پولیس نے چار روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر ملزم کو سنیچر کی شام جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے گاڑی کی ٹکر سے سکوٹی پر سوار دو لڑکیوں کی ہلاکت کے کیس میں فریقین کے درمیان صلح ہونے کے بعد نوعمر ملزم کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
پولیس نے چار روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر ملزم کو سنیچر کی شام جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔
اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم کے ایک اہلکار کے مطابق دورانِ سماعت متاثرہ خاندانوں کی جانب سے ملزم کو معاف کرنے کے بیانات ریکارڈ کرائے گئے۔
پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کے مطابق مرنے والی ایک لڑکی کے بھائی نے ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہو کر بیان دیا جبکہ اس کی والدہ کا بیان آن لائن ریکارڈ کیا گیا۔
اس کے علاوہ دوسری لڑکی کے والد نے بھی عدالت کے روبرو اپنا بیان قلمبند کرایا، جس میں انھوں نے ملزم کو معاف کرنے کی تصدیق کی۔
متاثرہ فیملیز کے بیانات کے بعد عدالت نے ملزم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
اس موقع پر سخت سکیورٹی اقدامات کیے گئے اور میڈیا سمیت کسی کو بھی شخص کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہ تھی۔
واضح رہے کہ کچھ روز قبل اسلام آباد میں پی ٹی وی چوک کے قریب سکوٹی پر جانے والی دو لڑکیاں ملزم کی گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہو گئی تھیں اور اس واقعے کا مقدمہ تھانہ سیکریٹریٹ میں درج کیا گیا تھا۔
پولیس نے تصدیق کی تھی کہ ثمرین اور ان کی دوست تابندہ بتول ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوئیں اور غلط ڈرائیونگ کرنے پر ایک نو عمر لڑکے کو گرفتار کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ ملزم کی عمر 18 برس سے کم ہے اور اسی سبب بی بی سی ان کی شناخت ظاہر نہیں کر رہا۔
اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ حراست میں لیے جانے والا نوعمر لڑکا ایک اعلیٰ عدالتی شخصیت کا بیٹا ہے۔
ہلاک ہونے والی لڑکیاں کون تھیں؟
’ثمرین کا چھوٹا بھائی ارسلان کھنہ پُل پر انتظار کر رہا تھا اور جب انھیں آنے میں تاخیر ہوئی تو ثمرین کو کال کی گئی لیکن فون اٹھانے والی بہن نہیں بلکہ ایک پولیس اہلکار تھا، جس نے بتایا کہ ثمرین اور ان کی سہیلی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ دونوں دم توڑ چکی ہیں۔‘
یہ الفاظ ثمرین کے دوسرے بھائی رضوان تجمل کے ہیں جو اس حادثے سے متعلق مقدمے کے مدعی بنے۔
ثمرین حسین کے بھائی رضوان تجمل کی مدعیت میں اس مقدمے کی درج ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ثمرین پاکستان نیشنل کالج آف آرٹس (پی این سی اے) میں انٹیریئر ڈیزائننگ کا کورس کر رہی تھیں اور پیر کے روز اپنی سہیلی تابندہ بتول کے ہمراہ اپنی سکوٹی پر گھر جا رہی تھیں۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 322، 279 اور 427 کے تحت درج ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا گیا کہ دونوں لڑکیوں کو ایکسیڈنٹ کے بعد طبی امداد کے لیے ہسپتال منقتل کیا گیا تھا تاہم وہ راستے میں ہی دم توڑ گئیں۔
مقدمے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ مدعی کی معلومات کے مطابق ڈرائیور لاپرواہی سے گاڑی چلا رہا تھا، جس کے سبب یہ حادثہ رونما ہوا۔
رضوان تجمل نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بہن ثمرین اپنی سہیلی تابندہ کے ہمراہ روزانہ کالج جاتی تھیں اور واپسی میں تابندہ انھیں کھنہ پُل پر ڈراپ کرتی تھیں، جہاں سے ان کا دوسرا بھائی ارسلان انھیں گھر لے آتا تھا۔
(فائل فوٹو)’ملزم حادثے سے چند لمحے پہلے موبائل پر سنیپ چیٹ ویڈیو بنا رہا تھا‘
اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ جائے حادثہ پر موجود لوگوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ پاک سیکرٹیریٹ کے قریب شاہراہ دستور پر ملزم ’انتہائی غلط انداز‘ سے بڑی گاڑی چلا رہا تھا، جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔
پولیس کی جانب سے ملزم کے ریمانڈ کے لیے دی جانے والی درخواست میں لکھا گیا تھا کہ ملزم نے تفتیش کے دوران بتایا کہ وہ حادثے سے چند لمحے پہلے اپنے موبائل فون پر سنیپ چیٹ ویڈیو بنا رہا تھا تاہم پولیس کے مطابق ملزم نے حادثے کے بعد اپنا موبائل فون پھینک دیا جسے تلاش کیا جانا ہے تاکہ مبینہ ویڈیو کو چیک کیا جا سکے۔
تفتیشی اہلکار نے مزید کہا تھا کہ ملزم کی جانب سے تاحال ڈرائیونگ لائسنس پیش نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد ٹریفک پولیس کے سربراہ ایس ایس پی حمزہ ہمایوں نے بی بی سی اردو کو تصدیق کی تھی کہ اس حادثے سے متعلق ٹریفک پولیس نے جو رپورٹ بنائی، اس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ ملزم کم عمر تھا اور اس کا ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنا ہوا تھا۔
ایس ایس پی حمزہ ہمایوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کہ حادثے میں ہلاک ہونے والی لڑکیوں کے پاس بھی ڈرائیونگ لائسنس موجود نہیں تھا۔