ایک وقت تھا جب پاکستان میں نئی گاڑی کی فوری ڈیلیوری کے لیے شہریوں کو اون منی یا پریمیئم کی مد میں اضافی رقم کی ادائیگی کرنا پڑتی تھی مگر بظاہر اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ مگر وہ کیا عوامل ہیں جو پاکستان میں مختلف آٹو کمپنیوں کو گاڑیوں پر لاکھوں کے ڈسکاؤنٹ اور آسان قرضوں کی پیشکش کرنے پر مجبور کر رہے ہیں؟
یہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں جب پاکستان میں نئی گاڑی کی فوری ڈیلیوری کے لیے شہریوں کو اُون منی (یعنی بروقتڈیلیوری کے لیے اضافی رقم کی ادائیگی) دینا پڑتی تھی۔
اگرچہ قانوناً کمپنیاں 60 روز کے اندر صارفین کو گاڑی ڈیلیور کرنے کی پابند ہوتی ہیں مگر کچھ سرمایہ کار پہلے سے گاڑی بُک کروا لیتے تھے اور اسے اُون منی یا پریمیئم وصول کر کے اصل صارفین کو فروخت کرتے تھے۔
تاہم اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔
رواں سال کے آخری مہینوں کے دوران پاکستان کی مختلف کار بنانے والی کمپنیاں صارفین سے نہ صرف جلد ڈیلیوری کا وعدہ کر رہی ہیں بلکہ گاڑیوں پر خصوصی آفرز بھی دے رہی ہیں، جیسا کہ قیمتوں میں لاکھوں روپے کی کمی، اضافی فیچرز اور آسان اقساط پر ادائیگی وغیرہ۔
اور یہ رجحان ایس یو وی کار کی مارکیٹ میں نمایاں نظر آ رہا ہے جہاں ایک خریدار کے پاس جاپانی، کورین اور چینی آپشنز زیادہ موجودہ ہیں۔
بعض مبصرین کی رائے ہے کہ کار بنانے والی کمپنیوں کی محدود مدت کی یہ آفرز اب ایک ’روایت‘ بن چکی ہے جو اب کئی کمپنیوں کی لائف لائن ہے۔
کِن گاڑیوں پر ڈسکاؤنٹ ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟
پاکستان میں سال کے آخری مہینوں کے دوران کچھ کمپنیاں گاڑیوں میں ایلائے رمز، جدید انفو ٹینمنٹ سسٹم اور انٹیریئر کا رنگ بدل کر اسے لمیٹڈ ایڈیشن کا نام دے رہی ہیں تو بعض کمپنیوں نے فری رجسٹریشن اور لاکھوں روپے کی ڈسکاؤنس آفر بھی دی ہیں۔
اس کی تازہ مثال ٹویوٹا کی ہے جس کی جانب سے پاکستان میں اپنی ’35ویں سالگرہ کے موقع پر‘ فارچونر کی قیمت میں 25 لاکھ روپے کی کمی کی ہے۔ گذشتہ ماہ ٹویوٹا نے اپنی ’ریوو‘ گاڑی (جسے پاکستان میں ڈالا کہا جاتا ہے) پر ’100 فیصد بائی بیک‘ کی آفر دی تھی، یعنی صارفین سے کہا گیا کہ وہ اپنی کار پانچ سال استعمال کے بعد اسی قیمت پر واپس کمپنی کو فروخت کر سکتے ہیں۔
اسی طرح ہنڈا ایٹلس نے اپنی ایچ آر وی کی بُکنگ پر فری رجسٹریشن اور بہتر ٹائرز کی مد میں تین لاکھ روپے کی بچت کی پیشکش کی ہے۔ اور سوزوکی ایوری کی قیمت میں ساڑھے تین لاکھ کی کمی کا اشتہار بھی چل رہا ہے۔
جبکہ چینی آٹو میکر ’چنگان‘ نے اپنی دو گاڑیوں ’ایلسون‘ اور ’اوشان ایکس سیون‘ پر ڈیڑھ سے پانچ لاکھ روپے تک کا ڈسکاؤنٹ دیا ہے جس کی معیاد 31 دسمبر 2025 تک ہے۔
ٹاپ لائن سکیورٹیز میں ڈائریکٹر ریسرچ شنکر تالریجا کی رائے ہے کہ اِن آفرز کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب صارفین کے پاس پہلے کی نسبت کئی زیادہ آپشنز موجود ہیں۔
’پہلے صرف تین جاپانی کمپنیوں کی اجارہ داری تھی اور ایس یو وی کی مارکیٹ نہیں تھی۔۔۔ مگر اب تقریباً ہر برانڈ کی ایس یو وی موجود ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں مقابلہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہر کمپنی سال کے آخر تک اپنا سیلز ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے صارفین کو مختلف قسم کی مراعات دے رہی ہے۔
مثلاً ایم جی پاکستان نے اپنی کاروں پر ’بلا سود‘ اور ’زیرو مارک اپ‘ فنانسنگ کی پیشکش کی ہے۔ جبکہ پانچ سال کی فری مینٹیننس کی مد میں آٹھ لاکھ روپے کی بچت کی آفر بھی دی گئی ہے۔
اسی طرح ہنڈائی نے سوناٹا اور ٹوسون ہائبرڈ ایس یو وی پر 18 ماہ کے آسان اقساط کے پلان لانچ کیے ہیں۔ ہنڈائی نے الانٹرا ہائبرڈ پر فری رجسٹریشن کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی بچت کی پیشکش بھی کی ہے۔
کِیا موٹرز پاکستان کی طرف سے بھی ’سٹونِک‘ اور ’سورینٹو‘ پر ’شرعی تقاضوں کے مطابق‘ ماہانہ اقساط کی سکیم جاری ہے۔
مگر اِن ڈسکاؤنٹس کی ایک وجہ سال کا اختتام بھی ہے۔
شنکر تالریجا کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ ایک ٹرینڈ ہے کہ سال کے آخری ماہ یعنی دسمبر میں گاڑیوں کی سیلز باقی مہینوں کے مقابلے نصف سے بھی کم ہو جاتی ہے جبکہ نئے سال کے پہلے ماہ یعنی جنوری میں گاڑیوں کی زیادہ فروخت ہوتی ہے۔ ’کچھ کمپنیاں نومبر، دسمبر کی بُکنگز پر نئے ماڈل اگلے سال ڈیلیور کرتی ہیں۔‘
استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ میں، اُن کے بقول، جدید ماڈل کی ری سیل ویلیو بہتر ہوتی ہے۔ ’ہر ایک سال پرانے ماڈل کی ری سیل ویلیو گِر جاتی ہے۔‘
آٹو کمپنیاں آفرز دینے پر مجبور کیوں؟
ایک کمپنی کے ایگزیکٹیو نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس ’پرائس وار‘ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آٹو سیکٹر میں مقابلہ تو کڑا ہو چکا ہے اور صارفین کو اس کا فائدہ بھی ہو رہا ہے مگر مارکیٹ کا حجم وہی ہے، یعنی پیداوار نہیں بڑھ رہی۔
ماضی میں محدو سپلائی کے باعث فوری ڈیلیوری کے لیے بعض گاڑیوں پر اون منی یا پریمیئم وصول کیا جاتا تھا مگر اب یہ گاڑیاں باآسانی ڈسکاؤنٹس پر دستیاب ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کئی کمپنیاں اب چین سے گاڑیاں منگوا کر پاکستان میں لانچ کر رہی ہیں جس سے مقامی صنعت کے پاس ماضی جیسا تحفظ نہیں رہا۔ جبکہ گاڑی کی بینک کے ذریعے فنانسنگ پر 30 لاکھ روپے کی حد برقرار ہے اور ہائبرڈ کی بجائے صرف پلگ اِن ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں چھوٹ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد ’گاڑیوں کی طلب کو کم رکھنا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ کچھ کمپنیوں کی تمام گاڑیاں اب ای ایم آئی (آسان ماہانہ اقساط) پر دستیاب ہیں جس سے قلیل مدت میں صارفین کو ڈسکاؤنٹ بھی مل رہے ہیں لیکن ’انڈسٹری نقصان میں جا رہی ہے۔ اگر یہ نقصان مسلسل جاری رہا تو کمپنیوں کا چارم ختم ہو جائے گا۔‘
وہ ٹیلیکام سیکٹر کی مثال دیتے ہیں جہاں وارد پہلے ہی جاز میں ضم ہو چکا ہے جبکہ پی ٹی سی ایل ٹیلی نار کو خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چینی گاڑیوں کی آمد کے بعد جاپانی اور کورین کمپنیوں نے ایسی آفرز دی ہیں جو وہ ماضی میں نہیں دیتی تھیں۔
کمپنی کے ایگزیکٹیو کا کہنا تھا کہ ایسی ڈسکاؤنٹ آفرز سے صارفین کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کو بھی قلیل مدت میں سیلز میں اضافے کی صورت میں فائدہ ہوتا ہے۔ ’یہ اب روایت بن چکی ہے۔ اگر کسی صارف کے پاس گاڑی لینے کے لیے ایک کروڑ روپے ہیں تو اس کے پاس ایک درجن سے زیادہ آپشن ہیں۔‘
مگر وہ اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس صورت میں صارفین کنفیوز بھی ہو سکتے ہیں۔ ’صارف اپنی ضرورت اور بجٹ کا تعین کرے۔۔۔ صرف سوشل میڈیا پر ویڈیوز کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے۔‘
لیکن ان کا کہنا تھا کہ بعض گاڑیوں پر اب بھی بظاہر اون منی وصول کی جا رہی ہے جو حقیقت کے منافی ہے۔ چونکہ اب گاڑیاں زیادہ ہیں اور خریدار کم تو ان کے بقول ’اس مارکیٹ میں بھی اگر کوئی آپ سے اضافے پیسے وصول کرتا ہے تو یہ جعلی ہے۔ اس سے صرف سرمایہ کار فائدہ اٹھاتے ہیں، صارف نہیں۔‘