ایبٹ آباد میں ڈاکٹر وردہ کا قتل: پوسٹ مارٹم میں گلا گھونٹ کر مارنے کا انکشاف، جسم پر تشدد کے نشانات بھی موجود

خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں چار دسمبر کو لاپتہ ہونے والی ڈاکٹر وردہ کی لاش اسی ضلع کے نواحی علاقے سے برآمد کی گئی ہے اور تفتیش کاروں کا دعویٰ ہے کہ ان کی ایک قریبی دوست نے انھیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر قتل کیا ہے۔

خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کی پولیس نے ڈاکٹر وردہ قتل کیس میں مرکزی ملزمہ، ان کے شوہر اور دو دیگر ملزماں کو انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کر کے تین روزہ ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔

ایبٹ آبادسے چار دسمبر کو لاپتا ہونے والی ڈاکٹر وردہ کی لاش اسی ضلع کے نواحی علاقے سے برآمد ہونے کے بعد تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ایک قریبی دوست نے انھیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر قتل کیا ہے۔

پولیس نے تصدیق کی تھی کہ ڈاکٹر وردہ کے قتل کے الزام میں ان کی بچپن کی دوست اور ان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا اور اس کیس میں 67 تولہ سونے کا ذکر بھی کیا گیا۔

ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ مقتولہ نے دو برس قبل دبئی جانے سے پہلے 67 تولہ سونا اپنی ایک دوست کے پاس امانتاً رکھوایا تھا اور ’یہی سونا ڈاکٹر وردہ کے قتل کی وجہ بنا۔‘

ایبٹ آباد پولیس کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمہ کے خاوند کو براہ راست قتل کے مقدمے میں نہیں بلکہ دھوکا دہی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔

’تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ملزمہ کے خاوند نے اپنی اہلیہ کو زیور واپس کرنے سے روکا تھا اور کہا تھا کہ تمہارا وردہ کے ساتھ اور بھی لین دین ہے جب تک وہ طے نہیں ہوتا اس وقت تک زیور واپس نہ کرو۔‘

واضح رہے کہ اس سے قبل پولیس ڈسڑکٹ پولیس افسیر ایبٹ آباد نے بتایا تھا کہ زیور کو بینک میں رکھ کر ایڈوانس لیا گیا تھا۔

ایبٹ آباد تفتیشی افسر کے مطابق ملزمہ کو زیور واپس کرنے سے روکنا ایک خوفناک واردات کا سبب بنا اور اب اس بات پر بھی تفتیش ہو رہی ہے کہ ملزمہ کا شوہر قتل کی سازش میں شریک تھا یا نہیں۔

ایبٹ آباد پولیس نے اس کیس میں انسداد دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی ہیں۔

’ڈاکٹر وردہ کو گلا گھونٹ کر مارا گیا‘

ڈاکٹر وردہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق آٹھ دسمبر کو جب ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لائی گئی تو اس وقت ان کی موت کو 72 گھنٹے گزر چکے تھے۔

ابتدائی پوسٹ مارٹمکے مطابق ان کو گلا گھونٹ کر مارا گیا۔ ان کی گردن کے اردگرد ایسے نشانات ہیں جو کسی رسی یا کپڑے کے ہو سکتے ہیں، جس سے ان کی گردن کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی تھی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر وردہ کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی موجود تھے۔

Dr Wardah
Getty Images

ایف آئی آر میں کیا کہا گیا؟

پانچ دسمبر کو ڈاکٹر وردہ کے والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 18 اکتوبر 2023 کو دبئی جانے سے قبل ان کی بیٹی نے 67 تولہ سونے کے زیورات اپنی دوست کے پاس رکھوائے تھے۔

والد کے مطابق تقریباً تین ماہ قبل ان کی بیٹی واپس پاکستان آئیں اور جب انھوں نے اپنی دوست سے سونے کی واپسی کا مطالبہ کیا تو ملزمہ نے ٹال مٹول کیا۔

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ چار دسمبر کو ’دن تقریباً 11 بجے ملزمہ میری بیٹی کو اپنے ساتھ لے کر اپنے زیرِ تعمیر گھر گئی تھی۔ جب کافی وقت بعد میں نے بیٹی کے موبائل نمبر پر رابطہ قائم کیا تو اس کے ساتھ رابطہ نہ ہو سکا۔ جب اس کی قریبی دوست (ملزمہ) کے ساتھ رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ اس نے ڈاکٹر وردہ کو طلائی کے زیورات واپس کر دیے ہیں۔‘

ایبٹ آباد کے ڈی پی او ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر وردہ کے اغوا کا معاملہ انتہائی سنگین تھا اور مقدمہ درج ہوتے ہی اس کیس کی تفتیش شروع کر دی گئی تھی۔

زیرِ تعمیر گھر میں قتل

ڈی پی او ہارون الرشید کہتے ہیں کہ مقتولہ خاتون ڈاکٹر نے بیرونی ملک جانے سے قبل اپنی قابل اعتماد دوست کے پاس زیور امانتاً رکھوایا تھا اور پولیس کی تفتیش میں پتا چلا کہ اس زیور کی حفاظت کرنے کے بجائے ان کی دوست نے یہ سونا بینک میں رکھوا کر پچاس لاکھ قرض حاصل کیا کیونکہ ملزمہ کے خاندان کو کاروبار میں نقصان ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب مقتولہ ڈاکٹر بیرونی ملک سے واپس آئیں تو انھوں نے زیور کی واپسی کا تقاضا کیا۔ پہلے تو ملزمہ نے ٹال مٹول سے کام لیا مگر جب مقتولہ ڈاکٹر کا تقاضا بڑھنے لگا اور معاملہ سامنے آنے لگا تو ملزمہ نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کا منصوبہ بنایا۔‘

ڈی پی او ہارون الرشید کہتے ہیں کہ ملزمہ نے ڈاکٹر وردہ کو قتل کرنے کے لیے اپنے شوہر کے کاروبار سے منسلک تین ملازمین کی مدد حاصل کی تھی۔

ایبٹ آباد کے تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او زبیر تنولی تحقیقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر وردہ کے خاندان نے پولیس کو مقتولہ کے اغوا کی اطلاع واقعہ رونما ہونے کے آٹھ گھنٹے بعد کی تھی۔

زبیر تنولی کہتے ہیں کہ مقتولہ ملزمہ کے ہمراہ 11 بجے کے بعد ہسپتال سے گئی تھیں اور سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ لیتے ہوئے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر وردہ ملزمہ کے ساتھ اپنی مرضی سے گئی تھیں۔

تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر انھیں ملزمہ نے بتایا تھا کہ مقتولہ کو زیورات واپس کر دیے گئے تھے اور اس کے بعد ڈاکٹر وردہ کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

’مگر یہ بات پولیس کو مطمئن نہ کرسکی۔ اردگرد کے سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ ایک گاڑی زیر تعمیر گھر والی سڑک میں داخل ہوتی ہے اور پھر دس منٹ بعد واپس چلے جاتی ہے۔‘

تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او زبیر تنولی مزید کہتے ہیں کہ پولیس کو ملزمہ کے ڈرائیور نے بتایا کہ ان کی مالکن مقتولہ کے ساتھ گھر آئیں تھیں اور انھوں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ بچوں کو سکول لینے کے لیے ان کے ساتھ چلیں۔

پولیس افسر کہتے ہیں کہ ملزمہ گھر میں پہلے سے ہی موجود تین ملزمان کے پاس مقتولہ کو چھوڑ کر چلی گئیں۔

’ابتدائی تفتیش میں پتا چلا ہے کہ ملزمان نے دس سے پندرہ منٹ میں پھندا لگا کر مقتولہ کو قتل کیا اور ملزمان جس گاڑی میں آئے تھے اسی گاڑی میں مقتولہ کو لے کر دفنانے چلے گئے تھے۔‘

زبیر تنولی کا کہنا تھا کہ ملزمان نے قتل اور دفنانے کی ساری کارروائی ’اندازاً ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں مکمل کی۔‘

پولیس کی نظر میں یہ زیرِ تعمیر گھر مشکوک ہو چکا تھا اور اسی وقت وہاں تلاشی لینے کا فیصلہ کیا گیا۔

زبیر تنولی کہتے ہیں کہ جب اس زیرِ تعمیر گھر میں تلاشی کے لیے پولیس پہنچی تو انھیں بتایا گیا کہ اس گھر کی چابی ایک ملازم کے پاس ہے اور وہی گھر کی تعمیر کروا رہا ہے۔

’پولیس کو پتا چلا کہ ملزمہ کا اپنے اس ملازم کے ساتھ قریبی رابطہ تھا اور جب جدید طریقوں سے تفتیش کو آگے بڑھایا گیا تو ایک مشتبہ نمبر ملا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ جب ملازم سے تفتیش ہوئی تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹر کو قتل کرکے دفنا دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والے تمام ملزمان آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔

File photo
Getty Images

لاش کی برآمدگی

ایبٹ آباد کے ڈی پی او ہارون الرشید کا دعویٰ ہے کہ گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا کہ ڈاکٹر وردہ کو اغوا اور قتل کر کے تھانہ بکوٹ کی حدود میں واقع لڑی بنوٹہ جنگل میں گڑھا کھود کر دفن کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ پولیس کی تحویل میں دیے گئے اعترافی بیان کی عدالت میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

ڈی پی او کا کہنا تھا کہ پولیس نے اب تک 100 سے زائد مقامات پر چھاپے مارے، 35 سے زائد مشتبہ افراد سے تفتیش کی، جرم میں استعمال ہونے والی گاڑیاں، طلائی زیورات سے متعلق سٹامپ پیپر اور چیک قبضے میں لے لیے ہیں۔

کیس کو جدید خطوط، تکنیکی معاونت اور ٹیم ورک کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمہ کے ساتھ مل کر ڈاکٹر وردہ کو قتل کرنے والوں میں ایک چچا بھتیجا بھی ملوث ہیں، جنھیں مبینہ طور پر پیسوں کا لالچ دیا گیا تھا۔

’بیٹی کو ڈاکٹر بنانے پر اپنی جمع پونجی خرچ کر دی‘

ڈاکٹر وردہ کے والد محمد مشتاق پاکستانی فضائیہ کے ریٹائرڈ ملازم ہیں۔ مقتولہ کے خاندانی دوست ڈاکٹر محمد معظم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈاکٹر وردہ کے والد اٹک کے علاقے کے رہائشی ہیں، جنھوں نے ایبٹ آباد کے نجی کالج میں بیٹی کو پڑھانے اور ڈاکٹر بنانے کے لیے اٹک سے ایبٹ آباد میں رہائش اختیار کرلی تھی۔

’ڈاکٹر وردہ کو ڈاکٹر بننے کا شوق تھا جبکہ والد کی بھی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بنے، جس کے لیے انھوں نے ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ساری جمع پونجی بیٹی کو ڈاکٹر بنانے پر لگا دی تھی۔‘

ڈاکٹر محمد معظم خان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر وردہ نے سوگواروں میں دوکم عمر بچے اور خاوند چھوڑے ہیں۔

ان کے شوہر کوریا میں ملازمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر وردہ سنہ 2017 سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔ ’ڈاکٹر وردہ اپنے مریضوں میں بہت مقبول تھیں۔ وہ ہمہ وقت مریضوں کے لیے دستیاب ہوتی تھیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US