سرکاری حکام کے مطابق یہ حملہ نوکُنڈی میں واقع ایف سی کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر کیا گیا جس میں پہلے ایک خود کش حملہ آور نے ہیڈکوارٹر کے مین گیٹ پر بارود سے بھری گاڑی کو اُڑایا جس کے بعد دوسرے حملہ آور داخل ہوئے۔
سرکاری حکام کے مطابق یہ حملہ نوکُنڈی میں واقع ایف سی کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر کیا گیا (علامتی تصویر)'نوکُنڈی میں یہ حملہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا جس کی وجہ سے ٹاؤن میں لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔'
نوکُنڈی کے رہائشی وقار احمد، جن کی شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے، نے بتایا ہے کہ کس طرح صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملہ اور جوابی کارروائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔
سرکاری حکام کے مطابق یہ حملہ نوکُنڈی میں واقع ایف سی کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر کیا گیا جس میں پہلے ایک خود کش حملہ آور نے ہیڈکوارٹر کے مین گیٹ پر بارود سے بھری گاڑی کو اُڑایا جس کے بعد دوسرے حملہ آور داخل ہوئے۔ ایف سی کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ایک خودکش حملہ آور کے علاوہ تین دیگر حملہ آور سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں مارے گئے ہیں۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس میں خاتون خود کش حملہ آور بھی شامل تھیں۔ تاحال حکام کی جانب سے اس دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔
اگر اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے تو یہ حالیہ عرصے کے دوران بلوچستان میں کسی خاتون کی جانب سے کیا جانے والا پانچواں خود کش حملہ ہوگا۔
بلوچستان کے بعض دیگر علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے کیمپوں پر اس نوعیت کے حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن معدنیات سے مالا مال اور سٹریٹیجک اہمیت کے حامل ضلع چاغی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔
’فائرنگ کی آوازوں سے علاقہ مکین جاگ گئے‘
وقار احمد نے بتایا کہ سب سے پہلے رات کو سوا 8 بجے کے قریب ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جس کے تھوڑی دیر بعد شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے ساتھ دھماکوں کی بھی آوازیں آتی رہیں جو کہ تواتر کے ساتھ دیر تک جاری رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نوکُنڈی ایک پرامن علاقہ رہا ہے لیکن ’خوفناک دھماکوں اور پھر شدید فائرنگ کی وجہ سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ رات کو دو بجے کے بعد نیند کے غلبے کی وجہ سے ان کی آنکھیں بند ہوگئیں لیکن چار بجے ایک مرتبہ پھر فائرنگ کی شدت سے وہ نیند سے بیدار ہوئے۔
انھوں نے بتایا کہ ’نوکُنڈی والوں کے لیے ایک خوفناک رات تھی جس کا مشاہدہ انھوں نے پہلے نہیں کیا تھا۔'
نوکُنڈی میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سوا آٹھ سے ساڑھے آٹھ بجے کے درمیان سب سے پہلے ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جس نے قرب و جوار کے علاقوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دھماکے کے بعد فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ ساڑھے دس بجے تک شدت کے ساتھ جاری رہا۔ 'پہلے دھماکے کے بعد فائرنگ کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور بڑے سات سے آٹھ دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔'
انھوں نے بتایا کہ رات کو بھی وقفے وقفے سے کیمپ کی جانب سے فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں۔
چاغی پولیس کے سربراہ شریف کلہوڑو نے بتایا کہ خودکش حملے کے بعد حملہ آور کیمپ میں داخل ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیمپ میں کوئیک رسپانس فورس نے ان حملہ آوروں کے خلاف جوابی کاروائی کر کے ان کو ہلاک کیا۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ اس حملے میں پانچ سے زیادہ سکیورٹی اہلکار مارے گئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے لیکن سرکاری سطح پر ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔
چاغی پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ اگر سکیورٹی فورسز کا کوئی نقصان ہوا ہے تو کلیئرنس آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی ان کے بارے میں بتایا جاسکے گا۔
خیال رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی ہے۔
علامتی تصویرکالعدم تنظیم کا نوکنڈی میں اپنی نوعیت کا پہلا حملہ
بلوچستان میں سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں حالات کی خرابی کے بعد جن تنظیموں نے عسکری کارروائیاں شروع کیں ان میں بی ایل ایف کا شمار سب سے بڑی تنظیموں میں ہوتا ہے۔
آواران اور مکران ڈویژن میں کالعدم بی ایل ایف کی جانب سے بڑے حملے ہوتے رہے ہیں لیکن ان میں خودکش یا اجتماعی خود کش حملے شامل نہیں تھے جن کو ان تنظیموں کی جانب سے فدائی یا اپنی جان قربان کرنے والے حملوں کا نام دیا جاتا ہے ۔
کالعدم بی ایل ایف نے نہ صرف تنظیم کی جانب سے اپنی نوعیت کے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ اس کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس میں ایک خاتون خود کش حملہ آور بھی شامل تھیں۔
تنظیم کی جانب سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس خاتون کا نام زرینہ بلوچ عرف تراناگ ماؤ بتایا گیا ہے۔ کالعدم بی ایل اے کے بیان کے مطابق نوکُنڈی میں یہ حملہ تنظیم کے ذیلی ادارے سوب سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے کیا۔
تاحال حکام کی جانب سے ان دعوؤں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
بلوچستان میں حالیہ عرصے کے دوران کالعدم گروہوں کی طرف سے خواتین خودکش حملہ آوروں کا ذکر ہوتا رہا ہے۔
حکام کے مطابق بلوچستان میں سب سے پہلے شاری بلوچ نے خود کُش حملہ کیا اور انھوں نے کراچی یونیورسٹی میں اپریل 2022 میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
جون 2023 کے دوران سمیعہ بلوچ نے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں سکیورٹی فورسز کے قافلے کو نشانہ بنایا۔ اس سے قبل ان کے منگیتر ریحان بلوچ نے اگست 2018 میں ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں چینی کارکنوں پر خود کش حملہ کیا تھا۔
اگست 2024 میں کراچی کے قریب بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں سکیورٹی فورسز کے مرکزی کیمپ کے باہر ماہل بلوچ نامی خاتون نے بارود سے بھری گاڑی کے ساتھ خود کش حملہ کیا تھا۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں ایک خاتون نے قلات شہر کے قریب کوئٹہ کراچی ہائی وے پر سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں پر خودکش حملہ کیا تھا۔
اتوار کی شب نوکنڈی میں خاتون کی خود کش حملے سے قبل جن چار خواتین نے خود کش حملے کیے ان کا تعلق کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے رہا ہے۔
نوکنڈی اور ضلع چاغی کی اہمیت
نوکنڈی بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی کی تحصیل ہے اور نوکنڈی ٹاؤن اسی تحصیل کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔
نوکنڈی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے مغرب میں اندازاً پانچ سو کلومیٹر جبکہ خود ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
نوکنڈی میں حملے کا نشانہ بننے والا ایف سی کا ہیڈکوارٹر کوئٹہ تفتان شاہراہ پر واقع ہے۔
ضلع چاغی بلوچستان کا واحد ضلع ہے جس کی سرحدیں دو ممالک افغانستان اور ایران سے لگتی ہیں۔ اس کے شمال میں افغانستان جبکہ مغرب میں ایران واقع ہے۔
چاغی میں مختلف نوعیت کے معدنیات پائے جاتے ہیں۔ تانبے اور سونے کے دو بڑے معدنی منصونے ریکوڈک پراجیکٹ اور سائیندک پراجیکٹ اسی ضلع میں واقع ہیں۔ ریکوڈک پراجیکٹ نوکنڈی کے سے شمال میں افغانستان کی جانب 110 کلومیٹر فاصلے پرواقع ہے۔
پاکستان نے 1998 میں اپنے نیوکلیئر ٹیسٹ اسی ضلع میں کیے تھے۔
نوکنڈی سمیت ضلع چاغی کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔