اڈیالہ جیل کے باہر جاری احتجاجی دھرنے کی قیادت عمران خان کی بہنیں کر رہی تھیں۔ علیمہ خان، عظمیٰ اور نورین خان کے علاوہ اس دھرنے میں 25 سے 30 کارکنان بھی موجود تھے۔پولیس نے منظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن استعمال کی۔
راولپنڈی پولیس کی جانب سے منگل کو رات گئے واٹر کینن کے استعمال کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر موجود سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہنوں اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنا احتجاجی دھرنا ختم کر دیا ہے۔
منگل کی دوپہر علیمہ خان، نورین خان اور عظمیٰ خان اور پارٹی رہنما و کارکن سابق وزیر اعظم سے ملاقات کی غرض سے اڈیالہ جیل کے باہر پہنچے تھے تاہم جیل حکام کی جانب سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر انھوں نے احتجاج دھرنے کا اعلان کیا تھا۔
منگل کی رات لگ بھگ ڈھائی بجے تک جاری رہنے والے اس دھرنے میں عمران خان کی بہنوں اور کارکنوں سمیت لگ بھگ 30 افراد موجود تھے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن استعمال کیا جبکہ اس دوران پولیس نے وہاں موجود گاڑیوں کو اپنے قبضے میں لیا اور انھیں تھانہ روات منتقل کیا گیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ قبضے میں لی گئی زیادہ تر گاڑیاں سرکاری ہیں اور وہ خیبر پختوانخوا کے مختلف محکموں کی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر اڈیالہ جیل کے باہر پولیس کے کریک ڈؤان کی ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس رات کے اندھیرے میں واٹر کینن کی مدد سے شرکا پر پانی پھینک رہی ہیں اور خواتین سمیت احتجاج میں شامل افراد اس پر احتجاج کرتے ہوئے دھرنے کے مقام سے واپس جا رہے ہیں۔
موقع پر موجود ایک مقامی صحافی اور ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف واٹر کینن کے استعمال کی تصدیق کی ہے۔
تحریک انصاف نے اس عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود عمران خان کے اہلخانے کو اُن سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی اسی لیے اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دیا جا رہا تھا۔
پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’رات دیر گئے تک دھرنا جاری تھا جب شدید سرد موسم میں اچانک واٹر کینن سے اُن (مظاہرین) پر پانی پھینکا گیا، اس سے قطع نظر کہ اس احتجاج میں خواتین بھی شامل تھیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ نہ صرف عمران خان کو ایک قیدی کے طور پر اُن کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے بلکہ احتجاج کے آئینی حقوق کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ عمران خان سے ملاقات ممکن نہیں تھی اور اس بارے میں عمران خان کی بہنوں کو متعدد بار آگاہ کیا گیا تھا اور بعدازاں انھیں مظاہرہ ختم کرنے پر بھی آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی وہ پھر بھی احتجاج کرنے پر باضد تھے۔
تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس جیسے ہی واٹر کینن کا استعمال شروع کرتی ہے تو علیمہ خان اپنے ساتھ موجود لوگوں سے کہتی ہیں کہ ’میری وجہ سے مت گھبرائیں، یہ صرف پانی ہے، پانی سے مت گھبرائیں۔‘
رات گئے دھرنے کے مقام پر کیا ہوتا رہا؟
اڈیالہ روڈ پر پی ٹی ائی کے احتجاج کی کوریج کرنے والے مقامی صحافی بابر ملک کا کہنا ہے کہ عمران خان کی بہنوں اور دیگر کارکنوں کیُ جانب سے فیکٹری ناکے کے قریب دھرنا دیا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ یہ دھرنا منگل کی دوپہر دو بجے شروع ہوا جو رات ڈھائی بجے تک جاری رہا اور اس کے بعد پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کر دیا۔
انھوں نے بتایا کہ منگل کی دوپہر دھرنے کے آغاز پر وہاں پی ٹی ائی کے کارکنوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اور پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی باتیں کی جانے لگیں تو مظاہرین کی تعداد میں کمی آتی گئی۔
دھرنے کے قریب ڈیوٹی پر موجود راولپنڈی پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس حکام نے عمران خان کی بہن علیمہ خان کے ساتھ تین مرتبہ مذاکرات کیے اور انھیں واضح پیغام دیا گیا کہ ان کی عمران خان سے ملاقات نہیں کروائی جاسکتی اس لیے وہ یہ دھرنا ختم کر دیں لیکن انھوں نے پولیس حکام کی اس درخواست کو رد کر دیا۔
پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ علیمہ خان کے مطالبے پر پولیس حکام نے قبضے میں لی گئیں خیبر پختونخوا کے مختلف محکموں کی چھ گاڑیوں اور ان کے ڈرائیورز کو رہا بھی کیا گیا مگر اس کے باوجود دھرنا ختم نہیں کیا گیا۔
بابر ملک کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے کُھلے آسمان تلے دھرنا دیا ہوا تھا اور شام اور پھر رات کو سردی کی شدت میں کافی زیادہ آضافہ ہو گیا تھا جس کے باعث دھرنے کے شرکا جھاڑیوں کو اگ لگا کر سردی کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اڈیالہ جیل کے باہر موجود ایک اور صحافی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی بہنوں نے واپس جاتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ منگل کو بھی اپنے بھائی سے ملاقات کرنے کے لیے دوبارہ آئیں گی۔
انھوں نے بتایا کہ مظاہرین کے پاس کھانے پینے کا سامان نہیں تھا جبکہ ممکنہ مظاہرے کے پیش نظر اڈیالہ جیل کے دو کلومیٹر کی حدود میں انتظامیہ کی جانب سے ہوٹلوں اور تمام مارکیٹوں کو بند کروا دیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’سخت سردی اور کھانے پینے کی اشیا کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مقامی آبادی کے لوگوں کے علاوہ پی ٹی ایی کے کارکن اردگرد کے علاقوں سے کھانے پینے کی اشیا دھرنے میں موجود کارکنوںکو پہنچا رہے تھے۔‘
بابر ملک نے بتایا کہ رات دو بجے کے بعد پولیس حکام نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا جس سے مظاہرین نہ صرف بھیگ گئے بلکہ واٹر کینن کے پریشر کی وجہ سے کچھ مظاہرین نیچے بھی گر گئے جس سے انھیں معمولی چوٹیں بھی آئیں۔
انھوں نے کہا کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کا استعمال نہیں کیا لیکن واٹر کینن کے استعمال کی وجہ سے مظاہرین اُس جگہ سے ایک کلومیٹر پیچھے چلے گئے اور پھر منتشر ہو گئے۔

سوشل میڈیا پر واٹر کینن کے استعمال کی مذمت: ’یہ منظر بہت المناک ہے‘
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین دسمبر کی سردی میں کھلے آسمان تلے موجود مظاہرین پر ٹھنڈے پانی کے چھڑکاؤ کی مذمت کی ہے۔
مبارک خان نامی صارف نے لکھا کہ ’عمران خان کی بہنیں شدید سرد موسم میں اڈیالہ جیل کے باہر اپنے بھائی سے ملاقات کا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔ یہ منظر بہت المناک ہے۔‘
سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایکس پر لکھا کہ ’دسمبر کے مہینے میں رات کے 2 بجے اڈیالہ جیل کے سامنے اپنے بھائی کی ملاقات کے لیے آنے والی بزرگ خواتین پر بدترین تشدد سے ثابت ہو گیا کہ یہ حکومت اور اس کے سرپرست ہی اصل ذہنی مریض ہیں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’عمران خان کی بہنوں کا اپنے بھائی سے ملاقات کا مطالبہ ایک آئینی، قانونی اور انسانی حقوق پر مبنی مطالبہ ہے‘ اور عمران خان کی بہنوں ہر واٹر کینن سے حملہ کرنا فسطائیت ہے۔
ایک صارف نے اس جانب توجہ دلائی کے شدید سردی میں جسم پر ٹھنڈا پانی پڑنے سے بہت سے فوری طبی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔
عمران خان سے ملاقاتیں کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟
منگل کو بھی جیل میں ملاقات کا دن تھا اور اسی لیے بانی پی ٹی ائی کی بہنیں اور کارکن اڈیالہ پہنچ رہے تھے لیکن انھیں جیل کے قریب گورکھپور ناکے پر روکا گیا تو انھوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ پولیس نے جیل جانے والے راستے پر رکاوٹیں کھڑی کر کے بھاری نفری تعینات کر دی۔ کارکنان اور پولیس آمنے سامنے آگئے اور پی ٹی آئی کارکنان نے نعرے بازی شروع کر دی۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر بھی منگل کو عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل جانے کی کوشش کی تھی مگر پولیس نے انھیں رستے میں ہی روک لیا۔
پی ٹی آئی کارکنان کی موجودگی میں بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ملاقاتیں ہوں گی تو حالات میں بہتر ہو سکتی ہے۔‘
یاد رہے کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ عمران خان جیل میں کی جانے والی ملاقاتوں میں پارٹی کو احتجاج اور سیاسی انتشار پیدا کرنے کے احکامات جاری کرتے ہیں۔
گذشتہ ماہ نومبر میں بانی پی ٹی آئی کے خاندان اور پارٹی کے افراد کو اُن سے ملنے کی اجازت نہ ملنے پر تحریک انصاف احتجاج کیا جس کے بعد جیل حکام نے عمران خان کی بہن عظمی خان کو جیل میں ملاقات کی اجازت دی گئی۔
تقریباً ایک مہینے بعد عمران خان سے ملاقات کے بعد اُن کی بہن عظمی خان نے صحافیوں سے مختصر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کی 'صحت الحمد اللہ ٹھیک ہے، مگر وہ بہت غصے میں تھے اور کہہ رہے تھے کہ انھیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔'
وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن سے ان کی ملاقات اس شرط پر کروائی گئی تھی کہ ’وہ بعد میں پریس کانفرنس نہیں کریں گے اور اگر اسی طرح چلتے رہیں گے تو آئندہ بھی ملاقاتوں پر پابندی نہیں لگے گی۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کے بعد بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا ایک فیصد بھی امکان نہیں، ملاقات کسی کی خواہش پر نہیں قانونی بنیادوں پر بند ہوئی ہے۔