوئیں۔

کیس کی تفتیش سے جڑے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چونکہ گاڑی میں سوار مقتول کی بیوی اور بھانجی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ فائرنگ کرنے والوں کا ہدف حماد کاکڑ تھا۔

انھوں نے کہا کہ عینی شاہد کے طور پرمقتول کی بیوی سے پوچھ گچھ کے دوران اس کے بیانات میں تضاد پایا گیا جس کی وجہ سے اسے گرفتار کرکے شامل تفتیش کرلیا گیا۔

اہلکار کے مطابق دوران تفتیش خاتون نے یہ اعتراف کیا کہ انھوں نے بابر علی نامی ایک نوجوان کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنایا۔

ڈی ایس پی شیر احمد بلوچ نے بتایا کہ بابر علی بھی پوسٹ گریجویٹ ہیں اور انھوں نے لاہور اور اسلام آباد سے تعلیم حاصل کی ہے۔

تفتیش سے وابستہ اہلکار کے مطابق وقوعہ کے روز جب حماد کاکڑ کچلاک میں جمیل کراس پر پہنچے تو مبینہ طور پر بابر علی اور ان کے ایک دوست نعمان وہاں موجود تھے، جن میں سے بابرعلی نے پستول سے حماد کاکڑ پر گولیاں چلائیں اور وہ شدید زخمی ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔

ایس سی آئی ڈبلیو کے سربراہ عمران قریشی نے بتایا کہ جب تکنیکی معلومات کچھ اور ہوں اور بیان اس کے برعکس ہو یا بیان میں یکسانیت نہ ہو تو جو تضاد سامنے آتا ہے اس سے مدد مل جاتی ہے، جس کی روشنی میں تفتیش کو آگے بڑھائی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کی تفتیش میں بھی یہی ہوا، جس نے ملزمان تک پہنچنے میں مدد دی۔ شیر احمد بلوچ نے بتایا کہ اس واقعے میں استعمال ہونے والہ آلہ قتل بھی برآمد کرلیا گیا ہے۔

اب تک اس واقعے کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ہے؟

ایس سی آئی ڈبلیو کے ایس ایس پی عمران قریشی نے بتایا کہ تفتیش میں پیش رفت کے بعد مقتول کی بیوی کو گرفتار کر کے عدالت سے ریمانڈ حاصل کی گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں بابرعلی نے مقتول پر فائرنگ کی تھی۔ وہ اس واقعے کےمرکزی ملزم ہیں، جنھیں مقتول کی بیوی کو گرفتار کرنے کے بعد گرفتار کرلیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ ان دونوں کی گرفتاری کے بعد اس قتل میں معاونت کے الزام میں بابرعلی کے دوست نعمان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے ان کا ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد مقتول کی بیوی نے ضابطہ فوجداری کے دفعہ 164 کے تحت پہلے اعتراف جرم کرلیا، جس کے باعث عدالت نے ان کو پہلے جوڈیشل کر دیا۔

ان کے بعد نعمان نے بھی دفعہ 164 کے تحت اعتراف کیا جس پر وہ بھی اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جبکہ مرکزی ملزم بابر علی تاحال جسمانی ریمانڈ پر ہیں جن سے تفتیش جاری ہے۔

اگرچہ کیس کے تفتیشی حکام نے بتایا کہ مقتول کی بیوی اور نعمان نے دفعہ 164کے تحت اعتراف جرم کرلیا ہے لیکن حراست میں ہونے اور تاحال وکیل نہ کرنے کے باعث ان کو موقف معلوم نہیں ہوسکا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US